جنت سے ایدھی صاحب کا خط



میرے پیارو، بچو

دکھ ہے کہ تم لوگوں سے بات بھی ایسے وقت میں ہو رہی ہے کہ جب باتوں کے بجائے کام کا وقت ہے، یوں بھی مجھے بات کرنا کبھی نہیں آئی، بس کام آتا تھا، سو کرتا رہا۔ راستے میں موت حائل نہ ہوتی تو یہ بوڑھا کسی سہارے ہی سے سہی، لیکن تمہارے ساتھ آ کھڑا ہوتا۔ خط اس لئے لکھ رہا ہوں کہ مجھ سے رہا نہیں جارہا، تم سب کی بے چینی، بے قراری، بے یقینی اور بے چارگی پریشان کیے دے رہی ہے، بڑے بڑے سانحے اور حادثے دیکھے، لوگوں کو مرتے اور موت کے منہ میں جا کر بھی بچ نکلتے دیکھا، جنگیں دیکھیں، فسادات پھوٹتے اور ایک مدت بعد ختم ہوتے ہوئے بھی، لیکن خدا جانے یہ کیسی آزمائش ہے، یہ دشمن کیسا دشمن ہے کہ جو نہ نظر آتا ہے نہ مسئلے کے حل کے لئے اس کے ساتھ کوئی بات ہوسکتی ہے۔

تم سبھوں کی طرح فیصل اور رضوان بھی خوفزدہ ہوں گے، انھیں سختیاں دیکھنے اور جھیلنے کی عادت بچپن سے ہے لیکن یہ حالات اُنکے لئے بھی نئے ہیں، میرے بعد اتنا بڑا کام پہلی بار سامنے آیا ہے۔ خدا انھیں ثابت قدم رکھے۔ بلقیس کو کچھ باتیں سمجھ آرہی ہوں گی اور کچھ عُمر گزرنے اور میرے چلے جانے کے بعد زندگی کے ادھورے پن کی وجہ سے بے اثر جارہی ہوں گی ، لیکن اُس کا وہاں ہونا بھی ایک نعمت ہے، کم از کم بچوں کا حوصلہ بندھا رہتا ہوگا۔

صبح معین اختر ملا تو روہانسہ ہورہا تھاکہ ایدھی صاحب میں وہاں ہوتا تو روز شو کرتا، خوب ہنساتا سب کو، اور پھر خود ہی میرے گلے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ باقی سب بھی فکر مند ہیں لیکن روتھ فاؤ کو عجیب سا یقین ہے کہ اِس جیسی ہزار وبائیں بھی پاکستانی اپنے جسموں پر سہہ سکتے ہیں، مسکراتی ہوئی آنکھوں سے دلاسا دیتی ہیں کہ ایدھی صاحب پریشان نہ ہوا کریں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ بڑی بہادر عورت ہے، ہمیشہ خیر اور امید کی بات کرتی ہے۔

رضوان کا سرد خانے بند کرنے کا فیصلہ ٹھیک تھا، میں بھی ہوتا تو یہی کرتا، اب جب انتظامات مکمل ہوگئے تو ڈرائیورز اور عملہ بھی بغیر ڈرے تندہی سے خدمت کرپائے گا۔ ستاون میں جب کراچی میں فلو کی وبا پھیلی تھی تب بھی یونہی قرنطینہ خیمے میں نے خود کھڑے ہوکر لگوائے تھے، لوگ اتنا کچھ لے آئے تھے کہ میٹھادر ایدھی سینٹر کی عمارت کے پیسے تک نکل آئے تھے، شکر ہے کہ اس بار بھی یہی ہورہا ہے، خدا کرے وہ سب بھی عزت کے ساتھ فیض یاب ہوں جن کے لئے ہاتھ پھیلانا ممکن نہیں۔

حنیف محمد صاحب سے اس خط کے لکھنے کا ذکر کیا تھا تو کہہ رہے تھے کہ میری ڈاکٹر بیٹیوں کے لئے خاص طور پر پیار لکھ دیجئے گا، بیٹے بھی کمال کے نکلے، اتنی لمبی لمبی اننگز تو میں بھی نہیں کھیل پایا تھا۔ میڈم بھی نصرت صاحب کے ساتھ مل کر اِن کے لئے نیا گیت بنارہی ہیں۔ بِٹیا ارفع کریم کچھ بتا رہی تھی کہ بابا راشن تو اب فون کے ذریعے گھرپر بھی منگوایا جاسکتا ہے، مل جائے گا سب کوآپ تسلی رکھیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ شام کو حکیم سعید کی طرف جاؤں گا، ان کے ساتھ بیٹھ کر دل بہل جاتا ہے۔

بیٹا مشکلات ہیں لیکن یہ خبریں سن کر تم سب اب بھی ایک ہو، اطمینان رہتا ہے، لڑائی جھگڑا ہو تو معاملات آپس ہی میں نمٹا لینا، بڑوں کی سننا، بات کو زیادہ طول نہ دینا۔ جو جیسا بھی جتنا بھی کرے کرنے دینا، کاموں پر انگلی نہ اُٹھانا۔ دوسروں کی فکر کرتے رہو گے تو جیتے رہو گے۔ جیتے رہو۔

۔
تمہارا
ایدھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments