کرونا وائرس: ایک نیا، دلچسپ اور خوبصورت پہلو


بہت پہلے سنا تھا کہ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ بس دیکھنے والی آنکھ ہونی چاہیے۔ اور میں تب خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوا جب مجھے ذرا سوچنے پر اس خونی منظر کا دوسرا پہلو نظر آنا شروع ہوا۔

”بالکل شفاف، بہت خوبصورت پہلو“

بلاشبہ اس وائرس نے کروڑوں انسانوں کو متاثر کرنے کے ساتھ ہزاروں کی جان بھی لے لی ہے مگر اس کا دوسرا رخ اتنا ہی خوبصورت ہے، جتنا پہلا والا وحشی۔ آئیے آپ کو اپنی آنکھ سے ایک نظارہ کراتا ہوں۔

سب سے پہلا دھچکا مجھے تب لگا جب اوزون نامی تہہ (ozone layer) ، جو زمین کے گرد موجود ہوتی ہے، پر معلومات اکٹھی کرنا شروع کی۔ اوزون کے بغیر اس کرّۂ ارض پر کسی بھی جاندار کا وجود ناممکن ہے۔ یہ تہہ انسانی حرکات کی وجہ سے مسلسل تباہی کا شکار تھی اور پچھلے کچھ مہینوں میں اس میں نمایاں بہتری آنا شروع ہو گئی ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق یہ خود کو اپنی اصل حالت میں واپس ڈھال سکتی ہے لیکن شرط وہی ہے کہ انسانوں کو اپنی غیر انسانی حرکات سے گریز کرنا ہوگا ورنہ انسانیت خطرے میں پڑ جائے گی۔ ابنِ آدم کو اپنی لامحدود خواہشات کو قابو میں رکھ کر اپنے ماحول کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔

شاید انسان نے قدرت پر اتنا ظلم کیا کہ اب خود قدرت اس سے بدلا لینے پر اتر آئی ہے۔ کرونا وائرس کے اثرات سے ثابت ہوتا ہے کہ آلودگی ختم ہو جانے کی حد تک گھٹ گئی ہے۔ چاہے فضائی ہو یا زمینی، آبی ہو یا پھر صوتی۔ ہوا میں دھواں بلند کرے والی فیکٹریاں، کارخانے، بھٹّے اور گاڑیاں اب بہت کم کام کرتی نظر آتی ہیں، جس سے فضا میں خوشگوار تبدیلی آئی ہے اور ماحول دوبارہ تروتازہ ہو گیا ہے۔ اسی طرح بازاروں کا رش، گاڑیوں کے ہارن اور لاؤڈسپیکروں کی آوازیں بھی تھم گئی ہیں۔ محوِ حیرت ہیں کہ حیوانوں سے بدتر انسانوں کے معاشرے میں اچانک اتنا سکون کیسے آگیا۔ سیاحوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے عوامی مقامات میں گندگی کم ہوتی جا رہی ہے۔ سرسبز وادیوں اور مصنوعی جھیلوں کا کھویا حسن بحالی کی طرف گامزن ہے۔ پانی میں جاتے کیمیکل بھی رج گئے ہیں۔ پلاسٹک کم ہو گئے ہیں۔ سمندری مخلوق خوش ہے، جنگلی حیات خوش ہے، چرند پرند سبھی خوش ہیں، سوائے ظالم انسانوں کے۔ پھر ایک وڈیو نظر سے گزری جس کو دیکھ کر مجھے ایک شعر یاد آ گیا
مرنے والوں کی خیر ہو مولا
میرے دن بھر گلاب بکتے ہیں
تو مجھے اس شخص کے احساسات کا بخوبی اندازہ ہوا۔ مذکورہ وڈیو میں ایک سماجی کارکن اپنی ایک آپ بیتی سنا رہا تھا کہ جب وہ ایک بوڑھی مفلس عورت کو راشن پہنچانے گیا تو کیسے اس عورت نے اسے روک کر کہا کہ ہمیں نہیں پتا کہ باہر دنیا میں کیا ہو رہا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ کوئی عید ہے، کوئی تہوار ہے، تبھی تو سب لوگ ہمیں راشن دینے آ رہے ہیں۔

بیٹا! اس عید کے صدقے اللہ تمہیں ہر خوشی دے اور اللہ ان دنوں کو ہمیشہ قائم رکھے۔ آمین۔ اب وہ شخص یہ بھی نہیں بتا سکتا تھا کے اماں یہ عید یا تہوار نہیں ہے، ایک آفت ہے، ایک چھلاوہ ہے جو انسانوں کو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں ہم ایسے لوگوں کی مدد کے لیے ہمیشہ رمضان اور عید کا انتظار کرتے ہیں۔ اس عورت اور اس جیسے تمام لوگوں کے لئے تو یہ واقعی جشن کا سماں ہے، عید سے برتر کوئی تہوار ہے۔

مذہبی حوالے سے بھی اس کے کچھ اثرات ہیں۔ اس وائرس کی بدولت بہت سے بھولے بھڑکے لوگ مذہب کی راہ پر واپس آگئے ہیں۔ اسے اللہ کا عذاب جان کر دعاؤں اور استغفار میں صروف ہو گئے ہیں۔ دنیا اسلام کے اصولوں کو اپنا رہی ہے۔ حلال اور حرام چیزوں کے فرق کی وجہ معلوم ہو گئی ہے۔ بازاروں کی رونقیں تھم گئی ہیں۔ عورتیں نقاب کی افادیت کو سمجھ رہی ہیں۔ گھروں میں بند ہیں۔ فضول خرچی سے بچا جا رہا ہے۔ مہنگی شادیوں کے بجائے سادگی سے نکاح ہو رہے ہیں۔

ہسپانیہ میں تقریباً پانچ صدیوں بعد اذان کی اجازت دی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی ہر ٹی وی چینل، جو کہ اذانوں کے رواج کو یکسر مٹا چکے تھے، اب پھر پنج وقتی اذان کے ساتھ ساتھ اذانِ مغفرت بھی نشر کر رہے ہیں۔ لوگ ”صفائی نصف ایمان ہے“ کا مطلب سمجھ رہے ہیں۔ اسلام کے بتائے گئے وضو کے طریقے سے وائرس سے حفاظت ممکن ہے۔ اس سب سے میں باآسانی یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہوں کہ، ”اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے“۔

آخری نکتہ جو میں پیش کرنے لگا ہوں وہ ٹیکنالوجی کے متعلق ہے۔ انسان کو پتہ چل چکا ہے کہ وہ کتنا پانی میں ہے۔ ایک وائرس نے انسانی ترقی کے دعویداروں کو جہاں پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے، وہاں ٹیکنالوجی کے چند مثبت پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔ ہمیں پتہ چل چکا ہے کہ بہت سے کام گھر بیٹھے بھی ہو سکتے ہیں۔ دفتروں کے نام پر بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنے کے بجائے گھروں پر مصنوعی دفاتر قائم ہو سکتے ہیں۔ ایمازون، دراز اور علی بابا جیسی بڑی کمپنیوں نے بھی ”گھر سے کام“ کا ٹرینڈ متعارف کروا دیا ہے۔ اب حضرت انسان کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے باہر جانا ضروری نہیں ہے جس سے وقت اور پیسے دونوں کی بچت ہو سکتی ہے۔

اگر ہم رضائے الہی سمجھ کر انتقال کرنے والوں کو چند لمحوں کے لئے نظر انداز کریں کیونکہ مرنے والوں کی شرح انتہائی کم ہے تو پھر ہم اس منظر کے ایک خوبصورت پہلو کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی گواہی آپ کا دل دے گا۔

مجھے یہ جان کر قطعن حیرت نہیں ہوگی کہ بہت سے لوگ میری باتوں سے شدید اختلاف کریں گے کیونکہ ابھی تک میری شخصیت کا ایک حصہ بھی اس منظر کے معاشی پہلو پر اٹکا ہوا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ تھوڑا سا غور کرنے پر خوبصورتی خودبخود دکھائی دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments