ہائے اک ڈبہ اور پھر مجمع!


اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

کل سے سوشل میڈیا پر ایک تصویر بار بار آنکھوں کے سامنے سے گزررہی ہے جس کا پہلا امپریشن جتنا دل دکھانے والا تھا جتنی بار دوبارہ نظر آتی ہے اتنی ہی تکلیف بڑھتی جاتی ہے

میرے آج کے کالم سے شاید بہت سے لوگوں کو اختلاف ہو۔ ہر ایک کو اختلاف کا حق ہے اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے یہ کالم بہت اذیت سے لکھ رہی ہوں کہ اس میں ایسے لیڈر کی کچھ باتوں کے خلاف ری ایکشن ہے جس نے جب بھی کسی کیمپئن کا اعلان کیا تو بنا کچھ جانے اس کے پیچھے بھاگنے والوں میں سرفہرست رہنا ہمیشہ اپنی خوش قسمتی سمجھا کہ آج سے دوتین سال پہلے تک میرا دل گواہی دیتا تھا کہ پاکستان کی بقا کا آخری سہارا یہی شخص ہے

وزیراعظم کے راشن پیکج پر جب خان صاحب کی اتنی بڑی تصویر چسپاں کردی گئی ہے تو وزیراعظم کو بقلم خود ان راشن کے ڈبوں کے ساتھ آکر تصویریں اتروانے کی کیا ضرورت تھی۔ میں نے یہاں مسلم ویلفیر ٹرسٹ میں رمضان پراجیکٹ میں رضاکارانہ طور پر پیکنگ میں حصہ لیا تھا شاید دوتین سال پہلے۔ کتنے ہزار تھیلے بنائے گئے اور ہماری فوٹوز صرف تھیلوں کے ساتھ تھیں۔

سب والنٹیرز نے روزے میں جاکر دھوپ میں بھاگ بھاگ کے کام کیا تھا چند گروپ فوٹوز تو بنتی ہی تھیں۔ پھر اسی جگہ یہاں کا وزیراعظم جسٹن ٹروڈو آیا اس نے بھی بھلے تھوڑی دیر کو ہی سہی مگر عام والینٹرز کی طرح پیکنگ میں حصہ لیا۔ اشیائے خوردونوش کے تھیلے بنائے۔ خیر کھانے کی اشیا کے ہزاروں تھیلے یہاں کے فوڈ بینکس، سینئرز ہوم، بے گھر لوگوں، ضرورتمندوں میں تقسیم کردیے گئے۔

پر کسی ضرورتمند کے پھیلے ہوئے ہاتھوں اور دینے والے کی تمکنت سے اکڑی ہوئی ایک بھی تصویر دیکھنے کو نہ ملی۔ ایسی تصویریں دینے والی کی بڑائی کا تصور اور پھیلنے والے ہاتھ کی بے بسی کا نوحہ بن جاتی ہیں۔ حضرت علی کا قول ہے کہ اس طرح سے دو کہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک کو خبر نہ ہو۔ دینے والے رات کے اندھیروں میں چپکے سے دے آیا کرتے تھے۔ لینے والوں سے نظریں تک نہ ملاتے تھے کہ کہں ان کی نظریں احسان سے جھک نہ جائیں۔

خان صاحب جب تک آپ صرف لیڈر تھے ایسی ہلکی پھلکی باتیں شاید نظر انداز ہوجاتیں پر اب آپ منتخب کردہ سربراہ ہیں۔ اور عوام کی تمام تر فلاحی ضروریات کی ذمے داری آپ پر عائد ہوتی ہے یہ تصویر شدہ ڈبے پچھلی حکومتوں میں بھی ایسے ہی ملتے تھے۔ فرق کیا ہوا۔ خیر فردوس عاشق اعوان جیسے مشیر خاص کے ہوتے ہوئے اس طرح کی حرکت کرجانا کوئی ایسی بڑی بات بھی نہیں ہے پر خان صاحب لوگ آپ سے دل سے محبت کرتے ہیں، آپ بھی کوئی دوستانہ مسکراہٹ، یا کوئی درد بھرا ایکسپریشن ہی دے دیتے تصویر کے لئے۔

کینیڈا کا وزیر اعظم روز صبح تقریر کرنے اکیلا کھڑا ہوتا ہے اس کے گردونواح میں مشیروں، وزیروں کا کوئی جتھا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک جگہ پر پانچ سے زیادہ لوگوں کا یوں ساتھ ساتھ کھڑے ہونا اس وقت صحتِ عامہ کے ضوابط کی بہت بڑی خلاف ورزی ہے۔ وہ بیچارا کبھی اپنے کچن میں کھڑا ہوکر درد بھرے میسیج ریکارڈ کرارہا ہے تو ہر ایپ پر اس کی درد بھری آواز میں ریکارڈنگ چل رہی ہے۔ اس کی تکلیف دیکھ کے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کتنے بڑے کرائسس میں ہیں اور یہ بھی کہ یہ شخص اپنے عوام کو کم سے کم بھوکا نہیں مرنے دے گا۔

کفار ہم پہ بازی کیوں نہ لے کے جائیں۔ دوسری طرف ریاستِ مدینہ کے سربراہ پندرہ سو دوہزار کا ڈبہ دینے چلے آئے اور اس پر بھی کوئی غم و رنج نہیں کہ اسلامی فلاحی ریاست میں جہاں یہ سب راشن ضرورتمندوں کے گھر پہنچایا جانا چاہیے وہاں آپ اپنی تشہیر کے لئے خود بھی آگئے

آپ پھر یہ بھی بھول گئے کہ لوگ آپ کو اندھا دھند فالوو کرتے ہیں اور آپ سمیت اس گروپ فوٹو میں چھ سات لوگوں نے ماسک لگانے، دستانے پہننے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ پھر آپ اپنی قوم سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ بالکل ایسی ہی لاپرواہی۔ سارے سربراہان مکمل لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت بنے کھڑے ہیں کیا کروناکو بھی پتہ ہے کہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ ڈاکٹر ہیں ان کو نہیں ہونا۔ خان صاحب راشن بانٹ رہے ہیں ان کو بھی نہیں ہونا۔

اب آتے ہیں ریاست مدینہ پہ۔ حضرت عمرؓ راتوں کو اپنے رعایا کی خیرو عافیت کے لئے گشت کیا کرتے تھے، ایک رات کو گشت کررہے تھے کہ ایک خیمے سے بچے کے رونے کی مسلسل آواز آتی رہی۔ آپ نے بچے کی ماں سے کہا (جو یہ نہیں جانتی تھی کہ آپ حضرت عمرؓ ہیں ) کہ اسے دودھ پلائے تو اس نے کہا کہ میں اس کا دودھ چھڑانا چاہتی ہوں کیونکہ خلیفہ کا فرمان ہے کہ بچے کو وظیفہ دودھ چھڑانے کے بعد ملے گا اور ہم غریب، ضرورتمند لوگ ہیں، اس لئے اسے دودھ نہیں پلاسکتی۔

یہ سن کر حضرت عمرؓ پر رقت طاری ہوگئی۔ اگلے روز نمازِ فجر میں مسجدِ نبوی میں اعلان کرتے ہیں کہ ”جس دن کوئی بچہ پیدا ہوگا اس کا وظیفہ مقرر کردیا جائے گا اس کے دودھ چھڑانے کا انتظار نہیں کیا جائے گا“ اپنی رعایا کی تکلیف پر حضرت عمرؓ کی تکلیف کا یہ عالم لکھتے ہوئے مجھ پہ بھی رقت طاری ہوگئی کہ ایسے لوگ بھی اسی دنیا میں گزرے ہیں۔

یہ تھی مدینہ کی وہ فلاحی ریاست جس کی تقلید پہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک آج تک قائم ہیں۔
پاکستان میں آج بھی کتنے بچے سڑکوں اور جھگیوں میں بھوکے پیٹ رو رو کے سو جاتے ہیں کوئی پرسانِ حال نہیں۔ فلاحی ریاست مدینہ میں تو کتا بھی بھوک سے مرتا تو حضرت عمرؓ کے سر ہوتا۔ خان صاحب ذرا غور کیجئے آپ کے سر پر اس وقت کیا کیا ہے۔ یہ چھوٹاسا ڈبہ آپ کے ہاتھ میں دیکھ کر نری تکلیف ہی ہوئی۔ کیا یہ ڈبے ہر وقت غریبوں اور ضرورتمندوں کو بغیر تصاویر کے نہیں ملنے چاہییں؟ کیا ان ڈبوں پر آپ کی تصویر اور پھر ان ڈبوں کے ساتھ آپ کی تصویر اتنی ہی ضروری ہے جتنی اس ملک کی فلاح؟

اور ہمارے ہاں انٹر تک مفت تعلیم پی ٹی آئی کے مینڈیٹ میں ضرور تھی مگر آج دوسال ہونے کو آئے کوئی مفت تعلیم نہیں۔ مفت علاج کا کارڈ ابھی تک چلنے کے قابل نہیں ہوا۔

دوسال ہوگئے اس حکومت کو آئے۔ اب تو ذمہ داران میں شامل کیجئے خود کو۔ چلیں ہم اپنے وزیر اعظم کو احتیاطیں بتادیتے ہیں۔ بلاوجہ باہر نہ نکلیے، گھر پہ رہئے۔ آپ کے باہر نہ نکلنے سے سوائے تصویریں اترنے کے ملک کا کوئی کام نہیں رکنا، ماسک پہنئے، دستانے پہنئے، کسی بھی دوسرے شخص سے پانچ فٹ کے فاصلے پر رہئے۔ اچھا پانچ سے زیادہ لوگوں پر تو حکومتی پابندی ہے تو اب اس تصویری مجمعے کا کیا جائے آخر؟ قانون تو سب پہ لاگو ہونا چاہیے۔ امید ہے کہ میرا یہ تکلیف بھرا کالم کسی طرح آپ کو مل جائے۔ آپ کچھ کریں نہ کریں ان دنوں بس احتیاط کریں۔ پاکستان کے پاس ابھی بھی آپ سا قیمتی شخص کوئی نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments