انٹارکٹکا اور موسمیاتی تبدیلی: برف کے ریگستان میں انسانیت کی تلاش


Person wearing a large pair of goggles - in icy Antarctic landscape... also a warm coat and scarf

انٹارکٹکا آنے والا کوئی بھی شخص اس کے شدید موسم اور حُجم سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن بی بی سی کے جسٹن رولیٹ کے مطابق یہاں کا ماحول انسانوں کو اکٹھے ہو کر کام کرنے پر مجبور کرتا ہے جس سے مستقبل کے لیے امید پیدا ہوتی ہے۔

امریکی ریسرچ سنٹر مکگرڈو کے قریب ایک گلیشیئر سے ٹیک آف کرنے کے بعد ہم انٹارکٹکا کے مغربی حصے کی طرف گامزن تھے۔

ایک گھنٹے کے بعد جہاز کی چھوٹی سی کھڑکی سے صرف سفیدی نظر آتی ہے، حدِ نگاہ برف ہی برف۔

ایک گھنے بعد بھی منظر کچھ ایسا ہی ہے۔۔۔ اور اس کے مزید ایک گھنٹے بھی!

امید ہے آپ میری کیفیت سمجھ چکے ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

انٹارکٹکا میں پگھلتا ’ڈومز ڈے‘ گلیشیئر

انٹارکٹکا: برفیلے براعظم کے حیرت انگیز نظارے

انٹارکٹکا میں بحیرۂ راس کو مکمل تحفظ دینے پر اتفاق

Flying across Antarctica

ساڑھے تین گھنٹے کی پرواز آخرکار اختتام کو پہنچی تو معلوم ہوا کہ یہاں سے قریب ترین آبادی وہی امریکی بیس ہے جہاں سے ہم اڑ کر آئے تھے لیکن اب ہمارے اور اس کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا لندن اور ماسکو کے درمیان ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہاں سے وہاں تک ہر طرف صرف برف ہی برف ہے۔

اس برفانی خطے کا رقبہ اتنا وسیع ہے کہ یہاں آنے والا ہر شخص اپہنے آپ کو غیر اہم محسوس کرنے لگتا ہے۔

ہر کوئی یہی کہتا ہے: ’یہاں آ کر آپ کو اپنا آپ چھوٹا لگنے لگتا ہے۔‘

لیکن تھوڑا کریدنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیفیت کسی خوف کی وجہ سے نہیں، کسی کو بھی انٹارکٹکا سے ڈر نہیں لگتا۔

بلکہ اس کی ہیبت میں کئی لوگوں کو ایک عجیب قسم کا سکون محسوس ہوتا ہے، جیسے آپ نے کسی بڑے کی آغوش میں سر رکھ دیا ہو۔

Antarctic landscape with mountains and tents

مصنفہ گیبریئل واکر اس بارے میں لکھتی ہیں کہ ہم سب کو یہ لگتا سوچ کر اچھا لگتا ہے کہ ہماری کوئی اہمیت ہے۔ لیکن اس احساس کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ داری بھی آ جاتی ہے آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو کچھ ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن اس برفانی ریگستان میں آپ کچھ نہیں ثابت کر سکتے، یہاں تو بس زندہ رہنے کی کشمکش ہے۔ یہاں آپ کی انا کو تسکین پہنچانے والی کوئی چیز نہیں۔

لیکن جہاں انا خاموش ہو جاتی ہے وہاں چیزیں آسان ہونا شرع ہو جاتی ہیں۔

ان کے مطابق انٹارکٹکا آپ کو اپنے آپ سے مکالمہ کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ ’میرے لیے کیا اہم ہے؟ مجھے زندگی میں کیا کرنا چاہیے؟ مجھے یہاں رہتے ہوئے کس کی یاد آتی ہے اور مجھے کون یاد کرتا ہوگا؟‘

Tents in Antarctica

لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں بھی کورونا وائرس کے پیش نظر کئی لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو کر اپنے آپ سے ایسے ہی سوال پوچھ رہے ہیں۔

لیکن جونہی ہم اس گلیشیئر کے سامنے پہنچتے ہیں جو ہماری منزل تھا، یہ غیر یقین کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میں ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کی محاذ پر پہنچ گیا ہوں۔

Where the Thwaites glacier meets the sea

یہاں زمین، سمندر اور برف کے درمیان جری کشمکش اس سرزمین کو کیسے بدل رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بلند و بالا گلیشیئر جو سطح سمندر سے تقریباً ایک میل اونچا اور 100 میل چوڑا ہے، پگھل پگھل کر سمندر میں گھل رہا ہے۔

Where the Thwaites glacier meets the sea

اس عمل کے اثرات صرف مغربی انٹارکٹکا کے موسم پر ہی نہیں پڑتے بلکہ دنیا کا درجہ حرارت بھی بڑھاتے ہیں۔

لحاظہ یہ تصور کہ انٹارکٹکا میں برف حاوی ہے درست نہیں۔ اصل میں ہم برف پر حاوی آ گئے ہیں۔

Man and plane on skis

لیکن مجھے اپنے آپ پر حیرانی ہے۔ ایک ساتھی جب میرا انٹرویو کرنے آئے تو میں رو پڑا!

اپنے احساسات پر قابو پانے میں ابھی مجھے وقت لگے گا۔

Justin Rowlatt (right) jumping with colleagues and a scientist in Antarctica

تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp