کون زیادہ مہلک ہے: ملا مافیا یا شوگر مافیا؟


ملک میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 3 ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 45 بتائی گئی ہے۔ حکومت اور معاشرے کے سب طبقات کسی طرح اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں تاہم ملک کا طاقت ور ملاّ مافیا کسی قیمت پر یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ اجتماعات کرنے سے یہ مہلک وائرس تیزی سے پھیلتا ہے۔ پاکستان میں اس خطرناک مافیا کی جہالت اور سرکشی پر گفتگو کی بجائے، نام نہاد شوگر مافیا کے بارے میں جوش و خروش سے بحث شروع کی گئی ہے۔ وزیر اعظم کے بقول ’ کسی بھی طاقت ور گرو ہ کو عوام کی قیمت پر منافع خوری کی اجازت نہیں دی جائے گی‘۔

اس ماحول میں سادہ سا سوال یہ ہے کہ کیا چینی کی قیمتوں پر بحث اور اس سے منافع خوری کرنے والے سیاسی صنعتکاروں پر الزامات عائد کرنے اور جوابی الزامات سامنے لانے سے کورونا کے خلاف قوم و ملک کی جد و جہد کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جو بظاہر کورونا وائرس کے خلاف قومی کوششوں کا حصہ بننے کے لئے برطانیہ سے واپس پاکستان آئے تھے، نے گزشتہ روز اس حوالے سے رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو اصل قصور وار قرار دینے اور یہ اعلان کرنے میں دیر نہیں لگائی کہ اب دیکھنا ہے کہ اس ’عوام دشمنی‘ پر ان دونوں کو کیا سزا ملتی ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم کی اطلاعات و نشریات کی مشیر فردوس عاشق اعوان نے جوابی حملہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ماضی میں شریف خاندان چینی کی منافع خوری میں حصہ دار رہا ہے۔ جبکہ عمران خان نے ایک طرف کسی قصور وار کو نہ چھوڑنے کا اعلان کیا ہےتو اس کے ساتھ ہی وضاحت بھی کی ہے کہ قصور واروں کا تعین 25 اپریل کو سامنے آنے والی فورنزک رپورٹ کے بعد کیا جائے گا۔ یہ ٹکسالی دعویٰ بھی دہرایا گیا ہے کہ’کسی کو چھوڑا نہیں جائے گا‘۔

ملک میں چینی اور آٹے کی قلت کے حوالے سے سامنے آنے والی ان رپورٹوں میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو نئی ہو یا جس کے طریقہ کار سے عوام و خواص کو یکساں طور سے آگاہی نہ ہو۔ یہ بھی تعجب کی بات نہیں کہ استفادہ کرنے والے اس وقت حکمران جماعت تحریک انصاف کا حصہ ہیں یا عمران خان کے قریبی حلقوں میں شامل ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان عناصر کو کیا اور کیسی سزا دی جاسکتی ہے کیوں کہ بظاہر کسی بھی شخص نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ کابینہ نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی اور پنجاب حکومت نے قومی زرمبادلہ کمانے والے ان ہونہاروں کو ’سبسڈی‘ کی مد میں چند ارب روپے فراہم کردیے۔ اس طرح جب مارکیٹ میں قلت پیدا ہوگئی تو مقامی ذخیرہ اندوزوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔ یہ سادہ سا طریقہ مارکیٹ میکنزم کے عین مطابق اور ملکی سیاسی تاریخ کا آزمودہ ہتھکنڈا رہا ہے۔

یہ طریقہ ماضی میں بھی جاری رہا اور ایف آئی اے کی تازہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد بعض اہم لوگوں اور وزیر اعظم کے ساتھیوں کی طرف انگشت نمائی کے بعد بھی جاری رہے گا۔ ضروری ہے کہ ان گروہوں کی طاقت کو ختم کیا جائے لیکن یہ طاقت محض چند لوگوں کو سزا دینے یا چند اہلکاروں کو نشانہ بنانے سے ختم نہیں کی جاسکے گی۔ یہ طریقہ ملک میں جاری حکمرانی کے نظام کا حصہ ہے۔ جب تک یہ نظام مؤثر اور جامع جمہوری روایت کے ذریعے تبدیل نہیں ہوتا اور منتخب ہونے والے لوگوں کو عوام ووٹ کے ذریعے مسترد کرکے ان مفاد پرستانہ ہتھکنڈوں کے خلاف رائے کا اظہار نہیں کرتے، اس وقت تک کسی دوررس تبدیلی کی توقع کرنا عبث ہوگا۔ اس ایک رپورٹ کی بنیاد پر عمران خان کو کٹہرے میں کھڑا کرنا یا اسے کسی بھی طرف سے سیاسی پوائینٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کرنا ملکی مفاد میں نہیں ہوسکتا۔

اس رپورٹ سے البتہ عمران خان یہ سبق ضرور سیکھ سکتے ہیں کہ بدعنوانی اور قومی دولت لوٹنے کے نعرے دراصل جمہوری تبدیلی کے اس طریقہ کو کمزور کرنے کے لئے لگائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے نظام میں عوام دوست تبدیلی لانا ممکن ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان نے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے باوجود ان عناصر کا آلہ کار بننے کو ترجیح دی ہے جو جمہوری نظام میں نقب لگا کر اسے کھوکھلا اور غیر مؤثر کرنے کے ذمہ دار رہے ہیں۔ عمران خان شکر اور گیہوں کی بلیک مارکیٹنگ کے بارے میں تازہ رپورٹوں کو اگر اپنے سیاسی بیانیہ کی کمزوری دور کرنے کے لئے استعمال کرسکیں تو اب بھی ملک میں اصلاح اور وسیع تر تعاون کی ایسی راہ ہموار ہموار ہوسکتی ہے جو قوم و ملک کی وسیع تر بھلائی و بہبود کے لئے ضروری ہے۔

جو عناصر عمران خان کے چند ساتھیوں پر انگشت نمائی کرتے ہوئے سیاست کرنے کی کوشش کریں گے ، وہ بھی دراصل اسی کھیل کا حصہ بنیں گے جو سیاسی نمائندوں کو مطعون کرنے کے لئے اس ملک میں عرصہ دراز سے کھیلا جارہا ہے۔ اسی طرح اگر عمران خان نے کورونا وائرس سے سامنے آنے والے بحران پر توجہ مبذول کرنے اور اس عظیم کام کی تکمیل کے لئے قومی ہم آہنگی کی طرف پوری توجہ مبذول کرنے کی بجائے چینی کی قیمتوں پر کی جانے والی سیاست کو اپنے خلوص اور راست بازی کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی تو وہ ایک سنگین بحران میں خطرناک غلطی کے مرتکب ہوں گے۔ اگر کسی سرکاری ادارے نے بعض عناصر کی بے اعتدالی کے بارے میں کوئی رپورٹ تیار کی ہے تو اس پر اداروں اور عدالتوں کو فیصلہ کرنے دیا جائے۔ اسے سیاسی کھیل کا حصہ بنا کر برتری ثابت کرنے کی ہر کوشش افسوسناک ہوگی۔

کورونا وائرس کی صورت میں سب سے پہلے تو اس کے پھیلاؤ کو روکنا اور اس کی ہلاکت سے پاکستان میں زیادہ سے زیادہ زندگیوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کام کرنا اہم ہے ۔ تاہم کورونا وائرس کا خاتمہ ہونے کے بعد سامنے آنے والے معاشی اور سماجی حالات سے نمٹنا اصل چیلنج ہوگا۔ یہ کسی بڑے طوفان کے بعد جیسی صورت حال ہوگی۔ جب کوئی آبادی کسی خوفناک طوفان کا سامنا کرتی ہے تو اس کے گزر جانے کے بعد تعمیر و ترقی کا عظیم کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی دوران کسی قوم کی صلاحیت اور دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی قوت کا پتہ چلتا ہے۔

پاکستان کورونا وائرس سے پہلے بھی سنگین مالی حالات کا سامنا کررہا ہے۔ قومی پیداوار کم ہورہی تھی ، سرکاری آمدنی میں اضافہ ممکن نہیں تھا اور حکومت اخرجات پر قابو پانے کے لئے ہاتھ پاؤں ماررہی تھی۔ کورونا کے بعد پاکستان کی قومی پیدا وار میں مزید کمی کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔ برآمدی صنعتوں کو شدید نقصان پہنچ چکا ہوگا اور زر مبادلہ کمانے کی ملکی صلاحیت محدود ہوجائے گی۔ حکومت اس وقت کھربوں روپے کے جو پیکیج دے کر اپنی عوام دوستی کا اعلان کررہی ہے ، کورونا کا طوفان گزرنے کے بعد اس ملک کے عوام کو ہی انہیں ادا بھی کرنا ہوگا۔ ملک کے بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوچکا ہوگا جبکہ پیدا واری صلاحیتوں کو بحال کرنے کے لئے طویل مدت درکار ہوگی۔ یہی موقع ہے کہ حکومت اور اپوزیشن بیک وقت ان ممکنہ حالات کا ادراک کریں اور شوگر مافیا کی سیاست کرنے کی بجائے ملک و قوم کو درپیش اصل خطرات سے آگاہ ہونے اور ان سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کریں۔

شوگر مافیا بھی اپنے سیاسی اثر و رسوخ اور منافع خوری کی لت کی وجہ سے عوام کی جیبیں کاٹنے کا ذمہ دار ہے لیکن اس وقت جو مافیا پاکستانی عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے اور ان کو فکری انتشار کا شکار کرنے کا سبب بن رہا ہے، وہ اس ملک کے علمائے مذہب کا طبقہ ہے۔ حکومت بوجوہ ملک کے مذہبی گروہوں کو ریاست کی اتھارٹی منوانے پر مجبور کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ ایران سے زائرین کی واپسی ہو یا تبلیغی جماعت کے اجتماع کا معاملہ ہو، حکومت لوگوں کو اپنی ہدایات ماننے پر مجبور نہیں کرسکی۔ پنجاب کی وزیر صحت کہہ چکی ہیں کہ رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت کی قیادت سے مارچ کے دوران اجتماع نہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی لیکن انہوں نے حکومت کی بات نہیں سنی۔ یہ اجتماع مقررہ وقت سے دو روز پہلے ضرور ختم کردیا گیا لیکن کورونا کی ہلاکت اور پھیلاؤ کے طریقہ سے عدم آگاہی کی وجہ سے ہزاروں تبلیغی قافلوں کو ملک بھر میں روانہ کردیا گیا۔ اس طرح کورونا وائرس کو کسی رکاوٹ کے بغیر پھیلانے کا اہتمام کیا گیا۔

اسی طرح حکومت نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے مساجد بند کرنے ، نماز باجماعت معطل کرنے اور جمعہ کے اجتماعات نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن ملک بھر کی مساجد میں نماز پنجگانہ کے علاوہ جمعہ کے اجتماعات پر اصرار کیا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے ملک کے مفتیوں اور دینی رہنماؤں کے ایک گروہ کا دعویٰ ہے کہ نماز باجماعت کو معطل نہیں کیا جاسکتا اور مل کر نماز جمعہ کا اہتمام نہ کرنا بنیادی دینی تقاضوں کے خلاف ہے۔ حیرت ہے کہ پاکستان کے علاوہ کسی اسلامی ملک کے مولویوں کو ایسے اعتراض لگا کر حکومت کے فیصلوں کو مسترد کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ گزشتہ جمعہ کو اسلام آباد کی لال مسجد میں مولوی عبدالعزیز نے نماز جمعہ کا اہتمام کیااور اس موقع پر جمع ہونے والے 400 نمازیوں کے سامنے اشتعال انگیز تقریر کی۔ چند ہفتے پہلے ہی یہ مولوی اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت لال مسجد میں خطبہ نہ دینے کا عہد کرچکا تھا۔

پولیس نے مولانا عبدالعزیز کے علاوہ اسلام آباد کے 6 مولویوں کے خلاف مقدمے قائم کئے ہیں۔ اسی طرح ملک بھر میں قانون کی خلاف ورزی پر سینکڑوں اماموں کو وارننگ دی گئی ہے یا ان کے خلاف مقدمے درج کئے گئے ہیں۔ جہلا کی اس جماعت کی حرکتوں کی وجہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہؤا ہے لیکن ان کے خلاف کارروائی پولیس کی مدعیت میں مقدمہ قائم کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ کیوں نہ حکومت میں ان مولویوں کی روک تھام کا حوصلہ ہے اور نہ کوئی عدالت کسی مولوی کو سزا دینے کا ’خطرہ‘ مول لینے کے لئے تیار ہوگی۔

ان حالات میں پاکستانی عوام کو طے کرنا ہو گا کہ کورونا اور اس سے پیدا ہونے والے حالات میں شوگر مافیا زیادہ خطرناک ہے یا ملاّ مافیا اپنے مفادات اور طاقت کے لئے لوگوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر مہلک اور جاں لیوا بنا ہؤا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments