کرونا، پاکستانی سماج اور سیاست


کرونا وائرس کی وبا نے جہاں بڑی بڑی طاقتوں کے چھکے چھڑا دیے وہاں ہی چھوٹی اور کمزور اقوام کے عقلی معیار کی ابتری اور اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کو بھی دنیا کے سامنے ایک چیلنج بنا کے پیش کیا ہے جس سے دو دو ہاتھ ہونا عالمی جنگوں سے نمٹنے سے بھی زیادہ دشوار ہے۔

کمزور ممالک بطور خاص پاکستان میں حکمران طبقات نے اپنے سیاسی اور معاشی تسلط کی بقا کی خاطر جہالت اور غربت کے جن کا جو راج قائم کیا تھا وہ آج انہی کے قابو سے باہر ہو گیا ہے۔

وبا سے احتیاط کے لئے چلائی جانے والی آگاہی مہم کم و بیش ناکام ہو رہی ہے کیونکہ غربت کا شکار عوام کی ایک بڑی تعداد کے ہاں نہ تو ٹی وی ہے نہ ہی سمارٹ فونز کہ سوشل میڈیا پر دی جانے والی آگاہی سے مستفید ہو پائیں ِ۔ پہلے تو گاؤں اور اس جیسے پسماندہ علاقوں میں ریڈیو آگاہی کے عمل کو کچھ آسان بنا دیا کرتا تھا مگر ٹیکنالوجی کے ارتقا نے ریڈیو کے وجود اور کردار کو ختم ہی کردیا ہے۔ اس پر حکمران طبقہ کے کردار کی تاریخ سے سبق لیتے ہوئے عوام اپنے حکمرانوں سے اتنے نالاں ہیں کہ کسی بھی صورت ان پر یقین کرنے کو تیار نہیں اور کرونا کو بھی حکمران طبقہ کی چال سمجھ کر نہایت ہی غیر اہم موضوع سمجھ رہے ہیں۔

سونے پہ سہاگہ اس وقت ہوتا ہے کہ جس مذہبی لابی کو یہ حکمران طبقات عوام کو گمراہ کرنے کی نیت سے مضبوط کرتے رہے ہوتے ہیں وہی مذہبی عقیدت کی بنیاد پر کرونا جیسی وبا کو غیر اہم ثابت کرنے پر لگ جاتے ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان صحت اور تعلیم جیسے بنیادی مسائل کو ہمیشہ نظرانداز کرتا آیا ہے اور پاکستانی سیاست ہمیشہ سے پڑوسی ممالک کے ساتھ جنگی رحجانات پر مبنی رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ۔ پاکستان ہمیشہ کرائسس مینیجمینٹ سٹرٹیجی بنانے میں ناکام رہا ہے۔

ہر ملک میں باقاعدہ کرائسس مینیجمنٹ کا ایک ادارہ ہوتا ہے جو ایسے حالات میں ان بحرانوں سے نمٹنے کے لئے باقاعدہ پالیسیاں وضع کرتا ہے۔ جو ممالک ان پر باقاعدہ کام کرتے ہیں وہ اندرونی بحران کی صورت میں بھی اپنا توازن نہیں کھوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان اور اس جیسے پسماندہ ممالک باوجود اس کے کہ ہر سال سیلاب کی آفت سے گزرتے ہیں پھر بھی ایک باقاعدہ کرائسس مینیجمنٹ پالیسی وضع نہیں کر پاتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہاں کے غیر متسلسل سیاسی ادوار، غیر جمہوری قوتیں اور ان کے غیر جمہوری رویے ہیں جنہوں نے بنیادی سیاسی ڈھانچے کی تشکیل میں ہمیشہ رکاوٹیں ڈالیں۔

کرونا ایک ایسی وبا ہے جس نے ترقی یافتہ ممالک کو بھی جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے جبکہ پاکستان جو زلزلے جیسی آفت سے ہی نبرد آزما ہونے کے لئے ایک کمزور ریاست ثابت ہوئی ہے اس کے لئے کرونا کسی قیامت سے کم نہیں۔ آج پاکستانی حکمران اور سیاسی قوتیں کسی بھی متوازن کرائسس مینیجمنٹ پالیسی کو وضع کرنے سے قاصر ہیں اور انتہائی گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ ایک طرف تو لاک ڈاؤن کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا تو دوسری طرف لاک ڈاؤن کی صورت میں لقمۂ اجل بننے والے غریب طبقات کو اشیائے ضروری فراہم کرنا حکومتِ وقت کے لئے ایک دشوار ترین مرحلہ ہے۔

کرونا کی وبا کو پاکستان میں پنجے گاڑے ہوئے ایک ماہ سے زائد ہو چکا ہے اور حکومتِ وقت اب تک غریب طبقات تک بنیادی ضروریات کی ترسیل کے لئے کوئی حتمی پالیسی ہی مرتب نہیں کر پائی ہے۔ یہ سب ہماری کرائسس مینیجمنٹ پالیسی کے فقدان کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت کے اپنے ہی اداروں میں کرپشن کا طوفان ایسے وقت میں بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کیونکہ ہمارے سیاسی اور معاشی نظام میں انہوں نے وقت کی نزاکت کو سمجھنا نہیں بلکہ وقت کی نزاکت سے فائدہ اٹھانا ہی سیکھا ہے۔ اپنے اداروں کی تشکیل میں غیر سنجیدگی کے باعث اپنے ہی اداروں سے نبردآزما، اپنے ہی مفاد کے لئے تیار کیے گئے علما، اور اپنے تسلط کے دوام کے لئے رکھے جانے والے غریب جاہل عوام اب خود حکمرانوں کے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں۔

برصغیر کے مسلمانوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ ان کو ہر مسئلہ ایک بیرونی سازش نظر آتا ہے۔ نہ ہی یہ کسی مسئلے کی سنجیدگی کو بھانپ سکتے ہیں نہ ہی غیر ملکی مثبت اقدامات کو مثبت ماننا چاہتے ہیں۔ اس خطہ کے مسلمانوں کے تمام نظریات کانسپیریسی تھیوری میں پیوست ہیں۔ پاکستان کی اکثریتی عوام کرونا کو وبا ماننے کو تیار نہیں۔ انہیں کرونا ایک یہودی سازش معلوم ہوتا ہے۔ کبھی تو کرونا امریکہ یا چین کی پھیلائی ہوئی وبا ہوجاتی ہے اور کبھی اللّہ کا عذاب جو غیر مسلموں پر نازل ہورہا ہے اور ان کو منہ کے بل گرا رہا ہے۔

ان سے جب سوال کیا جاتا ہے کہ اگر یہ عذاب غیر مسلموں پر ہے تو مسلم ممالک کیوں زیرِ عتاب ہیں؟ تو جواب آتا ہے کہ مسلمان بھی گناہ میں شریک۔ ہیں یا پھر مسلمان بہت کم مر رہے ہیں یا پھر اللّہ مسلمانوں کو پھر سے دین کی طرف راغب کرنا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں جب حکومت اجتماعات بشمول مذہبی اجتماعات پر پابندی عائد کرتی ہے تو حکومت بھی یہودی ایجنٹ اور غیر مسلم سازش کا حصّہ نظر آتی ہے جو انہیں خدا کی طرف راغب ہونے سے روک رہی ہے اور یوں بغاوت کی کیفیت جہالت کی نذر ہو جاتی ہے۔

جب ان اپنے تئیں نیک بنے مسلمانوں کو غیر مسلم ممالک کی انسانی خدمات دکھائی جاتی ہیں تو بھی ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ یہ بھی دجال کے حمایتیوں اور یہودیوں کی سازش ہے کہ وہ نیک تاثر دے کر دنیا پہ غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں عقیدے کے نام پر پھیلائی جانے والی ہر فضولیات پر لوگ اندھا یقین کرلیتے ہیں مثلاً کرونا سے بچاؤ کے لئے قرآن شریف میں شفاعتی بال کا نمودار ہونا، محض وضو سے کرونا کو ختم کرنا وغیرہ وغیرہ اور جو بھی ان اوہام کے برعکس بات کرتا ہے تو اس کے عقیدہ کو یا تو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے یا پھر اس کے خلاف فتوے جاری کردیے جاتے ہیں۔

ان حالات میں جہاں معاشرتی دوری اور لاک ڈاؤن ہی اس وبا سے بچاؤ کا واحد ذریعہ ہے، لوگ اجتماعی دعاؤں تقریبات کر رہے ہیں، جمعہ اور دیگر اجتماعی عبادات پر پابندی کو مذہب کے خلاف اقدام گردانتے ہوئے حکومت کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان اقدامات کی مذمت کی جا رپی ہیں اور کرونا کو یقین کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی ضد کی جاری و ساری ہے جو کہ انسانی جانوں کی بقا کے لئے ایک کھلی دھمکی ہے۔ یہ سب کچھ وہی بویا ہوا ہے جو اب کاٹا جا رہا ہے۔ یہ سوچ کا وہ مقام ہے جو نا صرف ملک کی عوام اور حکومت بلکہ اقوامِ عالم کے لئے بھی نہایت خطرناک ہے جس کی وجہ سے کرونا جیسی خطرناک وبا سے نجات حاصل کرنا ناممکن ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments