نیویارک میں شب برات، بارش اور ایمبولینس



امریکہ میں اس وقت سات اور آٹھ اپریل کے موسمِ بہار کی درمیانی شب ہے۔ اور یہ شب، شبِ برات ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اپنے من کی مرادیں پوری ہونے، اپنے گناہوں کی بخشش اور آئندہ سال کے لیے خوش بختی کی دعاؤں میں مصروف ہوگی۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ اس سال کی شبِ برات بھی کرونا وائرس جیسی وبا کے موسموں میں آئی ہے۔
آج رات کے پہلے پہر نیند پوری کرنے کے بعد نصف شب اٹھتا ہوں اور حسبِ عادت سب سے پہلے بیک یارڈ کی کھڑکی کھول کر باہر کا نظارہ کرتا ہوں۔ جہاں اکثر اوقات کرونا کی وبا کے باوجود بھی بعض زندہ دل لوگ مختلف سرگرمیوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

ایک منظر میں اکثر ایک ماں وہاں خصوصاً جب دھوپ نکلی ہوتی ہے۔ اپنے تین بچوں کے ساتھ گراؤنڈ میں فٹ بال کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ بچے ماسک پہنے ساتھ فٹ بال کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہوتے ہیں اور ماں خوشی بھرے دمکتے چہرے کے ساتھ ان کے پیچھے پیچھے چلتی رہتی ہے۔

ان تین بچوں میں سب چھوٹا، جو چار پانچ سال کا لگتا ہے۔ اپنی چھوٹی چھوٹی ٹانگوں کے ساتھ اس کا فٹ بال کے پیچھے بھاگنے کا منظر بڑا دلفریب لگتا ہے۔ یہ مسحور کن منظر سب سے زیادہ دل کو بھاتا ہے۔

دوسرے منظر میں ایک باپ ہیلمیٹ سمیت بائیسکل پر بیٹھا ملتا ہے اور اس کے بچے چھوٹی سائییکلوں کے ساتھ باپ کے پیچھے اکثر قطار میں چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ اپنے اپنے فون کے ذریعے سیلفیاں بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے رنگ برنگے ہیلمٹ اور چہرے پر کرونا وائرس سے بچاؤ کے ماسک زندگی کی بھرپور علامت نظر آتے ہیں۔

تیسرے منظر میں ایک لڑکی واک کرتی دکھائی دیتی ہے اور وہ ساتھ ساتھ کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف ہوتی ہے۔ جب چلتے چلتے تھک جاتی ہے تو سستانے کے لیے بیٹھ کر پھر کتاب پڑھنا شروع کر دیتی ہے۔

ایک اور منظر میں ایک ماں اپنی تین بچیوں کے ساتھ گراؤنڈ کے وسط میں بیٹھی دھوپ سینک ہے۔ بچیاں کھیل کود میں مصروف ہیں۔ جبکہ ماں اپنے سیل فون کے ساتھ مصروف ہے۔ ایسے میں کبھی کبھی نگاہ اٹھا کر وہ اپنے بچوں کی جانب بھی دیکھ لیتی ہے۔ اور پھر فون کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔

کیا خوبصورت اور زندگی سے بھرپور زندہ لوگوں کے یہ مناظر ہوتے ہیں۔ دل کو ایک عجیب خوشی اور راحت دیتے ہیں۔

مگر اس وقت منظر کچھ یوں ہے کہ گھپ اندھیری رات میں چند جلتی روشنیوں میں رم جھم بارش برس رہی ہے۔ بارش کا شور بخوبی سنا جا سکتا ہے۔ سکوت سے بھرپور برکتوں بھری اس رات میں بھی خوف اور دہشت کی فضا بدستور جاری ہے۔

منظر یک لخت بدلتا ہے۔ ایسے میں رم جھم برستی بارش کے شور اور اس کے پس منظر میں کہیں دور سے کسی ایمبولینس کے سائرن کی آواز سنائی دیتی ہے۔ جو لمحہ بہ لمحہ قریب سے قریب تر آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

رات کے اس سناٹے میں خوف اور دہشت سے ایک جھرجھری سے آتی ہے۔ میں کھڑکی بند کرتا ہوں۔ اور دعاؤں کے لیے اللہ کی بارگاہ میں جھک جاتا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ ہمیں باہر کے کرونا سے زیادہ اپنے اندر کی لغزشوں کے ”کرونا“ کو مار کر باہر بھگانے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments