ووہان میں لاک ڈاون کا خاتمہ، امید کی کرن



بلا آخر کٹھن جدوجہد اور عظیم قربانیوں کے بعد چین کا شہر ووہان نوول کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیت گیا۔ چین سمیت دنیا بھر میں نوول کورونا وائرس کا ابتدائی مرکز قرار دیا جانے والا شہر ووہان اڑھائی ماہ کے طویل لاک ڈاون کے بعد آٹھ اپریل کو کھول دیا گیا جس سے عالمگیر وبا کووڈ۔ 19 کی روک تھام و کنٹرول کی بین الاقوامی کوششوں کو بھی ایک توانا پیغام ملا ہے۔

دسمبر کے آغاز سے تیئیس جنوری تک ووہان کے لاک ڈاون کی کہانی کچھ یوں ہے کہ آٹھ دسمبر کو ووہان میں نوول کورونا وائرس کے پہلے کیس کی شناخت کی گئی جبکہ پانچ جنوری تک یہ تعداد انسٹھ تک پہنچ چکی تھی۔ گیارہ جنوری کو ووہان میں پہلا مریض جاں بحق ہو ا اور بیس جنوری تک ماہرین یہ جان چکے تھے کہ وائرس ایک فرد سے دوسرے فرد تک انتہائی تیز رفتاری سے منتقل ہو رہا ہے۔ بائیس جنوری تک چین میں وائرس کے بعد سترہ افراد جاں بحق ہو چکے تھے جبکہ ملک کے پچیس دیگر صوبائی علاقوں میں پانچ سو اکہتر مصدقہ مریض سامنے آ چکے تھے۔

اُس وقت چونکہ چین بھر میں جشن بہار کی سفری سرگرمیاں بھی جاری تھیں لہذا یہ اندیشہ تھا کہ اگر تھوڑی سی بھی تاخیر کی گئی تو انتہائی خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں لہذاتیئیس جنوری کو چینی حکومت نے مضبوط فیصلہ کرتے ہوئے ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد آبادی کے حامل ووہان شہر کو مکمل لاک ڈاون کر دیا تاکہ نہ صرف اندرون چین بلکہ عالمی سطح پر بھی وائرس کے پھیلاؤ کو موئثر طور پر روکا جا سکے۔ اندرون شہر ہر قسم کی پبلک ٹرانسپورٹ بند کر دی گئی، بیرون شہر بھی سفری پابندیاں عائد کر دی گئیں اور شہریوں سے کہا گیا کہ وہ خود کو اپنے گھروں تک محدود کر لیں۔

تجارتی مراکز، شاہراہیں، گلیاں، بازار اور تفریحی مقامات ویرانی کا منظر پیش کرنے لگے۔ عوام نے تمام سماجی تقریبات منسوخ کر دیں اور آئیسولیشن کے تحت وائرس کے خلاف عوامی جنگ میں شمولیت اختیار کی گئی۔ اس موقع پر انسداد وبا کے لیے ہنگامی اقدامات کا آغاز کرتے ہوئے صدر شی جن پھنگ کی ہدایات کی روشنی میں ایک مرکزی رہنماء گروپ تشکیل دیا گیا جو فوری ووہان پہنچا اور وبا کی روک تھام و کنٹرول کے امور کی براہ راست نگرانی کرنے لگا۔

ایک رکارڈ مختصر مدت میں نوول کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے دو مکمل اسپتال تعمیر کیے گئے۔ ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں طبی عملہ ووہان جمع ہونا شروع ہوا۔ شہر میں عارضی اسپتال قائم کیے گئے۔ آئیسولیشن مقامات مختص کیے گئے اور انسانی تاریخ میں وبا کو شکست دینے کے لیے ایک عظیم منظم جدوجہد دیکھنے میں آئی۔ ووہان شہر میں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چین بھر میں مصدقہ مریضوں کی مجموعی تعداد 81,802 ہے جبکہ صرف ووہان میں ہی مریضوں کی یہ تعداد 50,008 ہے۔ اسی طرح چین بھر میں اموات کی مجموعی تعداد 3,333 ہے جس میں سے ووہان شہر میں جاں بحق افراد کی تعداد 2,571 ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ چین میں اس وقت تک 77,279 مریض صحت یابی کے بعد اسپتالوں سے فارغ بھی کر دیے گئے ہیں۔

ان تمام فیصلہ کن اقدامات کے ثمرات جلد ہی سامنا آنا شروع ہو گئے اور چھ مارچ تک ووہان شہر میں یومیہ کیسوں کی تعداد ایک سو سے کم تک محددو ہو کر رہ گئی، دس مارچ کو چینی صدر شی جن پھنگ نے ووہان کا دورہ کیا جس سے وبا کے خلاف برسرپیکار طبی عملے اور ووہان کے شہریوں کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی ہوئی۔

ووہان کے عوام کی قربانیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آج شہر کی رونقیں بحال ہو رہی ہیں اور ووہان کے دروازے ایک بارپھر پوری دنیا کے لیے کھل چکے ہیں۔ 76 روز قبل شہر پر مایوسی طاری تھی، لاک ڈاون کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی اور کاروباری و تجارتی مراکز کی بندش نے بے شمار مشکلات پیدا کیں لیکن ووہان کے عوام آزمائش کی اس گھڑی میں ”ہیروز“ بن کر ابھرے اور اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت ایثار و قربانی کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ طبی عملے نے مریضوں کے علاج معالجے کے لیے دن رات ایک کر دیا، کمیونٹی اہلکاروں نے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دیں اور عوام نے حکومتی ہدایات پر عمل پیروی اور نظم و ضبط کی ایک بے نظیر مثال قائم کی۔

ووہان کی خوش قسمتی یہ بھی رہی کہ مشکل گھڑی میں ملک کے دیگر علاقوں سے فوری امداد کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا اور ووہان میں فتح کے حصول کے لیے تمام تر وسائل کو موئثر طور پر استعمال میں لایا گیا۔ ملک بھر سے ووہان کی مدد کو آنے والا بیالیس ہزار سے زائد طبی عملہ یقیناً خراج تحسین کا مستحق ہے کیونکہ یہی طبی عملہ نوول کورونا وائرس کے خلاف کامیاب دفاع کی ایک آہنی دیوار ثابت ہوا۔ یہاں چین کے دیگر علاقوں کی امدادی سرگرمیاں بھی لائق تحسین رہیں، ووہان کو لاکھوں ٹن طبی سازوسامان اور سترہ ہزار سے زائد وینٹیلیٹرز بھیجے گئے اور اتحاد و یکجہتی کا ایک ایسا نمونہ سامنے آیا جسے بلاشبہ غیر معمولی قرار دیا جا سکتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ بھی رہی کہ چند مغربی حلقوں نے آغاز میں چینی حکومت کے لاک ڈاون کے اقدامات پر بے جا تنقید کی لیکن بعد میں ویکسین اور مناسب طریقہ علاج کی عدم دستیابی کی صورت میں یہی مضبوط فیصلہ فتح کی بنیاد بنا، ووہان کے عوام نے مغربی پروپیگنڈے کو یکسر نظر انداز کر دیا اور اپنی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ووہان نے بے پناہ قربانیاں دیتے ہوئے دیگر دنیا کو لازمی تیاریوں کے لیے ایک قیمتی مہلت فراہم کی لیکن موجودہ وبائی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ شاید بدقسمتی سے اکثر ممالک اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔

آٹھ اپریل ووہان کے شہریوں اور چینی عوام کے لیے ایک تاریخ ساز دن ہے۔ یہ دن ایک کٹھن جدوجہد کے بعد فتح کے حصول کی علامت اور ساتھ ساتھ پوری دنیا کے لیے ایک پیغام بھی کہ آئیے ایک ساتھ مل کر نوول کورونا وائرس کو شکست دینے کے بعد صحت عامہ کو اولین ترجیح دیتے ہوئے ایسے اقدامات کریں جس سے پھر کسی شہر کو لاک ڈاون کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔

نوول کورونا وائرس کے خلاف ووہان کی فتح سارے عالم کے لیے بھی امید اور روشنی کی ایک کرن ہے۔ ووہان کا کامیاب ماڈل وبا کے خلاف عالمگیر فتح کی ایک بنیاد ہے اور یہ تقاضا بھی کہ نوول کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں قیمتی جانوں کی قربانیوں کو ہر گز ضائع مت ہونے دیا جائے اور مشترکہ مستقبل کا حامل ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جس میں ”انسانیت“ کے تحفظ کو اولین ترجیح حاصل ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments