کورونا وائرس کے پیش نظر پاکستان میں پارلیمانی کارروائی کا ’لاک ڈاؤن‘، کیا آن لائن اجلاس کے لیے قانون سازی کرنا ہو گی؟


پارلیمنٹ

اس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر ملک میں پارلیمان کی کاروائی معطل ہے چنانچہ اس وقت پارلیمنٹ میں نہ تو قانون سازی ممکن ہے اور نہ ہی قوانین پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے بات چیت ہو سکتی ہے

پاکستان کی پارلیمان (ایوان بالا اور ایوان زیریں) کے اجلاس اور تمام قائمہ و ذیلی کمیٹیوں کی کارروائی کورونا وائرس کے کیسز منظر عام پر آنے کے بعد سے معطل ہے۔

اس معطلی کے باعث ایوان میں کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہو رہی۔ تین ہفتے قبل ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کے نمائندے شامل کیے گئے تھے۔

یہ کمیٹی اپنے قیام کے بعد اس وقت ہی متنازعہ ہو گئی جب اس آن لائن میٹنگ میں تقریر کر کے وزیر اعظم عمران خان کسی اور پارلیمانی لیڈر کی سنے بغیر چلے گئے۔

اس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر ملک میں پارلیمان کی کارروائی معطل ہے چنانچہ اس وقت پارلیمنٹ میں نہ تو قانون سازی ممکن ہے اور نہ ہی قوانین پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے بات چیت ہو سکتی ہے۔

قومی اسمبلی کے موجودہ پارلیمانی سال میں اب تک ایوان صرف 54 دنوں کے لیے ہی بیٹھا ہے۔ یہ سال ختم ہونے میں چار ماہ باقی ہیں اور پارلیمانی قوانین کے مطابق قومی اسمبلی پر لازم ہے کہ اس کا اجلاس سال میں کم از کم 130 دن چلے۔

دوسری جانب دنیا میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے کئی ممالک میں پارلیمان کی ہنگامی کارروائیاں جاری ہیں جن میں حکومت وقت سے سوال بھی کیے جا رہے ہیں، تنقید بھی ہو رہی ہے اور قانون سازی سمیت اہم فیصلے بھی۔

کہیں ان اجلاسوں میں اراکین نے آن لائن شرکت کی اور جو خود آ سکتے تھے وہ ان سیشنز کا حصہ بھی بنتے رہے ہیں۔

بی بی سی بینر

گجرات پنجاب میں کورونا مریضوں کا دوسرا بڑا گڑھ کیوں بنا؟

پاکستان میں کلوروکوین کا کورونا متاثرین پر استعمال کتنا موثر

کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟

کیا کورونا وائرس کی وبا کے دوران سیکس کرنا محفوظ ہے؟


تو کیا پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکتا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیئر رہنما اور رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ عوامی نمائندوں کو اس مشکل وقت میں پارلیمنٹ اور اہم فیصلوں سے دور رکھنے عمل کو ’افسوسناک‘ قرار دیتی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’اس وقت ملک کو ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس اہم مرحلے پر ہمارے ادارے بالخصوص پارلیمان، جو 20 کروڑ عوام کی نمائندگی کرتی ہے، کی افادیت قائم رہے۔‘

’اراکین پارلیمان انفرادی طور پر اپنے حلقوں میں کام کریں، مگر اس کے ساتھ اپنی فہم و فراست کا استعمال کرتے ہوئے ملک، قوم اور حکومت کو بھی ایک سمت دکھائیں۔ مگر افسوس ہے کہ اس کڑے وقت میں پارلیمان پر ہی تالے ڈال دیے گئے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ تمام کمیٹیاں ’غیر فعال‘ کر دی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ نفیسہ شاہ خود قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی رکن ہیں۔

’ابھی ہم کورونا وبا کا سامنا کر رہے ہیں اور اگلی وبا یعنی ڈوبتی معیشت دروازے پر کھڑی ہے۔ ایسے میں خزانہ کی کمیٹی نہایت اہم ہے، اور میں نے کئی بار کمیٹی چیئرمین سے آن لائن اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی ہے۔ ہمیں معیشت اور کورونا سے جڑے معاملات پر بحث کرنا ہوگی، حکومت کے اقدامات کو دیکھنا ہو گا اور اپنی رائے دینی ہو گی۔ اسی طرح صحت کی کمیٹی نہایت اہم ہے۔‘

کچھ ایسی ہی رائے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا کی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’وزیراعظم کے 1200 ارب کے امدادی پیکچ پر نظر رکھنی پڑے گی تاکہ شفافیت سے کام ہو۔ یہ نظرداری پارلیمانی کمیٹی کی شکل میں ہوتی ہے، کمیٹیاں وزارت کی ان سرگرمیوں جن میں پبلک فنڈ شامل ہوتا ہے، پر نظر رکھتی ہیں تاکہ شفافیت برقرار رکھی جا سکے۔ ان کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرنا، جائزہ لینا، یہ سب کمیٹی کا کام ہے۔’

وہ کہتے ہیں کہ ماسک، سینیٹائزرز اور دیگر اشیا کی بلیک مارکیٹنگ کے لیے مافیا بن رہے ہیں، ان کے لیے سخت سزاؤں کی ضرورت ہے، جس کے لیے قانون سازی کرنی ہوگی۔

’پارلیمان میں ایکٹ لائیں، اور دو دن میں ان پر کام ہو سکتا ہے، ہمارے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں جب دو دنوں میں ایکٹ بھی بنے، اور ترامیم بھی ہوئیں۔ تو اب اس وبا کے دنوں میں تو یہ ضروری ہو جاتا ہے۔ مگر حکومت ان باتوں کو سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہی۔‘

بی بی سی س بات کرتے ہوئے پارلیمانی امور پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی آصف علی بھٹی کہتے ہیں کہ پارلیمان کی سرگرمیاں تو دنیا بھر میں جاری رہتی ہیں۔

’پاکستان میں بھی یہ سب ہو سکتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ہو یا حزبِ اختلاف دونوں سنجیدگی کے ساتھ عوام سے متعلق معاملات پر ٹھوس قانون سازی ہونی چاہیے نہ کہ تنقید در تنقید اور بے سود بحث جاری رہے۔ ان معاملات پر دونوں طرف سے سنجیدگی نہیں دکھائی جاتی۔‘

نفیسہ شاہ تجویز کرتی ہیں کہ سپیکر قومی اسمبلی فی الفور کمیٹیوں کے اجلاس ہونے دیں۔

’اس سے بہتری ہی آئے گی، اس وبا کے حوالے سے کیے گئے اقدامات پر بھی بحث ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم یہاں ایمنسٹیاں دے رہے ہیں لیکن کیا ان کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ فنانس کے حوالے سے کوئی قانون سازی کیے بغیر ایمسنٹی یا کسی قسم کی اسکیم کا اعلان کریں؟‘

وہ کہتی ہیں ’اس میں بہت قانونی پیچیدگیاں ہیں اوریہ عمل قابلِ مذمت ہے کہ پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر یہ کام کیے جا رہے ہیں، جیسا کہ تعمیرات کے شعبے میں اگر کچھ فوائد دیے ہیں تو یہ پارلیمان کے ذریعے ہونے چاہییں۔ پارلیمان کو بند کر کے اس کی حیثیت کو گھٹایا جا رہا ہے اور آگے اس کے برے اثرات ہوں گے۔’

اراکین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی موجودگی میں تمام کارروائی کی جا سکتی ہے۔

محسن شاہنواز رانجھا کے مطابق ویڈیو لنک کے ذریعے قائمہ کمیٹیوں کا اجلاس ہو سکتا ہے، جس میں 10 سے 15 اراکین ہو سکتے ہیں، ان کا عملہ ہو سکتا ہے، آن لائن ووٹنگ ہو سکتی ہے، دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے۔

’پارلیمان میں اراکین کو مسودے ای میل کے ذریعے بھیجیں، اب تو ہر پارٹی کی لیجسلیٹو ایڈوائزریز بنی ہوئی ہیں جو اپنے اراکین کو بتاتی ہیں کہ کیا بل ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے، کس قسم کی پیچیدگیاں ہیں اور اس بارے میں آئین میں کیا درج ہے۔ جس کے بعد رکن کو تو صرف ایک بٹن دبانا ہوتا ہے۔ وہ اس کو پڑھ کر ووٹنگ کریں۔’

صحافی آصف علی بھٹی کہتے ہیں کہ اب یہ ضرورت ہے کہ پاکستان کی پارلیمان کسی بھی ہنگامی صورتحال میں سیشن کیسے ہونا ہے اور قانون سازی کیسے کرنی ہے، اس سے متعلق مستقبل کے لیے باقاعدہ حکمت عملی طے کرے۔

’اب سیاسی حلقوں میں ایک ایسا طریقہ کار بنانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ کیسے آفات یا وباؤں کے دوران جب کہ لوگوں کا ذاتی طور پر ایک جگہ اکٹھا ہونا ممکن نہ ہو تو اسکے متبادل کیا طریقے ہو سکتے ہیں۔ میرے خیال میں آج کے دور میں یہ ناممکن نہیں ہے۔‘

کیا آن لائن اجلاس کے لیے بھی قانون سازی کرنا ہوگی؟

رکن اسمبلی نفیسہ شاہ کہتی ہیں کہ موجودہ حالات میں عین ممکن ہے کہ پارلیمان کے مکمل اجلاس نہ ہو پائیں لیکن کمیٹیاں مل سکتی ہیں اور ’کمیٹیوں کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ رولز میں ترامیم کریں جس کے بعد آن لائن اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں ’کوئی وجہ نہیں ہے کہ اجلاس نہ ہو، یہ ایک قانون ساز اسمبلی ہے، ہمارے پاس اختیارات ہیں ہم اپنے رولز تبدیل کر سکتے ہیں۔ میں یہی کہوں گی کہ پارلیمان کو کھولا جائے، اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں، اس مشکل وقت میں مل کر فیصلوں کی ضرورت ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32550 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp