کرونا بحران اور دانشوروں کے تین وائرل برانڈ


خاکسار کی پختہ رائے ہے کہ بحران انسانی نقسیات کا پتا دیتے ہیں اور یہ کہ کرونا کے بحران کے ان دنوں میں سوشل سائنٹسٹ حضرات کے پاس بہترین موقع ہے کہ بدلتی ہوئی عوامی نفسیات کا مشاہدہ کریں ….. اور یہ عوام کے پاس بھی بہترین موقع ہے کہ وہ دانشوروں کی نفسیات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ان کا تصور علم یا جو بات وہ عموما بطور ایک سچائی کے بیان کرتے ہیں وہ کن بنیادوں پر قائم ہوتی ہے- کرونا کے اس بحران پر موجود تبصروں کی بنیادوں پر میں ہم وطن دانشوروں کو تین حصوں میں تقسیم کروں گا۔

ایک وہ جو ہر بحران میں اپنی اس امید کو زندہ کر لیتے ہیں کہ موجودہ عالمی نظام ملیامیٹ ہو گا اور پھر ان کا مفروضہ نظام لاگو ہو گا۔ یہ لوگ نہ بحران کے سائنسی اسباب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ اس کے حل کی طرف توجہ دلاتے ہیں اگرچہ ان میں سے ایک بڑے طبقے کا یہ دعوی ہے کہ ان کا فلسفہ حیات دراصل سائنسی بنیادوں پر قائم ہے۔ یہ لوگ یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر موجودہ نظام ملیامیٹ ہوا تو اس کی دنیا کو کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی ….

ان میں کچھ سیکولر بھی موجود ہیں اور کچھ مذہبی بھی اور کچھ الحاد سے بھی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں …. ان میں فرق صرف ورژن کا ہے ….

کچھ سوشلسٹ حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ کرونا وائرس ان کا مجوزہ سیاسی و معاشی نظام لائے گا تو کچھ مذہبی سمجھتے ہیں کہ پوسٹ کرونا دنیا میں لوگ مذہب کی طرف زیادہ لگاؤ رکھیں گے اور ملحدین کی ایک بڑی تعداد تو “لوگوں کے تصور خدا” کو بھی ڈوبتے دیکھ رہی ہے…. پہلے دونوں مکاتب فکر سمجھتے ہیں کہ کرونا بحران دراصل موجودہ عالمی نظام کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور پھیلا ہے …فرق یہ ہے کہ اول الذکر کیپیٹلزم کو الزام دیتا ہے تو ثانی الذکر عالمی فحاشی کو…. دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کو دیکھنے کا زاویہ دونوں کا تقریبا یکساں ہی ہے قنوطیت پسند…

ان میں سے کوئی بھی چین، اٹلی، سپین، یو کے، امریکہ اور ایران کو بطور ایک کیس اسٹڈی کے لینے پر تیار نہیں کہ آیا واقعی ان ممالک میں جو کرونا سے شدید ترین متاثر ہیں ان کی پوسٹ کرونا دنیا ویسی ہی ابھر رہی ہیں جیسی امیدیں انہوں نے اپنے دل میں باندھ رکھی ہیں ؟

دوم وہ ہیں جو سازشی نظریات کو ہی اصل علم سمجھتے ہیں …. ان کے خیال میں یہ سب امریکہ یا چین یا کسی دوسرے فریق کی سازش ہے، جن کے اس بحران کے پس منظر میں کوئی پوشیدہ عزائم ہیں جن کا حصول صرف اس وائرس سے ہی ممکن تھا …. ان کی نفسیاتی تحلیل تو ظفر سید نے انڈیپنڈنٹ اردو میں اپنے مضمون “لوگ سازشی مفروضوں پر کیوں یقین کرتے ہیں؟” میں خوب کی ہے… وہ اس کی ایک وجہ ہماری کہانی پسندی کو قرار دیتے ہیں کہ ہم سٹوریز اور فکشن کو بہت پسند کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ عالمگیر نوعیت کے واقعات کے تناظرات اتنے وسیع، دور رس اور غیر شفاف ہیں کہ انہیں سمجھنے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف ان کی تفاصیل، جزیات اور اعداد و شمار روکھے پھیکے اور اکتا دینے والے ہوتے ہیں۔ اس لئے لوگ اس مشقت اور بوریت بھرے کام سے گھبراتے اور دور بھاگتے ہیں … سوم : “اندر کی کہانی تو صرف میں جانتا ہوں” کا احساس ایک مسرت اور احساس برتری پیدا کرتا ہے جس سے سرشار ہو کر یہ لوگ سازشی افسانے بناتے اور پھیلاتے جاتے ہیں ….

میں ذاتی طور پر سازشی نظریات کے گرویدہ لوگوں کو ذہنی مریض ہی سمجھتا ہوں، ان پر ترس تو کھاتا ہوں مگر ان سے بحث کر کے اپنے اور ان کے اذہان کو اذیت سے دور رکھتا ہوں … انہیں میرا احسان مند ہونا چاہئے۔ ٹھیک ہے نا؟

تیسری مخلوق میں وہ لوگ آتے ہیں جو کسی بھی اچھی یا بری خبر، بحران ہو یا آسودگی….. اس کا سائنسی مطالعہ کرتے ہیں … یہ علت و معلول (Cause and Effect ) کی سائنسز کو نہ صرف مانتے ہیں بلکہ کسی بھی معاملے کی کھوج میں اسے ہی رہنما مانتے ہیں …. یہ اگر ایک واقعہ معاشی ہے تو اس کے معاشی اسباب کا جائزہ لینے والے لوگ ہیں اور اگر ایک واقعہ بائیولوجی یا علم طب سے متعلق ہے تو وہ بائیولوجی اور میڈیسن کے علوم سے مدد لیں گے۔ یہ لوگ بدقسمتی سے پاکستان میں کم ہیں مگر موجود ضرور ہیں …. میں نے انہیں پہچانا ہے اور میں ان کا مداح اور شکرگزار ہوں۔

آپ دوستوں کے لئے بھی بہترین موقع ہے کہ اپنے اردگرد کے دانشوروں کو پہچانیں اور ان کا فکری محاسبہ کریں … یہ ایک بہترین موقع بھی ہے اور آپ کے پاس یقینا وقت کی کمی بھی نہیں …

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments