یوم تشکر اور ایک ورکر کی فریاد


\"mehmood-shafi-bhatti\"

آخر کار ”یوم تشکر“ منا لیا گیا۔ نوازشریف کی آج سے تلاشی شروع ہوچکی، شیخ رشید کی ناراضی بھی دور ہوگئی، پرویز خٹک مجاہد قرار پاۓ۔ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور چوہدری سرور اعلی خطابت میں آسکر کے لیے نامزد پاۓ۔ لیکن اس ساری صورتحال میں تحریک انصاف کا ورکر ابھی بھی پریشان ہے، دلی طور پر رنجیدہ ہے کہ جناب اگر آپ کے اندر عدلیہ کا اتنا ہی احترام تھا تو آپ یکم نومبر کا انتظار فرما لیتے۔ اتنا بگاڑ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک انصافی اپنی فریاد کچھ اس طرح سے کرتا ہے!

”بس کرو خان صاحب!
اب تو نظریات نامی بلا سے ڈر لگنے لگا ہے۔ ایسے نظریات جس میں ورکرز مار کھائیں، لیڈر پش اپس لگائیں۔ ایسے نظریات جس میں ورکرز کی مشاورت سے بغیر حکم شاہی جاری ہو۔ لاک ڈاؤن کا نعرہ لگا کر، دو ورکرز کو قبر میں اتار کر، نظام بدلنے کی تمنا دِل میں پیدا کرکے اور پھر ارشاد ہوتا ہے” کل ہم یوم تشکر منائیں گے“۔ کونسا یوم تشکر؟ دو ورکرز کی موت کا تشکر یا پھر سینکڑوں ورکرز کی مار کا یوم تشکر؟ خان صاحب اب جو بھی فیصلہ کریں بجاۓ آنکھیں کھولنے کے دماغ بھی کھول لیں۔ کیونکہ اس سے ووٹر تو دور کی بات آپ کے ورکرز بھی شرمندہ ہورہے ہیں اور ساتھ متنفر بھی ہورہے ہیں۔ جب سے آپ کی سیاست شخصیات کی محتاج ہوئی ہے، آپ کو سیاسی طور پر ذلالت ہی اٹھانی پڑی ہے۔ جناب اپنی سیاست کا ڈھنگ بدلو، غریب کا خون، غریب کے جذبات اتنے سستے نہیں ہیں کہ جب چاہے آپ ان سے سودا کرو۔ حیرانگی ہوتی ہے جب آپ ریموٹ کنٹرول بیانات اور فیصلے کرتے ہو۔ بہت شرمندگی محسوس کررہا ہوں، بہت تکلیف ہورہی ہے۔ “

کسی بھی تحریک کی کامیابی یا ناکامی میں اس کے ورکرز اور لیڈرشپ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ تحریکیں ورکرز کی جوانمردی اور لیڈر کی حکمت عملی سے کامیاب ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف کے ورکرز نے اپنی جان لڑائی، پولیس سے مار کھائی، خٹک کے قافلے پر شیلنگ ہوئی لیکن ثابت قدم رہے۔ افسوس ہوتا ہے عمران خان کی سیاست کو عروج پختونوں نے دیا لیکن اسٹیج پر عمران خان کے دائیں، بائیں قریشی اور ترین نظر آئیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں اگر یہ دل سے چاہتے تو قریشی اپنے مرید ہی لاکھوں کی تعداد میں بھر کر لے آتا، ترین صاحب لودھراں سے اپنے فیکٹری ورکرز کوہی لے آتا یاپھر یارمحمد رند بلوچستان سے اپنا رند قبیلہ ہی لے آتا۔ لیکن افسوس صد افسوس پارٹی کی مرکزی قیادت نے اپنے لیڈر کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا اور بنی گالہ چپک کر بیٹھ گیے۔

فریاد کنندگان سے آپ کی تحریک انصاف کے لیے قربانیاں لاجواب ہیں۔ لیکن جب پارٹی کی مرکزی قیادت ہی اپنے لیڈر کے حکم کی تابع داری نہ کرے، جب صرف خٹک ہی پنجاب حکومت کے اعتاب کا شکار ہو، جب صرف چند ہزار نہتے ورکرز ہی مارکھائیں، جب اعلی قیادت بزدلی کا ثبوت دے تو پھر اسی طرح کا فیصلہ ہی سیاسی ساکھ کو دوام بخشتا ہے۔ عمران خان کو معلوم ہو چکا تھا کہ دس لاکھ تو دور دس ہزار ورکرز کو جمع کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس لیے سیاسی ہزیمت سے بچنے کے لیے ایسا سخت فیصلہ کرنا پڑا۔ لیڈر وہی ہوتا ہے جو عدم تشدد کو فروغ دے، عمران خان نے جب محسوس کیا کہ پر تشدد واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، حکمران آمریت پر اتر آۓ ہیں، پنجاب حکومت طالع آزما ہوچکی ہے۔ تو ان حالات میں ایسا فیصلہ ہی بہتر تھا۔

ہندوستان کی تاریخ میں گاندھی سےبڑا لیڈر نہیں آیا۔ آپ تحریک خلافت کو اٹھا کر دیکھ لیں، جب تحریک اپنے عروج پر تھی، پر تشدد واقعات نے زور پکڑا، گاندھی نے تحریک ختم کرنے کا اعلان کریا۔ اسی طرح سول نافرمانی کی تحریک اپنے عروج پر تھی لیکن تشدد میں اضافے کی وجہ سے تحریک کو اختتام پزیر ہونا پڑا۔ لیڈر وہی ہوتا ہے جو اپنے ورکرز کو تشدد سے بچاۓ۔ سیاست میں مواقع ملتے رہتے ہیں لیکن اگر ورکرز متنفر ہوجائیں، یا ہمت ہار جائیں تو تحریکیں ناکام ہوجاتی ہیں۔ گاندھی کے طرز سیاست پر اس وقت کے مفکرین بھی تنقید کرتے تھے لیکن آج گاندھی کی بصیرت کو ہندوستان کا متشدد طبقہ بھی تسلیم کررہا ہے۔

عمران خان کا دھرنا ملتوی کرنا دراصل عدم تشدد کی سیاست ہے۔ عمران خان کے اس فیصلے کو اپوزیشن اور دیگر تجزیہ نگار کافی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں لیکن آنے والے وقت میں یہ فیصلہ میرے نزدیک باب روشن ہوگا۔ مورخ یہ لازمی لکھے گا کہ عمران نے اس ملک کو بند گلی میں جانے سے بچا لیا لیکن ساتھ ساتھ حکومت وقت کی ریاستی دہشت گردی اور جبر کو بھی خون کی سیاہی سے لکھے گا۔ مورخ یہ بھی لکھے گا پاکستانی عوام پر چند خاندانوں کے تسلط نے اس ملک کی نظریاتی اور معاشی سرحدوں میں گہرے شگاف ڈالے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments