کیا آپ کورونا وائرس کو یو وی لائٹ کے ذریعے مار سکتے ہیں؟


ڈین آرنلڈ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ’آپ کو لوگوں کو حقیقت میں فرائی ہی کرنا ہو گا۔‘

آرنلڈ یو وی لائٹ ٹیکنالوجی میں کام کرتے ہیں جو برطانیہ میں ہسپتالوں، دوائیاں اور خوراک بنانے والی کمپنیوں کو جراثیم کشی کے آلات مہیا کرتی ہے۔ حال ہی میں جب کووڈ۔19 کے متعلق عالمی تشویش عروج پر پہنچی تو ان کے پاس بہت ہی غیر معمولی گزارشات آئیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس ایک نجی شخص کی طرف سے ہمارے آلات کے متعلق ایک انکوائری آئی جس میں کہا گیا تھا: ’کیوں نہ ہم آپ کی ایک یو وی لائٹ لے لیں اور اسے سپر مارکیٹ کے بیرونی دروازے پر لگا دیں اور لوگ اندر داخل ہونے سے پہلے اس کے نیچے کچھ سیکنڈ کھڑے ہوں۔‘

صحت کے متعلق انٹرنیٹ پر گردش کرنے والے وافر مشوروں میں سے اپنے جسم، کپڑوں اور دوسری اشیا کو یو وی لائٹ کے ساتھ جراثیم سے پاک بنانا سب سے مشہور ثابت ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق تھائی لینڈ میں ایک کالج نے ایک یو وی سرنگ بنائی ہے جس میں سے گذر کر طالب علم اپنے آپ کو ڈس انفیکٹ کرتے ہیں۔

سو کیا یہ اپنے آپ کو کووڈ۔19 سے ڈس انفیکٹ کرنے کا اچھا طریقہ ہے؟ اور کیا یہ درست ہے کہ نئے کورونا وائرس کو سورج سے نفرت ہے اور سورج کی روشنی اسے فوراً ہی مار دیتی ہے، جیسا کہ سوشل میڈیا پر آنے والی کچھ رپورٹس میں بتایا گیا ہے۔

کم الفاظ میں اس کا جواب ہے: نہیں۔ اور نیچے آپ کو اس کی وجہ بتاتے ہیں۔

خطرناک شعائیں

سورج کی روشنی میں تین طرح کی یو وی ہوتی ہیں۔ پہلی ہے یو وی اے، جو ان بہت سی الٹرا وائلٹ کرنوں پر مبنی ہوتی ہے جو زمین کی سطح تک پہنچتی ہیں۔ یہ جلد میں سرایت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ جھریوں سے لے کر چہرے کے داغ دھبوں تک جلد کو بوڑھا کرنے میں 80 فیصد اسی کا ہاتھ ہوتا ہے۔

اس کے بعد اگلا نمبر یو وی بی کا ہے جو کہ ہماری جلد میں ڈی این اے کو تباہ کر سکتی، جس کی وجہ سے سن برن (دھوپ میں جھلسنا) اور آخر کار کینسر ہوتا۔ حال ہی میں سائنسدانوں نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ یو وی اے بھی یہ کر سکتی ہے۔ دونوں کے متعلق اچھی خاصی معلومات ہیں اور دونوں سے ہی اچھی کریمیں لگا کر بچا جا سکتا ہے۔

ایک تیسری قسم بھی ہے اور وہ ہے یو وی سی۔ اس نسبتاً زیادہ غیر واضح لائٹ کی ویو لینگتھ یا طول موج چھوٹی اور بہت طاقت ور ہوتی ہے۔ یہ جینیاتی مواد کو تباہ کرنے میں کافی کار آمد ہے وہ چاہے انسانوں میں ہو یا وائرل ذرات میں۔ خوش قسمتی سے ہم میں سے اکثر کو اس کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اور وہ اس لیے کہ فضا میں اوزون اسے زمین پر پہنچ کر ہماری نازک جلد میں گھسنے دینے سے کہیں پہلے فلٹر کر دیتی ہے۔

اور کم از کم اس وقت تک ایسا ہی ہوتا تھا جب تک سائنسدانوں نے یہ دریافت نہیں کر لیا کہ وہ جرثوموں کو مارنے کے لیے یو وی سی کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ 1878 میں اس کی دریافت کے بعد مصنوعی طور پر بنائی گئی یو وی سی سٹیریلائزیشن (جراثیم کشی) کا ایک عام طریقہ بن گیا، جسے ہسپتالوں، جہازوں، دفاتر اور فیکٹروں میں روزانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ پینے کے پانی کو سینیٹائز کرنے کے لیے بھی بہت اہم ہے کیونکہ کچھ پیراسائٹس کلورین جیسی کیمیائی جراثیم کش دوا کے خلاف مدافعت رکھتے ہیں۔ اس لیے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

اگرچہ ابھی تک ایسی ریسرچ نہیں آئی جو یہ بتائے کہ خاص طور پر کووڈ۔19 کے خلاف یو وی سی کتنی موثر ثابت ہو سکتی ہے، لیکن سٹڈیز نے یہ بتایا ہے کہ اسے سارس جیسے کورونا وائرس کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تابکاری وائرل ذرات کے جینیاتی مادوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور ان کو مزید کاپیاں بنانے سے روک دیتی ہے۔

اس کے نتیجے میں یو وی سی کی ایک کنسنٹریٹڈ (گاڑھی) فارم کو کووڈ۔19 کے خلاف اگلی صف کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ چین میں ہر رات کو پوری کی پوری خالی بسوں کو اس نیلی روشنی سے گذارا جاتا ہے جبکہ یو وی سی خارج کرتے ہوئے روبوٹس ہسپتال کے فرش صاف کر رہے ہیں اور بینک اس روشنی کو اپنے کرنسی نوٹوں جراثیموں سے پاک کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

اسی کے ساتھ ساتھ یو وی آلات بنانے والی کمپنیوں کی ریکارڈ سیلز ہوئی ہے، جب کہ اکثر نے آرڈرز پورے کرنے کے لیے فوری طور پر پیداوار بڑھا دی ہے۔ آرنلڈ کہتے ہیں کہ یو وی لائٹ ٹیکنالوجی کے سبھی آلات اب ختم ہو چکے ہیں۔

لیکن یہاں ایک انتباہ بھی ہے۔

آرنلڈ کہتے ہیں کہ ’یو وی سی واقعی ایک خوفناک چیز ہے، آپ کو اس کی زد میں بالکل نہیں آنا چاہیئے۔ یو وی بی سے سن برن کرانے میں گھنٹے لگ جاتے ہیں، لیکن یو وی سی کے ساتھ یہ سکینڈوں میں ہو جاتا ہے۔ اگر یہ آپ کی آنکھوں میں پڑ گئی تو ۔۔۔ پتہ ہے نہ وہ کنکریلا احساس جو سورج کو دیکھنے سے ہوتا ہے۔ یہ کچھ سیکنڈز میں ہی اس سے 10 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

یو وی سی کو محفوظ طریقے سے استعمال کرنے کے لیے آپ کو مخصوص آلات اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے ہاتھوں یا جسم کے دوسرے حصوں کو جراثیموں سے پاک کرنے کے لیے یو وی لائٹ کے استعمال کے خلاف سخت وارننگ جاری کی ہے۔

حال ہی میں سائنسدانوں نے یو وی سی کے حوصلہ افزا استعمال کی نشاندہی کی ہے جسے استعمال کرنا کم خطرناک ہے، لیکن وہ پھر بھی وائرسز اور بیکٹریا کے خلاف کافی کارگر ہے۔ فار۔یو وی سی کی ریگولر یو وی سی سے چھوٹی ویولینگتھ (طول موج) ہے اور ابھی تک لیبارٹری میں انسانی جلد کے خلیوں پر کیے گئے تجربات سے سامنے آیا ہے کہ یہ ان کے ڈی این اے کو نقصان نہیں پہنچا رہی۔ تاہم ابھی اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

لیکن دوسری طرف بیکٹیریا اور وائرسز بھی نہیں اتر رہے کیونکہ وہ اتنے چھوٹے ہیں کہ ان تک لائٹ ہی نہیں پہنچ رہی۔ ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ چوہے کے زخموں کو سپر بگ آیم آر ایس اے سے انفیکٹ ہونے سے بچاتی ہے، جبکہ ایک اور تحقیق بتاتی ہے کہ یہ ہوا میں معلق فلو وائرسز کو مار سکتی ہے۔

تاہم مارکیٹ میں ملنے والے یو وی سی لیمپ ابھی تک فار۔یو وی سی استعمال نہیں کرتے اور اس کا تجربہ ابھی تک اصلی انسانوں پر نہیں بلکہ تجرباتی ڈشوں میں رکھے گئے ہمارے کچھ خلیوں اور دوسرے جانوروں پر گیا ہے۔ سوشاید اس قسم کی تابکاری آپ کو حالیہ وبا میں کام نہ آ سکے۔

کیا سورج کی روشنی حل ہے؟

کیا پھر یو وی اے اور یو وی بی کام کر سکتی ہیں؟ اور اگر ہاں، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ چیزوں کو باہر دھوپ میں رکھ کر ڈس انفیکٹ کر سکتے ہیں۔

اس کا مختصر جواب ہے کہ شاید ممکن ہے، لیکن آپ اس پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔

ترقی پذیر ممالک میں سورج کی روشنی پہلے ہی پانی کو سٹیریلائیز کرنے کا ایک مقبول طریقہ ہے، جس کو عالمی ادارۂ صحت نے بھی تجویز کیا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پانی کو ایک صاف شیشے یا پلاسٹک کی بوتل میں ڈالا جائے اور اس کو سورج کی روشنی میں پانچ چھ گھنٹے تک کھلا چھوڑ دیا جائے۔ سمجھا جاتا ہے کہ سورج کی روشنی میں موجود یو وی اے تحلیل شدہ آکسیجن کے ساتھ مل کر آکسیجن پرآکسائیڈ بناتی ہے جو کہ عام گھروں میں استعمال ہونے والے ڈس انفیکٹنٹ کا ایکٹیو جز ہے جو پیتھوجنز یا بیمار کرنے والے جرثوموں کو مار سکتا ہے۔

پانی کے بغیر بھی سورج کی روشنی سطحوں کو ڈس انفیکٹ کرتی ہے، لیکن اس میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں نہیں پتہ کہ کتنا وقت لگ گا، کیونکہ کورونا وائرس پر کی جانے والی کئی سٹڈیز کے متعلق کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ کووڈ۔19 کے قریبی رشتہ دار سارس پر کی جانے والی تحقیق سے یہ سامنے آیا تھا کہ وائرس کو 15 منٹ تک یو وی اے کے نیچے رکھنے سے یہ نہیں پتہ چلتا کہ وہ کتنا انفیکشیئس ہے۔ تاہم اس تحقیق میں لمبے عرصے تک یو وی اے یا یو وی بی کے نیچے کھلا رکھنے کو نہیں دیکھا گیا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جینیاتی مواد کے لیے زیادہ خطرناک ہے۔

اس کے بجائے وائرس کچھ نشانیاں دیتے ہیں۔ فلو کو ہی دیکھیں۔ جب سائنسدانوں نے برازیل میں ہسپتالوں میں داخل ہونے والوں کا تجزیہ کیا تو ان کو پتہ چلا کہ لکڑیوں کو جلانے کے موسم میں فلو کے کیسز زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اس وقت جنگلوں کی آگ سے فضا میں دھواں زیادہ اڑتا ہے اور اس کی وجہ سے سورج سے آنے والی یو وی لائٹ ہلکی ہو جاتی ہے۔

ایک اور تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جتنا زیادہ فلو کے ذرات سورج کی روشنی میں رہیں گے اور وہ جتنی زیادہ کنسنٹریٹڈ (گاڑھی) ہو گی، اتنے ہی انفیکشن کے امکانات کم ہوں گے۔ کاش اس تحقیق میں خشک جگہوں پر فلو کے اثرات کو دیکھا جاتا۔

ان سب کا مطلب ہے کہ سورج کی روشنی کے ذریعے ڈس انفیکٹ کرنا انتہائی پریشان کن ہے۔

پہلے تو کسی کو یہ ہی نہیں معلوم کہ کووڈ۔19 کو سورج کی روشنی کے ذریعے ڈی ایکٹیویٹ کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے یا کتنی روشنی کی ضرورت ہے۔ اور اگر اس کا پتہ بھی چل جائے تو سورج کی روشنی میں یو وی کی مقدار، دن کے وقت، موسم، سال کی رت اور آپ دنیا میں کہاں رہتے ہیں، خصوصاً خط العرض کے حساب سے، بڑھتی کم ہوتی رہتی ہے۔ سو یہ وائرس کو مارنے کا کوئی قابلِ اعتماد طریقہ نہیں ہو سکتا۔

آخر میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کسی بھی قسم کی یو وی سے اپنی جلد کو ڈس انفیکٹ کرنے سے آپ کی جلد کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور آپ میں جلد کے سرطان کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اور ایک مرتبہ جب آپ کے جسم میں وائرس پہنچ جاتا ہے تو یو وی کی کتنی بھی مقدار استعمال کر لیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp