انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر: کیا کورونا وائرس کے بعد تشدد کی نئی لہر آئے گی؟


کشمیر

کورونا کے عالمگیر قہر سے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کا خطہ بھی متاثر ہے اور فی الوقت متاثرین کی تعداد ایک سو سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ دو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

انڈیا کی دیگر ریاستوں اور خطوں کی طرح وادی کشمیر میں بھی سناٹا ہے لیکن لاک ڈاؤن اور کورونا کی لہر کے درمیان وادی میں مسلح تشدد کی وارداتوں میں کمی کے بجائے اضافہ واقع ہوا ہے۔

پولیس کے مطابق تین ہفتوں کے لاک ڈاؤن کے دوران مختلف جھڑپوں میں 13 عسکریت پسند جبکہ نو فورسز اہلکار بھی ہلاک ہو گئے۔ اس دوران نامعلوم مسلح افراد نے چار عام شہریوں کو بھی گولی مار کر ہلاک کردیا۔

ایک ایسے وقت میں جب وادی کے تمام اضلاع میں لوگ گھروں میں بند ہیں، فوج، پولیس اور نیم فوجی اہلکار عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی کارروائیوں میں تیزی لائے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سعودی عرب کی کشمیر پر ہچکچاہٹ سے پاکستان مایوس؟

کشمیر میں لوگ سمارٹ فون کیوں نہیں خرید رہے؟

’یہ لوگ کشمیر آئے ہیں، کشمیریوں کے پاس نہیں‘

’انڈیا اور پاکستان نے ہماری تکلیفوں سے فائدہ اٹھایا‘

تازہ کارروائی کنٹرول لائن کے قریبی ضلع کپواڑہ کے کیرن سیکٹر میں ہوئی ہے۔ تین روزہ جھڑپ کے بعد فوج نے پیر کو دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے انڈین حدود میں دراندازی کرنے والے پانچ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا اور فائرنگ کے تبادلے میں پانچ فوجی بھی مارے گئے۔

کشمیر احتجاج

اس دوران نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں عام شہریوں کے ہلاکتوں کے واقعات جنوبی کشمیر کے کولگام اور اننت ناگ اضلاع میں رونما ہوئے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان افراد کو مسلح عسکریت پسندوں نے ہلاک کیا ہے۔

گذشتہ روز جنوبی کشمیر میں ایک جھڑپ میں حزب المجاہدین کے جن چار عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا اُن کے بارے میں پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکت میں اُن ہی کا ہاتھ تھا، تاہم کسی بھی مسلح گروپ نے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری تسلیم نہیں کی تھی۔

واضح رہے کہ اس سال یکم جنوری سے چھ اپریل تک مسلح تشدد کی مختلف کارروائیوں میں 50 عسکریت پسند، 11 سیکیورٹی اہلکار اور آٹھ عام شہری ہلاک ہوگئے ہیں۔

گذشتہ برس اگست میں کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کر کے جن پابندیوں کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا، اُن میں سے بیشتر ابھی بھی جاری ہیں۔

سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی اور نصف درجن سے زیادہ ہند نواز رہنماؤں کے علاوہ سینکڑوں کشمیری نوجوان، تاجر، وکلا اور رضاکار جیلوں میں ہیں۔ عالمی سطح پر مطالبات کے باوجود تیز رفتار انٹرنیٹ پر عائد پابندی کو نہیں ہٹایا جا رہا ہے۔

وادی پر تقریباً دو سال سے دلی کا براہ راست انتظامی کنٹرول ہے، اسمبلی تحلیل ہے اور انتخابات کے بارے میں نئی دلی نے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی ہے۔

سرینگر

اسی پس منظر میں پوری دُنیا کی طرح اس ہمالیائی خطے کو بھی کورونا نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گذشتہ تین ہفتوں کے دوران عام زندگی منجمد ہوکر رہ گئی ہے، گو کہ اشیائے ضرورت کی قلت نے ابھی بحران کی صورتحال اختیار نہیں کی ہے۔

کئی مبصرین کو لگتا تھا کہ کورونا کی وبائی صورتحال بدلتے ہی کشمیر میں حالات بہتر ہوجائیں گے۔ لیکن حالیہ ہفتوں کے دوران مسلح تشدد کی وارداتوں نے ان اندازوں کی تردید کر دی ہے۔

دریں اثنا امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور کالم نویس مُنیر اکرم نے پاکستانی روزنامہ ڈان میں لکھے ایک کالم کے ذریعے پیشن گوئی کی ہے کہ کشمیر میں لوگ اب بھی انڈین کنٹرول کے خلاف مسلح مزاحمت پر آمادہ ہیں۔ اس مضمون پر یہاں کے حساس حلقے تشویش میں مبتلا ہیں۔

تجزیہ نگار اور کالم نویس ریاض ملک کہتے ہیں: ’اگر پاکستان پھر ایک بار کشمیر میں مسلح تحریک کا احیا چاہتا ہے تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی کام آسان ہوجائیں گے۔‘

’ایک طرف پاکستان انڈین حکومت کے جبر اور انسانی حقوق کی پامالی پر دُنیا کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف انڈیا یہاں کی مسلح سرگرمیوں کو ’پراکسی وار‘ کہہ کر عالمی حمایت حاصل کر رہا ہے۔ دونوں ملکوں کی اس سفارتی دوڑ کے بیچ کشمیریوں پر کیا گزرتی ہے، وہ محض اعداد و شمار بن کر رہ جاتی ہے۔‘

کئی مبصرین کا خیال ہے کہ انڈین حکومت کے اقدامات کشمیریوں کو دوسرے درجے کے شہری بنانے کی کوشش ہیں، اور وہ ان اقدامات کا مقصد یہاں اسرائیلی طرز پر ہندوؤں کو آباد کرنا سمجھتے ہیں۔

ان کے مطابق ان اقدامات سے یہاں کے لوگوں میں خوف ہی نہیں بلکہ بقا کی جنگ لڑنے کی مجبوری کا احساس بھی پایا جاتا ہے، جو آئندہ دنوں میں خطرناک رُخ بھی اختیار کرسکتا ہے۔

اس ضمن میں گذشتہ دو روز کے دوران مارے گئے عسکریت پسندوں کے جنازوں میں لاک ڈاؤن اور وائرس کے خوف کے باوجود بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

سرینگر کے لال چوک کے ایک تاجر عامر احمد شاہ کہتے ہیں: ’دُنیا کو کورونا کا خوف ستا رہا ہے، لیکن ہم کہتے ہیں کورونا تو چھوڑ دے گا، لیکن اُس کے بعد کشمیر کے میدان جنگ میں جو کچھ ہوسکتا ہے، اُس سے بچنے کی کیا صورت ہے؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp