مہر جان کے پاس اونٹ ہو گا؟


 
دل بہت اداس ہے، شاید اس لیے کہ اسے گھر بٹھا رکھا ہے، یہ باغی ہو چلا ہے۔ اپنا خیال یہ تھا یہ ہے کہ تنہا صدیوں تک رہ سکتا ہوں۔ کوئی نہ ہو تو میلہ دل کے اندر لگا لیتا ہوں۔

اپنی فلمیں بنا کر خود دیکھتا ہوں۔ خود ولن خود ہیرو ہوتا، مرضی سے خیالوں میں لڑکیاں بناتا ہوں، وہ پھر جہاں جب دل چاہے ساتھ یا اردگرد ناچتی پھرتی ہیں۔ کہانی کا کوئی کردار جب دل ہو بدل لیتا ہوں۔ جسے جب جدھر چاہوں مار دیتا ہوں۔ خود ہی دکھی سین بناتا ہوں۔ اپنے بنائے یہ سین ہوتے جن پر ہنستا ہوں۔

کہیں کی مٹی ہو اس سے جڑا سب سے مضبوط حوالہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں کوئی اپنا بہت پیارا مٹی اوڑھ کر آرام کرنے لیٹ گیا ہو۔ آپ کی کہانی سے نکل گیا ہو۔ کمبخت نکل کر بتاتا ہے کہ وہ کتنا ضروری تھا کہانی اس بغیر کتنی ادھوری رہ گئی ہے۔ اس نے کتنا اکیلا کر دیا ہے۔

اک زبردستی کا بھائی تھا جو سارا دن ساتھ رہتا تھا۔ اسے ابھی ساتھ رہنا تھا کہ زبردستی اسے مٹی اڑھا دی گئی۔ چھوٹا تھا پر اس نے سکھایا تھا کہ جن کے ساتھ بیٹھتے ہیں ان کے ساتھ پھر کھڑے بھی ہوتے ہیں۔

نانا ساری عمر سفر میں رہے۔ اپنے سفر کی عادت کی وجہ سے ان کے ساتھ کبھی نہیں بنی۔ پاکستان بننے سے پہلے سندھ گئے۔ ٹوٹا تو ساہیوال آ گئے۔ پاکپتن ضلع بنا تو وہیں بیٹھے اس کے ہو گئے۔ اک دن زمین بیچی رحیم یار خان نکل گئے۔

جب جانے کا پتہ لگا تو لوگ ملنے آتے رہے۔ وہ بھی آیا جس کے ساتھ تیس سال مخالفت ہی رہی تھی۔ اس نے کہا وڈیرہ مٹی کی اتنی ڈھیریاں لگا کر کدھر جا رہے ہو۔ نانا خاموش رہے۔

مٹی کی اگلی ڈھیری رحیم یار خان میں لگنی تھی۔ نانی کو وہاں مٹی کے حوالے کیا خود وہاں سے بھی زمین بیچ کر ٹوبہ اٹھ کر آئے اور مٹی اوڑھ لی۔

نانی سے اپنی دوستی تھی۔ دکھ کے بادل گھر گھر کر آتے تھے ان پر برستے رہے ساری عمر۔ وہ بندی ہمیشہ صابر رہی۔ تقریباً دو دہائیاں زمین کا نہری پانی ہی بند رہا۔ خوشحالی رخصت ہوئی غربت نے ڈیرے ڈالے۔ ایسے میں بھی۔

کبھی سیلاب یا حالات کے مارے پورے پورے خاندان بھی اپنے ڈھور ڈنگروں کے ساتھ رہنے آتے تو یہ نانا کی بجائے نانی ہوتی تھی جو کہتی کہ اللہ کے مہمان آئے ہیں۔ کئی سال بیٹھے رہتے۔ نانا ان مہمانوں سے بھی چڑ سے جاتے تھے۔

نانی نے ہی بتایا کہ یہ ان سے نہیں ان کے اونٹوں سے چڑتے ہیں۔ اونٹ سے نانا کی خنس پرانی تھی۔ مزے کی کہانیاں تھیں۔ جب سندھ رہتے تھے تو ہمارے ایک اونٹ کو حقہ پینا سکھا دیا۔ پتہ نہیں کس نے۔ وہاں بھی ہمسائے میں بلوچ تھے پاکپتن کی طرح۔

حقہ نانا پیتے تھے تو اونٹ بھی ان کے حقے سے کش لگانے کی تب کوشش کرتا جب وہ اسے گھر سے ڈیرے کی طرف لا یا لے جا رہے ہوتے تھے۔

اونٹ کے آگے لگ کے اپنی ایک دوڑ بھی یاد ہے۔ اسے ڈیرے سے گھر لا رہا تھا۔ لگتا تھا کہ یہ اب اوپر ہی چڑھ جائے گا تو اپنی رفتار تیز کر دی، اونٹ نے بھی کر دی، یہ دیکھ کر دوڑ لگائی تو اس نے بھی دوڑ لگا دی۔ بس پھر سائرن بجاتا (روتا) اس کے آگے ہی دوڑتا رہا۔

نانا کی اونٹ سے نہیں بنتی، یہ پتہ لگنے کے بعد اونٹوں سے دوستی کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ کئی بار اسے بیٹھا دیکھتا تو چڑھنے کی کوشش کرتا اکثر گرتا۔ نانی ٹکور کرتے کہا کرتی تھی کہ اونٹ سے گرو تو چوٹ نہیں لگتی۔

اونٹ سے بہت کوشش کے باوجود دوستی نہ ہو سکی۔ وہ گھوم پھر کر درختوں کے پتے کھاتے رہتے۔ میں درختوں پر چڑھ کر کلہاڑی سے ان کی چھوٹی سوکھی شاخیں کاٹتا رہتا۔ شاخیں کترنے کے اس عمل کو چھانگنا کہتے تھے۔ ان درختوں کا بھی اونٹوں والا حال تھا۔ ان پہ چڑھتا کم اور گرتا زیادہ تھا۔

ٹلتا پھر بھی نہیں تھا۔ درختوں سے اونٹوں سے اک میچ سا لگا رہتا تھا۔ سال بعد نانا کے ہاں جاتے تو دیکھتے کہ پرانے درخت جو زرد بڑے تھے بیچ دیے سارے۔ بہت غصہ آتا۔ نانی سمجھاتی کہ ضرورت کے وقت اپنے ہی کام آتے ہیں۔ ٹاہلی اور کیکر بھی اپنے تھے۔ جب کوئی مدد کو نہیں آیا تو یہ آگے ہو گئے۔

خیبر ایجنسی پاک پتن رانی پور سندھ میں کیکر اور اونٹ ایک سے ہیں۔ جو دوست جمرود میں مٹی اوڑھے آرام کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ گھنٹوں سرحد پر سامان لاتے اونٹوں کو دیکھا ہے مل کر۔ کسی کیکر کے پاس بیٹھ کر۔

اداسی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ سب یاد آ رہے۔ یا کوئی مشکل درپیش ہے جس کا سامنا نہیں ہو رہا۔ مشکل کا سامنا حوصلے سے کرتے ہیں۔ دکھ میں روتے نہیں ہیں۔ اپنے دکھ میں شریک نہیں کرتے کسی کو۔ یہ سب تو گھر میں سیکھ لیا تھا۔

چاچی پختون تھیں، زندگی کا سامنا ہمت سے کرنے کا سبق وہ دیتی رہتی تھیں۔ پختون ایسے نہیں کرتے یہ سبق وہ دیتی رہتی تھیں۔

جب ان کا سفر زندگی تمام ہوا تو کوئٹہ میں تھا۔ کسی صورت پشاور نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اک لمحے کو سوچا کہ کیا کروں، وہی کیا جو سیکھا تھا، پشین چلا گیا۔ جو پروگرام بنا تھا اس مطابق دوستوں سے ملا، واپس آ کر اکیلے بیٹھ کر منہ دھوتا رہا۔ اک حساب شاید برابر ہو گیا تھا۔

جب کچھ سال پہلے کوئٹہ گیا تو مہر جان پہلی بار ملنے آیا تھا۔ وہ کچھ لیٹ ہو گیا تھا۔ اس نے اس دیری کی وجہ بتائی تو چپ لگ گئی تھی۔ مٹی سے روایت سے جڑی ہم سب اک سی روحیں ہیں۔ ہماری کہانیاں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں۔

اداسی کی وجہ بس ایک ہے کہ اب لگتا ہماری کہانی سننے والا کوئی نہیں۔ نہ ہو پرواہ نہیں مہرجان کے پاس پتہ نہیں اونٹ کا بندوبست ہو گا یا نہیں کہ پیدل سفر پر نکلیں اپنے جیسوں سے مل کر حال احوال کریں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments