وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا بی بی سی اردو کے ساتھ خصوصی انٹرویو: ’لاک ڈاؤن پہلے عمل میں آتا تو جانیں بچ سکتی تھیں‘


مراد علی شاہ

جہاں ایک طرف پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ملک میں مکمل لاک ڈاؤن کی اس لیے مخالفت کر رہے ہیں کہ اس سے غریب کی زندگی بُری طری متاثر ہوگی تو دوسری جانب صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ جلدی لاک ڈاؤن کرنے سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا تھا۔

بی بی سی اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید کا کہنا تھا کہ ملک میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے حکمت عملی کے حوالے سے 13 مارچ کو اسلام آباد میں اجلاس ہوا تھا جس میں سندھ حکومت نے جلد سے جلد ملک میں لاک ڈاون کرنے کی تجویز دی تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت نے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے 21 مارچ کو صوبے میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا تھا۔

وزیر اعلیٰ سندھ کورونا وائرس کی مقامی منتقلی کی ایک بڑی وجہ بیرون ملک سے آنے والے پاکستانی شہریوں کو بھی سمجھتے ہیں۔

ان کے مطابق اگر وفاقی حکومت ان کی بات مان لیتی اور 15 مارچ سے ملک میں لاک ڈاون نافذ کر دیا جاتا تو رائیونڈ کے تبلیغی اجتماع میں شریک متاثرہ افراد سے اس کا پھیلاؤ ممکن نہ ہوتا۔

 

وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں کیا اس وقت ایک ہی صفحے پر ہیں؟ اس سوال کے جواب میں سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ موجودہ وقت میں ایک قومی سطح کی ٹاسک فورس بنی ہوئی ہے اور تمام صوبے اس کے رکن ہیں۔ ایک ہی پالیسی ہے باقی عملدرآمد میں کہیں کہیں تھوڑا بہت فرق آ جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’15 مارچ کو اگر لاک ڈاون ہو جاتا تو پورے ملک پر فرق پڑنا تھا، میں جلد لاک ڈاون کرنا چاہا رہا تھا لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا اگر بیرون ملک اور دیگر صوبوں سے لوگ آ رہے ہوتے۔ یہ وائرس یا ہم لوگ کسی جزیرے میں نہیں رہتے ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اگر پورے ملک میں یکساں پالیسی ہوتی تو زیادہ اثر ہوتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ نے سوچنے میں یا عملدرآمد میں دیر کردی کہ میں پرفیکٹ حل دیکھوں اس سے نقصان زیادہ ہو گا بنسبت اس کے کہ آپ نے جلدی کام کیا اور سو فیصلے لیے اس میں سے پچاس غلط تھے اس سے آپ کو کم نقصان ہو گا۔‘

پاکستان میں سب سے زیادہ تعمیراتی منصوبے کراچی میں جاری ہیں، لاک ڈاون کے دوران وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے تعمیراتی شعبے کو رعایت دینے کے اعلان پر سندھ کے وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ وہ بھی اس اجلاس میں موجود تھے یہ رعایت لاک ڈاون کے بعد کی ہے اس میں ایک ماہ تو لگ ہی جائے گا۔

کورونا

مراد علی شاہ نے بی بی سی کے ریاض سہیل کو بتایا کہ اگر لاک ڈاون 15 مارچ کو ہو جاتا تو پورے ملک پر فرق پڑتا

تبلیغی جماعت اور بیرونِ ملک سے آنے والے افراد کے ذریعے وائرس کا پھیلاؤ

وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ ’ہماری اطلاعات کے مطابق تبلیغی جماعت میں جو وائرس پھیلا ہے وہ رائیونڈ کے اجتماع سے پھیلا اگر 15 مارچ سے لاک ڈاؤن ہو جاتا تو تبلیغی جماعت والے مبلغین رائیونڈ سے نہ نکل پاتے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ وائرس تو بیرون ملک سے آنے والے افراد کے ذریعے پاکستان میں پھیلا ہے مگر رائیونڈ میں ہونے والے اجتماع میں اس نے مقامی طور پر جس کسی کو متاثر کیا، وہ جب وہاں سے نکلا تو اس نے باقی لوگوں کو بھی متاثر کیا۔‘

مراد علی شاہ کے مطابق جب ان کی حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو بین الصوبائی ٹرانسپورٹ بھی روک دی گئی۔ تاہم اس سے پہلے ہی تبلیغی جماعت کے کارکن سندھ میں داخل ہو چکے تھے اور اپنے اپنے علاقوں میں موجود تھے۔

سید مراد علی شاہ کے مطابق جب خدشات بڑھے تو تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کے حیدرآباد میں ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے کچھ مثبت آئے۔

انھوں نے بتایا کہ سندھ میں ان افراد کی تعداد پانچ ہزار کے قریب تھی۔ ان سب سے درخواست کی گئی کہ جہاں جہاں بھی مساجد میں، مدرسے یا تبلیغی مرکز میں ان کا قیام ہے وہ ادھر ہی رہیں، حکومت کی کوشش ہوگی کہ ان سب کو کھانے پینے کی سہولت فراہم کی جائے۔

’پانچ ہزار لوگوں کا ٹیسٹ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس میں 14-15 دن لگ جائیں گے لہذا یہ فیصلہ کیا ہے کہ 15 روز ہم انھیں اپنی اپنی جگہ پر آئسولیشن میں رکھیں گے۔ اگر کسی کی طبیعت خراب ہوتی ہے تو اس کو فوری طور پر ہسپتال لے جائیں گے اور اگر ضرورت پیش آئی تو ہسپتال میں داخل کریں گے۔‘

ان کے بقول جو زائرین ایران سے بذریعہ سڑک آئے تھے انھیں تو قرنطینہ کر لیا گیا تاہم جو افراد مختلف ہوائی اڈوں پر اترے، یہ وائرس ان سے پھیلا ہے۔

’ایران سے جو بذریعہ تفتان زائرین آئے تھے ان کی تعداد 1300 سے زائد تھی۔ ان سب کو قرنطینہ میں رکھا اور ایک ایک کا ٹیسٹ کیا جن میں سے 280 متاثرہ نکلے۔ جن کے ٹیسٹ نگیٹیو آئے تھے ان کو بھی 14 دن رکھا گیا اور سینٹر چھوڑنے سے قبل ان کا دوبارہ ٹیسٹ لیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ان میں سے کوئی پازیٹو تو نہیں ہے۔ جب ان کے ٹیسٹ دوبارہ نگیٹیو آئے تو ہم نے ان کو چھوڑا گیا۔ میں محتاط اندازے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ وائرس ان زائرین سے نہیں پھیلا۔‘

کورونا

وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے ایئرپورٹس پر آنے والے افراد کا پہلے دن سے خیال کرنا چاہیے تھا جبکہ وفاقی حکومت کی ساری توجہ اور نگاہیں ایران سے آنے والوں پر تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’صرف سندھ میں 67 ایسے متاثرہ افراد ہیں جو بیرون ملک سے آئے ہیں۔ ان میں سے صرف چھ نے ایران کا سفر کیا جبکہ زیادہ تر برطانیہ سے آنے والے ہیں۔‘

لاک ڈاؤن صحیح فیصلہ تھا

سید مراد علی شاہ لاک ڈاؤن کے فیصلے کو درست اقدام سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پوری دنیا کا یہ ہی تجربہ ہے کہ اس سے وائرس پھیلنے کی رفتار کم ہوتی ہے کیونکہ یہ وائرس ایک دوسرے سے ملنے جلنے کی وجہ سے ہی پھیلتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہم نے رضاکارانہ اور اس کے بعد طاقت کے زور پر لوگوں کا باہر نکلنے کا بہانہ ختم کیا تاکہ وہ گھروں میں رہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سے بہت فائدہ ہوا ہے۔‘

سندھ سمیت پاکستان میں لاک ڈاون 14 اپریل تک جاری رہے گا تاہم وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے لاک ڈاون میں نرمی لائیں گے۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس وائرس کے بعد دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔ ہم ہر شعبے اور صنعت میں کام کرنے والوں کے لیے اصول و صوابط بنائیں گے ان پر اس وقت تک عملدرآمد کرنا ہو گا جب تک اس کورونا وائرس کی ویکیسن نہیں بن جاتی۔‘

شعبہ صحت کے ماہرین کا ماننا ہے کہ اپریل کے وسط اور اختتام تک پاکستان میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ کئی گنا بڑھ جائے گا۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ کتنا بڑھے گا اس کا درست جواب کسی کے پاس نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس درست اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں۔

نبیل

بی بی سی کے محمد نبیل نے انٹرویو کے دوران حفاظتی اقدامات کا خیال رکھا

ایک دن میں 5000 ٹیسٹ کرنے کی امید

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سندھ میں نو ہزار سے کم ٹیسٹ کیے ہیں جبکہ سندھ کی آبادی پانچ کروڑ ہے، اگر ہم نو ہزار کی جگہ 90 ہزار ٹیسٹ کرتے تو اس کی گنجائش ہمارے پاس نہیں تھی۔ ہم نے جب کورونا ٹیسٹ کا آغاز کیا تھا تو پہلے دن گنجائش 80 ٹیسٹ یومیہ تھی اب یہ 2200 ٹیسٹ یومیہ تک پہنچ چکی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہماری کوشش ہے کہ پانچ ہزار کا ٹارگٹ جلد حاصل کریں۔ اگر ہمارے پاس ایک لاکھ ٹیسٹوں کے نتائج ہوتے تو ہم بہتر انداز میں اعداد وشمار بتا سکتے تھے۔‘

کراچی سمیت سندھ کے تمام اضلاع میں آئسولیشن سیٹر قائم ہیں جن میں سے کراچی، سکھر، لاڑکانہ، حیدرآباد کے زیادہ فعال ہیں۔

وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ہم اس وائرس پر اس وقت تک قابو نہیں پاسکتے جب تک ہمارے پاس صحت کی مناسب سہولیات دستیاب نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ بہت سارے ترقی یافتہ مغربی ممالک میں صحت کی ناکافی سہولیات یا ان سہولیات کے زوال پذیر ہو جانے سے وہ ممالک زیادہ متاثر ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہمیں اس وائرس پر قابو پانا ہے تو ہمیں صحت کے شعبے میں سہولیات کو بہتر کرنے پوری قوت لگانی چاہیے، اس لڑائی میں صف اول کے سپاہیوں کو صحیح ہتھیار دینے کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ڈاکٹروں، طبی عملے کو ذاتی تحفظ کے آلات، حفاظتی لباس، مریضوں کے لیے وینٹی لیٹرز اور مناسب انداز سے آئسولیشن کے عمل کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان زاویوں پر کام کریں گے تو اس وائرس پر قابو پاسکیں گے ورنہ بہت مشکل ہو گا۔‘

کورونا

کراچی کے متوسط اور پوش علاقوں کے بعد کورونا وائرس کے متاثرین اب غریب آبادیوں سے بھی سامنے آ رہے ہیں۔ شہری ادارے اربن لیب کراچی کے مطابق شہر کی 60 فیصد آبادی عارضی بستیوں میں رہتی ہے جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔

مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے اعتبار سے سب سے تشویشناک بات کچی بستیاں ہیں، متوسط طبقے کے افراد تو اپنا خیال رکھ سکتے ہیں جبکہ کچی آبادیوں اور غریب بستیوں میں ایک ایک کمرے میں کئی درجن لوگ رہتے ہیں جو ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ قائم کر ہی نہیں سکتے، اگر یہاں یہ وائرس آ گیا تو صورتحال انتہائی تشویش ناک ہو گی۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس وجہ سے ہم نے تمام فیکٹریوں، دکانوں کو بند کیا تاکہ مزدوروں کی جان بچا سکیں اگر کسی فیکٹری کے مزدور یا چھوٹے دکاندار کو یہ وائرس لگتا ہے تو اس کے لیے گھر میں سماجی فاصلہ قائم رکھنا ممکن نہیں ہے لہذا وہ پورے گھر اور محلے کو متاثر کر سکتا ہے۔ کاروبار کے بجائے ان سب کی جانیں بچانا سب سے زیادہ عزیز ہے۔ کاروبار تو کچھ دنوں کے لیے معطل کیا گیا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp