آزادکشمیر۔ کرونا کا خطرہ بڑھ رہا ہے



آزادکشمیر میں کرونا وبا روکنے کے لئے حکومت نے بروقت اقدامات اٹھا کر کافی حد تک اس وبا کو پھیلنے سے روک دیا تھا مگر آج سامنے آنے والے 2 نئے کیسز نے خطرے کی نئی گھنٹی بجا دی ہے۔ دونوں کیسز اپنی نوعیت کے مختلف اور اہم کیسز سمجھے جا رہے ہیں۔ آزادکشمیر میں یتیم بچوں کے لئے بنائے گئے ادارہ کشمیر آرفنز ریلیف ٹرسٹ کے چیئرمین چوہدری محمد اختر اور میرپور میں مقیم کالاڈب ضلع کوٹلی کے رہائشی میں کرونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آنے سے صورتحال گمبھیر ہوتی جا رہی ہے۔

چوہدری محمد اختر برطانیہ سے عین اس وقت پاکستان پہنچے جب برطانیہ میں وائرس پوری طرح سے پھیل چکا تھا جبکہ آزادکشمیر بھی لاک ڈاون ہو چکا تھا۔ لاک ڈاون کی بنیادی وجہ برطانیہ یورپ سمیت کرونا سے متاثرہ ملکوں سے ایک ہفتے میں پانچ ہزار کے قریب افراد کی آزادکشمیر انٹری تھی۔ ایسے میں جہاں حکومت نے برطانیہ سے آئے تمام افراد کو 14 دن قرنطینہ میں رہنے کی ہدایت کر رکھی تھی چوہدری محمد اختر کو وی آئی پی کے طور پر رعایت دی گئی۔

چوہدری اختر نے آتے ہی کورٹ کے پلیٹ فارم سے فلاحی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ میرپور سمیت دیگر اضلاع میں قرنطینہ سینٹرز تیار کروائے، ہسپتالوں میں حفاظتی سامان اور وینٹیلیٹرز و دیگر سہولیات دیں جبکہ بے روزگاری اور غربت کے شکار افراد میں راشن تقسیم کرنے کے لئے بھی بڑے پیمانے پر کام شروع کر دیا۔ انہیں پہنچے ایک ہفتہ ہوا تھا کہ انہیں خود میں وائرس کی علامات محسوس ہوئیں۔ 28 مارچ کو انہوں نے کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروایا جس کی رپورٹ 30 مارچ کو آئی تو وہ رپورٹ نیگیٹیو تھی۔

علامات مزید ظاہر ہونے لگیں تو دو دن بعد انہوں نے پھر ٹیسٹ کروایا جس کی رپورٹ 4 اپریل کو آئی تو کرونا وائرس کی تصدیق ہو گئی۔ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ وائرس چوہدری اختر کو برطانیہ سے لگا یا پاکستان میں سرگرمیوں کے دوران۔ کالاڈب سے تعلق رکھنے والے میرپور کے رہائشی شخص کا بھی رزلٹ مثبت آیا ہے اور ترجمان آزاد حکومت کے مطابق اس شخص کی کوئی ٹریول ہسٹری نہیں تھی۔ حکومت جائزہ لے رہی ہے کہ وائرس اس شخص تک کہاں سے اور کیسے پہنچا۔

آزادکشمیر میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 14 ہو چکی ہے مگر حالیہ دو نئے کیسوں کے بعد یہ تعداد خطرناک حد تک بڑھنے کے امکانات ہیں۔ چوہدری اختر کورٹ کے سٹاف، رضاءکاران اور انتظامیہ اور صحت کے افسران سے ملاقاتیں بھی کرتے رہے جبکہ کورٹ میں موجود 400 سے زائد بچوں کے ساتھ بھی ملتے رہے۔ اس کے علاوہ ان کے ہاتھوں سے گزرنے والے سامان جو اس وقت مختلف ہسپتالوں میں زیراستعمال ہے اور راشن پیکج جو ان کے یا ان سے جڑے افراد کے ہاتھوں سے گزر کر سینکڑوں افراد تک پہنچے وہ بھی ترسیل کے ذرائع ہو سکتے ہیں۔ چوہدری اختر اگر وائرس زدہ تھے تو ان سے ملنے والے افراد میں یہ وائرس پہنچ چکے ہونے کے قوی امکانات ہیں جبکہ ان کے ذریعے وائرس مزید کتنے افراد تک پہنچ سکتا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے۔

دعا ہے کہ یہ تمام اندازے محض اندازے ہی ہوں اور ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو کیونکہ ہمارے ادارے، صحت کا نظام اور ہماری حکومت اس وباء کو پھیل جانے کے بعد کنٹرول کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔

عوام کے لئے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ یہ وائرس ہے کیا؟ کیسے دوسروں تک پہنچتا ہے؟ اس کا علاج تو دریافت نہیں ہوا مگر یہ وائرس تشخیص کرنے کے لئے بھی ہماری حکومتیں بری طرح ناکام ہو رہی ہیں۔ کرونا وائرس ٹیسٹنگ کٹس کم اور وائرس کے مشتبہ افراد اور ان کے سیمپلز کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگر تمام افراد کے ٹیسٹ ہوں تو رزلٹ آنے میں مہینے لگ سکتے ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں امریکہ جیسی سپر پاور کے عوام بھی دہائی دے رہے ہیں کہ ہسپتالوں میں کرونا وائرس تشخیص کرنے کے لئے ٹیسٹنگ کٹس موجود نہیں ہیں۔

کرونا وائرس کے متعلق مختصر یہ کہ ابھی تک سامنے انے والی ریسرچ کے مطابق یہ ایک بے جان مالیکیول ہے جسے مارا نہیں جا سکتا۔ اس پر چڑھی چربی کی باریک پرت ختم ہونے سے ہی یہ وائرس ختم ہوتا ہے اسی لئے ڈاکٹرز آپ کو ہاتھ بار بار صابن سے دھونے یا سینیٹائزر استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس کی ساخت اتنی چھوٹی ہے کہ کہا جاتا ہے ایک سوئی کی نوک پر 10 ہزار سے زائد کرونا وائرس سما سکتے ہیں۔ وائرس سے متاثرہ شخص کھلی فضا میں سانس لے یا کھانسے تو اس کے منہ سے کروڑوں وائرس خارج ہوتے ہیں جو کھلی فضاء میں تین گھنٹے جبکہ زمین اور قریب موجود اشیاء پر 24 گھنٹے تک موجود رہ سکتے ہیں۔

اس وائرس کو پھیلنے کے لئے انسانی جسم بالخصوص ناک، آنکھ، گلا درکار ہوتے ہیں اگر یہ سانس لینے یا کرونا والی جگہ پر ہاتھ لگانے سے دوسرے انسان تک پہنچ جائے تو پھر اس کی افزائش روکنا تقریبا ناممکن ہے۔ اسی لئے ماسک اور دستانے پہننے کی ترغیب دی جاتی ہے اور عام عوام کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکا جاتا ہے مبادہ کہ وہ اپنے ساتھ کرونا وائرس لے کر گھروں میں نہ چلے جائیں۔ بھمبر کی دو خواتین کا یہی معاملہ تھا وہ کرونا وائرس کے ایک متاثرہ شخص سے ملیں اور اپنے ساتھ وائرس لے کر اپنے علاقوں میں پہنچ گئیں اب ان علاقوں میں خطرناک حد تک یہ وائرس پھیلتا جا رہا ہے۔ متاثرہ خواتین اور آگے متاثرہ مزید افراد کے تمام گاؤں سیل کیے جا چکے ہیں۔ بنگڑیلہ میرپور کا ایک متاثرہ شخص اپنے ساتھ یہ وائرس برطانیہ سے لایا تھا اور اب تک اس سے جڑے 2 مزید افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔

اس تحریر کو کچھ احباب خوف پھیلانے سے جوڑیں گے مگر حقیقت یہی ہے کہ خوف ہی آپ کو اس وائرس سے بچا سکتا ہے۔ بہادری دکھانے والے اس وقت ملک اور دنیا بھر میں قرنطینہ سینٹرز اور وینٹیلیٹرز پر پڑے ہیں اور ہزاروں جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ اس لئے ڈرئیے کیونکہ ڈر کے آگے جیت ہے۔

غیرضروری طور پر گھروں سے نکلنا مکمل ترک کیجئے۔ اگر گھروں سے باہر نکلنا ضروری ہو تو ماسک اور گلوز کا استعمال کیجئے۔ ماسک دستیاب نہیں تو کپڑے سے منہ ڈھانپیں گلوز دستیاب نہیں تو کسی بھی طرح کے دستانے استعمال کیجئے۔ ننگے ہاتھوں سے باہر کسی بھی چیز کو ٹچ مت کریں بار بار ہاتھ صابن سے دھوئیں۔ روزانہ صابن سے نہائیں اور کرونا وائرس ہے یا نہیں علامات ہیں یا نہیں گرم پانی کے غرارے اور گرم پانی یا قہوہ معمول بنائیں۔

اللہ پاک ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments