گریٹا تھن برگ کے حساس دل سے کورونا کی اجاڑ گلیوں تک


ابھی ابھی ہی تو گلوبل وارمنگ کی باتیں ہو رہی تھیں کہ اگر ہم نے آلودگی پو قابو نہ پایا تو کیسے یہ دنیا تباہ ہونے والی ہے بچاری وہ سویڈن کی ننھی سی بچی گریٹا تھانبرگ ماحول کو بچانے کی سر توڑ کوششیں کر رہی تھی۔ اداس سا چہرہ، لمبے بالوں کی چٹیاں اور ڈبڈبائی آنکھوں والی یہ لڑکی بار بار کہہ رہی تھی کہ “کچھ کر لو۔ دنیا کو بچا لو۔ تم لوگ تو چلے جاو گے ہم یہاں ابھی اور رہیں گے۔ ہمارا سوچو”۔ اس کا مذاق اڑایا گیا۔ اسے اسپیریگر سنڈروم کی مریض کہا گیا جو اوٹیزم کی ایک قسم ہے۔ اس کے شکار لوگوں میں اوسط یا اس بھی بڑھ کر ذہانت ہوتی ہے۔ یہ لوگ دنیا کو کسی اور ہی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کسی ایک مسلئے کو لے کر تشویش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گریٹا مانتی ہے کہ وہ اس سنڈرم کا شکار ہے۔ وہ کچھ ایسی ہی ہے کہ کسی بات کی فکر لگ جائے تو اسے دور کرنا چاہتی ہے۔ اسے ماحول کی آلودگی اور اس کے آنے والے بھیانک اثرات اسے خوفزدہ کر تے ہیں ور وہ دنیا کو بتانا چاہتی ہے کہ یہ تباہی آنے والی ہے۔ روک سکو تو روک لو۔ وہ بولی۔ چیخ کر بولی۔ ڈانٹ کر بولی ” تمہاری ہمت کیسے ہوئی۔ تہمارے کھوکھلے الفاظ نےمیرے خواب چرا لیے، میرا بچپن چھین لیا۔ ” پھر اس کا مذاق اڑایا گیا۔ فاکس نیوز چینل نے اسے دماغی طور پر غیر متوازن لڑکی کہا، پھر معافی مانگی۔ صدر ٹرمپ نے تو نہ اپنے عہدے کا لحاظ کیا نہ اپنی عمر کا اور اس پر طنزیہ جملے کسے۔ گریٹا آخر کیا چاہتی تھِی؟ یہی نا کہ دنیا کو خراب اور تباہ ہونے سے بچا لو اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔

صرف پندرہ سال کی عمر میں اسے احساس ہو گیا کہ دنیا کے ساتھ کچھ برا ہونے والا ہے۔ ہر جمعے کو اپنی کلاس میں جانا چھوڑ کر سوئڈن کی پارلیمان کے سامنے مظاہرہ کرنا شروع کردیا۔ اہستہ آہستہ اس کے ساتھی بھی شامل ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ عالمگیر شہرت پا گئے۔ گریٹا نے آٹھ برس کی عمر میں یہ بات سمجھ لی تھی کہ آب و ہوا میں تبدیلی انسانوں کی وجہ سے ہے جو پوری دنیا کی شکل ہی تبدیل کر سکتا ہے۔ اس نے طے کر لیا کہ اسے یہ جنگ لڑنی ہے۔

گریٹا جو کہتی ہیں اُس پر عمل بھی کرتی ہیں۔ آب و ہوا میں تبدیلی کے موضوع پر ہونے والی دو سربراہی کانفرنسوں شرکت کے لیے جب وہ برطانیہ سے امریکہ گئی تو اس نے ہوائی جہاز کے بجائے بحری سفر کو ترجیح دی کیونکہ بحری سفر آب و ہوا کے لیے کم نقصان دہ ہوتا ہے۔ بر خلاف ایل گور کے جنہیں ماحول پر کام کرنے کے صلہ میں امن کا نوبل انعام بھی ملا۔ لیکن اپنا ذاتی جہاز رکھتے ہیں اور اسی میں سفر کرتے ہیں۔

گریٹا اپنے بارے میں کہتی ہے کہ “مجھے دوسروں سے مختلف ہونا اچھا لگتا ہے۔ میں چیزوں کو غیر معمولی انداز سے دیکھ لیتی ہوں۔ میں جھوٹ کو بھانپ جاتی ہوں، اور معاملات کو سمجھ جاتی ہوں۔ “

گریٹا نے سال 2019 اسکول سے فری لیا تا کہ اپنی اس تحریک کو عالمگیر بنا سکے۔ اس کا مطالبہ یہی ہے کہ دنیا سے آلودگی دور کرو اور زہریلی گیسوں پر قابو پاؤ۔ اس کی باتوں کو کچھ لوگوں نے سنجیدگی سے لیا، کچھ اونگھتے رہے اور کچھ نے اسے یکسر رد کردیا۔ دنیا اپنے دھندوں میں لگی رہی۔ اونچے سے اونچے ٹاورز اور برج بنانے کی دوڑ بڑھتی رہی۔ بڑے سے بڑے پانی کی جہاز بنانے کا مقابلہ ہونے لگا۔ اسکائی سکریپرز بادلوں سے اونچے تعمیر ہوتے رہے۔ جنگل کٹتے رہے اور ان کی جگہ پلازا اور مالز کھڑے ہو گئے۔ دریا خشک ہو گئے اور ان پر عمارتیں بننے لگیں۔ ہوائی کمپنیاں زیادہ سے زیادہ جہاز بنانے، خریدنے اور اپنے بیڑے میں اضافے پر جت گئے۔ لوگ بے تحاشا سفر کرنے لگے۔ زمین آلودہ ہوئی، پھر فضا آلودہ ہوئی۔ دریا سمندر جنگل سب گندے ہوئے۔ اور یہ ہر قسم کی آلودگی پھیلانے کا ذمہ دار انسان ہے۔

ابھی یہی باتیں چل رہی تھیں اور گریٹا کی تحریک عالمی بنتی جا رہی تھی کہ کورونا ہو گیا۔ دنیا نے تھک کر ایک کروٹ لی اور کہا” گریٹا بٹیا تمہاری تحریک کو ماننے، سمجھنے اور پنپنے میں بہت وقت لگے گا۔ یہ انسان ایسے نہیں مانے گا۔ اسے ایک سبق سکھانےکی ضرورت ہے”

کورونا نے حضرت انسان کے سارے کس بل نکال دیئے۔ وہ جو دنیا کی معشیت پر اپنا قبضہ کرنا چاہ رہے تھے اور وہ جو زمین و آسمان پر اپنی اجارہ داری قائم کر نے کی تگ و دو میں لگے  ہوئے تھے وہ جو خلا پر قبضہ کرنے کی کوششوں میں تھے۔ وہ سب ہار مان چکے ہیں۔

دیکھیئے کہ اس چھوٹے سے وائرس نے کیسے کیسوں کو زمین بوس کر ڈالا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ وایئرس صرف انسان کو ڈستا ہے۔ جانور اس سےمحفوظ ہیں۔ وہ اسی طرح اٹھلاتے پھر رہے ہیں۔ میرے سامنے والے مکان میں ایک خاتون روزانہ اپنے دو کتوں کو ٹہلانے نکلتی ہیں۔ ابھی کچھ ہی دیر پہلے نکلی ہیں انہوں نے ماسک پہن رکھا ہے اور دونوں کتے اپنی لمبی زبانیں نکالے زمیں کو سونگھتے بے فکری چلے جا رہے ہیں۔ ایک اور پڑوسی کی شیرنی نما بلی کس تفاخر اور شان بے نیازی سے سامنے سے گذرتی ہے میں اپنی کھڑکی سے لگی اس کی اداوں پر رشک کر رہی ہوں۔ پرندے بھی آزاد فضاوں میں کسی بھی قسم کے خطرے سے بے نیاز اڑان بھر رہے ہیں۔ جنگل ہرے ہیں۔ درخت تن کر کھڑے ہیں۔ جھاڑ، پودے، پھول سب پر بہار آنے کو ہی ہے۔ شگوفے پھوٹ رہے ہیں۔ گھاس ہری ہو رہی ہے۔ لہلہاتی فصلیں تیار ہیں۔ بس انسان ہی ہے جو پژمردہ ہوا جا رہا ہے۔ یہ وایئرس بس انسان پر ہی گرا ہے۔

پہلے تو اس وبا کو ہلکا لیا گیا۔ اسے کسی اور کی مصیبت جانا۔ ” ہم تک یہ نہیں آئے گا۔ ہم محفوظ ہیں” جیسی خوش فہمیوں میں رہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے تو اسے اپنے لیئے ایک نعمت سمجھا کہ چین کی معشیت تباہ ہونے سے امریکہ کو فائدہ ہو گا۔ اب امریکہ ہی سب سے زیادہ اسے بھگت رہا ہے۔ اٹلی کے گرم جوش عوام نے بھی یہی سوچا کہ ہم محفوظ ہیں۔ وٹیکن کا سایا ہمارے سروں پر ہے۔ پوپ کی دعایں ہیں۔ ہمارا کچھ نہ بگڑے گا۔ کچھ ایسا ہی حال اسپین کا رہا۔ وہ بھی ملنا ملانا دل کھول کر کرتے رہے۔ اور تو اور برطانیہ کے عاقل وزیر اعظم نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ تو لوگوں سے ملیں گے اور ہاتھ بھی ملایں گے۔ اب وایئرس کا شکار ہو کر گھر میں مقید ہیں۔ ٹرمپ کی بھی کم و بیش یہی سوچ رہی۔ لیکن اب سنا ہے کہ جو بھی ان سے ملنے اتا ہے۔ اس کا پہلے ٹسٹ ہوتا ہے۔ منفی ہو تو ملاقات ہوتی ہے۔ ورنہ جاو پھر کبھی آنا۔

ایک بات ہے کہ یہ وائرس ہر ایک سے بلا امتیاز ملتا ہے۔ نسل پرست نہیں ہے اور نہ ہی امیر غریب دیکھتا ہے۔ اب برطانیہ کے ولی عہد چارلس سے زیادہ کس نے اتنی پر تحفظ زندگی گذاری ہو گی؟ وہ بھی اب قرنطینے میں ہیں۔ وجہ یقینا ہاتھ ملانا ہی ہے۔ جس کی انہیں عادت پڑی ہوئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ معیشت کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی ہے۔ معشیت جتنی مستحکم ہو ملک بھی اتنا ہی مستحکم ہو گا۔ حکومتوں کے پاس انتخاب کا حق ہے۔ انسان جانیں بچاؤ یا معشیت۔ ضرور جناب پہیہ چلتے رہنا چاہئے لیکن پہیہ چلانے والے بھی تو سلامت اور تندرست رہیں۔ اور جن کے لیئے یہ پہیہ چلے گا وہ ہوں تو؟

ناروے نے سماجی فاصلے رکھے۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے اس کا لحاظ کیا۔ لیکن پڑوسی ملک سویڈن نے معیشت کو اہمیت دی اور لوگوں کو انتخاب کا حق دے دیا۔ اس کے دام وہ مہنگے چکا رہے ہیں۔ اموات پر اموات ہو رہی ہیں۔ ٹھیک ہے کہ یہ ایک بالکل نئی مصیبت ہے۔ مشکل وقت ہے کسی کو ٹھیک طرح معلوم نہیں کہ کیا کرنا ہے۔ وقت بتائے گا کہ کون سا اور کس کا فیصلہ درست تھا۔

ابھی تو ہم کورونا سے لڑ ہی رہے ہیں۔ شاید ڈارون کی تھیوری درست ثابت ہو جائے سروایول آف دا فیٹسٹ۔ مایوسی کی باتیں نہیں کرتے۔ سروایول بھی ہو گا۔ لوگوں کی بڑی تعداد صحتیاب ہو جائے گی۔ لیکن کیا دنیا کبھی اپنے معمول پر واپس آ سکے گی؟۔ کیا زندگی کبھی نارمل ہو سکے گی؟۔ سب پہلے جیسا ہو جائےگا؟ جواب دینا ابھی مشکل ہے

پروازیں بند ہیں۔ قطار اندر قطار جہاز پارک ہیں، پانی کے جہاز کورونا مریضوں کو لیے لیے پھر رہے ہیں۔ اولمپیک کھیل ایک سال کے لیئے ملتوی۔ اسکول بند ہیں، بچے گھر پر پڑھائی کر رہے ہیں۔ لوگ دفتروں کو گھر میں اٹھا لائے ہیں۔ میٹرو، بسیں اور ٹرامیں خالی خالی چل رہی ہیں۔ شوپنگ مالز بھایں بھایں کر رہے ہیں۔ رسٹورنٹس اور کوفی شاپس پر تالے پڑ گئے ہیں۔ ٹریفک برائے نام ہے۔ سڑکیں سنسان ہیں۔ عبادت گاہیں ویران ہیں۔ کارخانے، فیکٹریاں، ملیں سب بند۔ فلموں اور سوپ آپیرا کی نئی قسط کی شوٹنگ کینسل، ریالیئٹی شوز ٹھپ۔ اور موسیقی کے کنسرٹ ملتوی۔ کیا زندگی یونہی خوف میں بسر ہو گی؟

ملنا ملانا کیسے ہوگا؟ سماجی فاصلے برقرار رہیں گے؟ لوگ بار بار ہاتھ دھویں گے سینی ٹایئزر جیب میں رکھ کر گھومیں گے۔ ماسک جزو لباس ہو جائے گا؟ پھر اس میں فیشن اور ڈیزائنگ آ جائے گی۔ ورساچی ماسک، گوچی ماسک، شینل ماسک۔ سرجیکل گلوز کے بھی نت نئے نمونے آیں گے۔ اور لوگ برانڈیڈ ماسک اور دستانوں کی دوڑ میں لگ جایں گے۔ ابھی جو اقدام ہم ہنگامی اور وقتی سمجھ کر لے رہے ہیں وہ شاید ہمارا لائف اسٹائل بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments