راستہ بند نہیں ہوتا مگر ہمارے پاؤں الٹے ہیں



میرے دوست اکثر سوال کرتے ہیں کہ حل کیا ہے؟ جب میڈیا جھوٹ کی بارش کرنے لگے، فرضی خبروں کو حقیقت کی طرح پیش کرنے لگے اور اکثریت کو اس بات کا احساس ہونے لگے کہ ہندوستان میں ہر جرم کے پیچھے مسلمان ہیں۔ وائرس کے پیچھے مسلمان ہیں۔ مسلمان غائب تو سارے مسائل خود بہ خود حل ہو جاییں گے۔ جب ایسی فکر سامنے ہو تو ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں، احتساب کریں کہ ہم سے غلطی کہاں کہاں ہوئی ہے؟ ایک بڑی غلطی تو یہ تھی کہ ہم نے خود سے زیادہ نام نہاد سیاسی پارٹیوں پر بھروسا کیا۔ لیکن اب یہ غلطی ہو چکی۔ آگے بھی کیجریول جیسے سیاست داں ہی ملیں گے جو آپ کو ہی مجرم ثابت کریں گے۔ صرف کیجریوال ہی نہیں، تمام سیاسی پارٹیاں آپ کو تنہا چھوڑ دیں گی۔ کیونکہ ان سب کو ہندو ووٹ بینک کی ضرورت ہوگی۔

گزشتہ چند دنوں سے ایک عجیب سا سنّاٹا ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والی دھند ہے۔ نہ کویی منظر نہ پس منظر۔ نا کویی خیال۔ نہ کویی آرزو۔ نہ لکھنے کی خواہش نہ پڑھنے کی۔ ایک برفیلی آندھی اور منجمد وجود۔ ہم وہاں آ گئے، یا زندگی کھینچ لایی، جہاں کبھی بھی یہ رفتار تھم سکتی ہے۔ کسی بھی لمحے ہم میں سے کویی بھی یادوں کے گمشدہ جزیرے کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ پشت سے ایک قہقہہ ابھرتا ہے۔ یادوں کا جزیرہ؟ کس کے پاس اتنی فرصت کہ یادوں کی بستی سے خوشنما دنوں کو تلاش کر پاے۔

اچھے دن۔ ۔ یہ سب گمشدہ دنوں کے قصّے۔ اب ایک نیے سائبر مقبرے کا حصّہ ہیں ہم زندہ لوگ۔ گوگل اور فیس بک کی آباد بستیوں میں فقط جذباتی مکالمے اب بلبلوں کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ بلبلے سے پہلے یادوں کا ٹوٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ بلبلے بھی کچھ دیر سماں باندھتے ہیں۔ ہم حقیر لکھینے والے یہ حیثیت بھی کھو چکے شاید۔

لیکن نا امیدی حل نہیں۔ کچھ سوچنا ہوگا۔ دل پر پتھر رکھ کر۔ نیی نسل کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ ہمیں قیادت کی اب بھی ضرورت ہے۔

1۔ ہماری بات حکومت تک کون پہنچائے گا؟ ہم کسی ایک پر بھروسا کریں۔ بھروسا کرنا ہوگا۔ کسی ایک پر یا کویی نیی قیادت مضبوطی کے سامنے اہے۔ میرے سامنے اس وقت مولانا ارشد مدنی کا نام ہے۔ لیکن اب ان کی ذمہ داری بڑھے گی۔ وہ با شعور طبقہ کو ساتھ لے کر چلیں۔ قانونی جنگ کے لئے ان کے پاس مضبوط سپاہی ہوں۔ تمام چینل پر نظر۔ غلط بیانی سے کام لینے والوں پر مسلسل مقدمے۔ مسلسل آر ٹی آی کا سہارا۔ بے قصور بے گناہ مسلمانوں کو بچانے کا عزم۔ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے کا عزم۔ اگر کویی نیی قیادت یہ ذمہ داری قبول کر سکتی ہو تو سامنے اے۔ کیونکہ اب حالات بدل چکے ہیں۔ تاخیر گوارا نہیں۔

2۔ علما کے پاس اپنے اپنے سوشل ویب سائٹ چینل بھی ہیں۔ لیکن اب اس سے کام نہیں چلے گا۔ اب کسی اچھے بڑے چینل کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ چینل کی زبان ہندوستانی ہو۔ ہم حکومت کی باتوں کو بھی سامنے رکھیں اور جو خبر پبلک سے پوشیدہ رکھی گیی، اس کو بھی سامنے لاییں۔ چینل کا نام دی سورس، دی وائر جیسا ہو۔ ہمارے پاس ایک معیاری انگریزی اور ہندی اخبار بھی ہو۔

3۔ تعلیم اور روزگار کے لئے الا میں اور شاہین جیسے اداروں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ کل ہمارے بچے روزگار کے لئے ترس جاییں گے۔

4۔ قیادت کرنے والی ٹیم کے پاس ایک وہ لوگ ہوں جو ارنب، سدھیر چودھری اور سوشل میڈیا پر نظر رکھیں۔ ایک وہ ٹیم جو روز ان کا جواب دے۔ اور اخبار بھلے شایع نہ کریں، لیکن ہندی اور انگریزی میں یہ خبریں مسلسل بھیجی جائیں۔ ہر غلط اور زہریلی خبر پر مقدمے تیار کیے جائیں۔ یعنی ایسے لوگوں پر لگام لگانے کی ضرورت ہے

5۔ ناگپور کنکشن ضروری۔ آر ایس ایس سے مکالموں کے دروازے کھولے جاییں۔ ابھی کویی سیاسی پاڑتی زندہ حالت میں نہیں ہے۔ مودی اور امیت شاہ سے بھی مکالمے ہوں۔ اشتعال انگیز بیانات پر لگام لگانے کی مہم چلایی جائے

6۔ مسلمان مودی، آر ایس ایس، امیت شاہ کے خلاف فحش باتیں لکھنا بند کریں۔ جو بھی قیادت ہو اس پر بھروسا کریں۔

7 ہم موبائل سے ہندو مسلم محبت بھرے رشتوں کو زندہ کریں۔
8۔ ہمیں بڑے کاروباری لوگوں کی ضرورت پڑے گی۔ ایسے لوگوں کی ایک فہرست تیار کریں۔ ان سے ملیں۔ یاد رکھئے ہماری پہلی ضرورت نفرت کے بازار میں کمی لانے کی ہے۔ اس وقت جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت ہے۔

9۔ ہم ہر طرح کے جلسہ جلوس سے بچیں۔ شب برات گھر پر مناییں۔ خود کو زیادہ ایکسپوز نہ کریں۔
10۔ آپسی اختلاف بند کریں۔ غیر مسلموں کو اپنا بناییں۔ سوشل ویب سائٹ پر محبت کی مہم شروع کریں۔ نفرت کا جواب نفرت نہیں ہے۔

اور آخر میں
یہ بھی کر کے دیکھئے
11۔ ہندوستان کے تمام اردو اخبار ایک صفحہ ناگپور کے نام کریں۔ یہ صفحہ آر ایس ایس کے خلاف نہ ہو۔ آر ایس ایس کو وہ خبریں اس صفحے پر بھیجی جاییں جو ضروری ہوں۔ مثال کے لئے۔ غریب ہندو عورت کو کندھا دینے والے مسلمان۔ تبلیغی جماعت کے تعلق سے جو خبریں فرضی پایی گییں۔ نفرت پھیلانے والی خبریں۔ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم ان کے خلاف نہیں۔ میڈیا زیادتی بند کرے۔ یہ صفحہ ناگپور بھی بھیجا جائے۔

بے خواب کواڑوں کو مقفل کرتے ہوئے کمرے کی ویرانی، خوف کا احساس پیدا کرتی ہے۔ کہیں دور سے کسی درویش کی آواز گونجتی ہے۔ اب یہاں کویی نہیں۔ کویی نہیں اے گا۔ ہٹلر سے ایدی امین تک ظالم و جابر حکمرانوں کی تفصیلات سامنے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خوف کی حکومت قایم کرنے کے لئے ہر اصول ہر اخلاقیات کو بالائے طاق رخ دیا۔ ہر ناجایز کو جایز بنا دیا۔ آج ہم میں سے کچھ لوگ گم ہو رہے ہیں۔ ۔ کل ہزاروں گم ہوں گے ۔ ۔

کل ہزاروں پر آفت اے گی اور کویی آواز نہیں بلند ہوگی۔ ظلم کی طاقت اور بربریت کی چھاوں میں آواز بلند کرنے والے بھی خوف زدہ اپنے گھروں میں بند ہوں گے کہ کویی نا گہانی حادثہ ان کے ساتھ نہ پیش آ جائے۔ آج ایک چینل پر اظہار راہے کی آزادی کے نام پر بندش لگایی جا رہی ہے۔ کل ایسے چینل حکومت کے عتاب کا شکار ہو کر بند کر دیے جاینگے۔ کیا اس کے بعد کویی سچ بولنے کا حوصلہ کرے گا؟ جبکہ ملک میں آتش بیانی اور زہر پھیلانے والی جماعتوں پر کویی پابندی نہیں۔

وقت ہے کہ ہم ہزاروں کی تعداد میں اٹھ کھڑے ہوں۔ لاکھوں۔ کروڑوں کی تعداد میں اٹھ کھڑے ہوں۔ اور کویی اچھی قیادت سامنے آئے۔

ورنہ۔ تاریخ کے خوفزدہ کرنے والے کارناموں میں ایک اور اضافہ ہو جاے گا۔ ہم کم ہونے لگیں گے۔ ہماری گمشدگی بڑھنے لگے گی۔ ہم بے صوت و صدا ہوں گے ۔ ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

۔ ہندوستان کی بڑی اکثریت کو فرقہ پرست نہیں کہا جا سکتا۔ ان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں، جن کی وجہ سے ہماری گنگا جمنی تھذیب آج بھی زندہ ہے۔ اور ایسے لوگ آج بھی ہمارے لئے، ہماری حمایت میں کھڑے ہیں۔ انگریز بھی مٹھی بھر تھے لیکن ہم ہندوستانیوں کو روند کے رکھ دیا۔ ہٹلر کے ساتھ پورا جرمنی نہیں کھڑا تھا۔ ظلم کی اپنی انتہا ہوتی ہے جو کچھ دیر کے لئے خوف کی سلطنت آباد کرتی ہے پھر عوام کا غصّہ جب انقلاب بن کر نازل ہوتا ہے تو تانا شاہوں کا ظلم اور غرور خاک میں مل جاتا ہے ابھی جوش نہیں ہوش کی ضرورت ہے۔

آپ بھی سوچئے کیونکہ سوچنا وقت کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments