ماں کو فاقے کیوں کرائے؟


 یہ یاد کرانا مناسب ہو گا کہ اس عاجز نے 31 مارچ کے کالم میں یہ عرض کیا تھا کہ ڈاکٹروں اور نرسوں کو اس بحران میں حفاظتی سامان پوری طرح مہیا نہیں کیا جا رہا اور یہ مسئلہ بڑی بد مزگی کو جنم دے سکتا ہے۔ کل اسی مسئلہ پر کوئٹہ کے کچھ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں نے ہڑتال کی اور احتجاج شروع کر دیا کیونکہ اٹھارہ ڈاکٹروں کو یہ بیماری لگ چکی ہے۔ اس پر پولیس نے ان کی پٹائی شروع کر دی اور کچھ دیر کے لئے گرفتار بھی کیا۔ بلوچستان حکومت کی طرف سے محترم لیاقت شاہوانی صاحب نے موقف پیش فرمایا۔ اور اعداد و شمار پیش کئے کہ حکومت نے ہسپتالوں کو کتنا سامان مہیا کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سامان ڈاکٹروں کو ملا بھی ہے کہ نہیں؟ کیونکہ پنجاب کے ایک ڈسٹرکٹ ہسپتال میں جو ماسک بھجوائے گئے وہ چوری ہو گئے اور صبح ڈاکٹر بغیر ماسک کے مریض دیکھ رہے تھے اور خاکروب حضرات نے ماسک پہنے ہوئے تھے۔

اسی کے قریب ایک تحصیل ہسپتال میں ماسک پہنچ گئے لیکن ایم ایس نے ڈاکٹروں کو مہیا نہیں کئے اور کہا کہ ابھی ضرورت نہیں ہے۔ محترم شاہوانی صاحب نے فرمایا کہ اگر یہ چیزیں پاکستان میں بن رہی ہوتیں تو ہم فوری مہیا کر دیتے لیکن انہیں درآمد کرنا پڑ رہا ہے۔ عرض ہے کہ ان کو بنانے کے لئے کوئی راکٹ سائنس درکار نہیں ہے۔ اور پرائیویٹ سیکٹر یہ اشیاءبنا رہا ہے لیکن حکومت نے ان سے رابطہ کر کے اور ان کی مدد کر کے ان کی پیداوار بڑھانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ امریکہ بھی یہ اشیاء درآمد کرتا تھا لیکن انہوں نے اس بحران میں ہنگامی طور پر ملک کے اندر ان بڑے پیمانے پر پیداوار شروع کر دی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش اور ہندوستان میں ہمیشہ سے صحت کے شعبے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

جب یہ بات کی جائے کہ اب تک ہم نے صحت کے شعبہ کی طرف توجہ نہیں تو یہ جواب سننے کو ملتا ہے کہ صاحب آپ خوامخواہ لٹھ لے کر حکومت کے پیچھے پڑ گئے۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ کورونا حملہ کر دے گا؟ امریکہ اور اٹلی بھی تو بے بس ہیں۔ ایک لمحے کو تصور کریں کہ کورونا کی بلائے ناگہانی نازل نہیں ہوئی۔ یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستانیوں کی صحت کا معیار کیسا تھا؟ اس کو ناپنے کا ایک معیار تو یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اوسط عمر کتنی ہے؟ پاکستان میں اوسط عمر 66 سال اور کچھ مہینے ہے۔ بنگلہ دیش میں 72 سال، ترکی میں 77 سال، اردن میں 74 سال، چین میں 76 سال اور ناروے میں 83 سال ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم اس اعتبار سے بہت پیچھے رہ گئے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ 1960 میں ترکی کی اوسط عمر ہمارے برابر اور چین کی اوسط عمر ہمارے سے بھی کم تھی۔

اب ایک اور جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر ہزار بچوں میں سے 57 بچے اپنی پہلی سالگرہ سے قبل مائوں کی گود سونی کر کے قبر میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس معیار کو Infant Mortality Rate کہا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں یہ شرح 25، ترکی میں صرف 9، اردن میں 14، چین میں 7 اور ناروے میں صرف 2 ہے۔ یعنی پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد جو زندگی کے پہلے سال میں ہی مر جاتے ہیں دوسرے ممالک سے کئی گنا زیادہ ہے۔

اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں شرح اموات کیا ہے؟ اسے Under five mortality rate کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے ہزار بچوں میں سے 69 بچے پانچ سال کی عمرکو پہنچنے سے قبل مرجاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں یہ شرح 30، ترکی میں 11، اردن میں 16، چین میں 9 اور ناروے میں صرف 3 ہے۔ اس لحاظ سے بھی ہم سب سے پھسڈی ہیں۔ آخر کس کس چیز کا ماتم کریں ؟

اب یہ دیکھتے ہیں کہ حمل اور زچگی کے دوران کتنی مائیں موت کے منہ میں جاتی ہیں۔ پاکستان میں ہر ایک لاکھ بچوں کی پیدائش کے دوران 140 مائیں زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ بنگلہ دیش کا حال ہمارے سے بھی برا ہے وہاں یہ شرح ہے 173، ترکی میں صرف 17، اردن میں 46، چین میں 29، اور ناروے میں صرف 2 ہے۔ یہ فرق بہت زیادہ ہے۔

یہ کفریہ اعدادوشمار سن کر یہ جواب دیا جائے گا کہ بھئی تقدیر کا کھیل ہے؟ اس آفت کے وقت یہ باتیں کیوں کرتے ہو؟ تقدیر کو الزام دینے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں صحت پر کتنا خرچ کیا جاتا ہے اور دوسرے ممالک میں کتنا خرچ ہوتا ہے؟ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہمیں سب سے زیادہ صحت پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں ہر سال ایک شخص کی صحت پر سب کچھ ملا کر 39 ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔ اور بنگلہ دیش میں 34 ڈالر، ترکی میں 468 ڈالر، اردن میں 223 ڈالر، چین میں 398 ڈالر اور ناروے میں ہر سال ایک شخص کے علاج معالجے پر سات ہزار چار سو ڈالر سے زائد خرچ کیا جاتا ہے۔ صاحب! کیا فرق نظر آیا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دوسرے ممالک کی نسبت صحت پر بہت کم خرچ کر رہے ہیں۔ میں نے کئی مرتبہ ‘ہم سب ‘ پر اور اخبارات میں بھی کالم پڑھے ہیں کہ ہسپتالوں کو تو اس طرح ہونا چاہیے جس طرح ماں کی گود۔ اور اس سلسلہ میں ناروے اور دوسرے یوروپی ممالک کی مثال بھی دی جاتی ہے کہ وہاں کا نظام تو اتنا اچھا ہے کہ صحت کے معاملے میں ہر چیز کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے اور پاکستان میں تو سرکاری ہسپتالوں سے اللہ بچائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنی ‘ ماں’ کو فاقے کرا کرا کے نیم جاں کر دیا اور پھر اس بات پر شکوہ شروع کر دیا کہ ہمیں ماں کی آغوش کی گرمی نصیب کیوں نہیں ہو رہی۔ ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ جب ہماری یہ ‘ماں ‘ بھوکی مر رہی تھی تو ہم کیا اللے تللے کر رہے تھے؟ ناروے اور اس جیسے دوسرے ممالک کے سرکاری ہسپتالوں کا نظام اتنا اعلی اس لئے ہے کیونکہ انہوں نے ہماری نسبت صحت پر ایک سو اسی گنا زیادہ خرچ کیا ہے۔ آپ 39 ڈالر میں ساڑھے سات ہزار ڈالر کے مزے نہیں لے سکتے۔

لیکن ابھی ناقدین کرام کے پاس ایک اعتراض باقی ہے۔ اب یہ کہا جائے گا کہ ناروے اور چین تو امیر ممالک ہیں۔ ان کے اخراجات کا پاکستان جیسے غریب ملک سے کیا موازنہ؟ ٹھہریں۔ اس کو بھی ماپنے کا ایک طریق ہے۔ یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان اپنی مجموعی داخلی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا کتنے فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے؟ سب کچھ ملا کر پاکستان اپنی مجموعی داخلی پیداوار کا تین فیصد سے بھی کم صحت پر خرچ کرتا ہے۔ پاکستان سے بھی بدتر حالت بنگلہ دیش کی ہے۔ ترکی چار فیصد سے زیادہ، اردن ساڑھے پانچ فیصد، چین پانچ فیصد اور ناروے دس فیصد سے بھی زیادہ جی ڈی پی صحت پر خرچ کرتا ہے۔ ظاہر ہے پاکستان اور بنگلہ دیش کے سرکاری ہسپتال برے حالوں میں اس لئے پہنچے کیونکہ انہوں نے اپنی آمد کا بہت کم حصہ صحت پر خرچ کیا۔

ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھی نظم و ضبط کا پابند بنانا ضروری ہے۔ لیکن حفاظتی سامان کی کمی گرفتاریوں سے پوری نہیں ہو سکتی۔ ہمارے مرکزی اور صوبائی بجٹوں کا بہت کم حصہ صحت اور تعلیم پر خرچ ہوتا رہا ہے۔ یہ غلطی درست کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے مہم چلانی ہو گی۔ کورونا سے جتنی اموات ہوئی ہیں اور دنیا میں ایک کہرام مچا ہوا ہے۔ ہر سال پاکستان میں وسائل کی کمی کے باعث اتنے بچوں اور عورتوں کی اموات ہو جاتی ہیں اور ہمارے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments