کورونا وائرس: ڈاکٹروں کی والدین کے خدشات اور جذبے کیا ہیں؟


ملک میں کورونا وائرس کے بڑھتے واقعات اور حکومت کی جانب سے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو حفاظتی آلات کی ناکافی سہولیات کے پیش نظر ڈاکٹروں کے والدین اور اہلخانہ کو ان کے پیشہ وارانہ امور کو ا نجام دیتے ہوئے ایک خوف اور تشویش کا سامنا رہتا ہے۔

مگر کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ایسے والدین بھی ہیں جو اپنے ڈاکٹر بیٹوں اور بیٹیوں کو اس حوصلے اور جذبے سے روزانہ ہسپتال بھیجتے ہیں کہ ان کے نزدیک انسانیت کی خدمت سب سے عظیم کام ہے اور یہ جذبہ ان کے خدشات اور تشویش پر ہمیشہ غالب رہتا ہے۔

‘ہمیں تشویش اور خدشات ہوتے ہیں جب بچیاں ہسپتال ڈیوٹی کے لیے جاتی ہیں لیکن اس وقت یہ سب خدشات ختم ہو جاتے ہیں جب یہ خیال آتا ہے کہ اللہ نے ان بچیوں کو اس عظیم کام کے لیے منتخب کیا ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔‘

یہ الفاظ ہیں پروفیسر فخرالاسلام کے جن کی دو ڈاکٹر بیٹیاں پشاور کے ہسپتالوں میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

ان کی ایک ایسی ہی تصویر پاکستان کے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’یہ پشاور کے پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام صاحب ہیں۔

ہر صبح اپنی دو ڈاکٹر بیٹیوں کو ایک مشکل محاذ پر روانہ کرتے ہیں۔ان کی تشویش کااندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں مگر ان کا کہنا ہے اس تشویش پراللہ کا شکر غالب آ جاتا ہے کہ اس ذات پاک نے میری بیٹیوں کو خلق خدا کی خدمت کے لیے منتخب کیا۔‘

بی بی سی

کورونا وائرس کے نئےمریض چین سے زیادہ دوسرے ممالک میں

پاکستان میں کورونا وائرس کے دو کیسز کی تصدیق

کورونا وائرس کے علاج میں ابتدائی کامیابی

کیا آپ کورونا وائرس کو یو وی لائٹ کے ذریعے ختم کر سکتے ہیں؟


پروفیسر فخرالاسلام کون ہیں؟

پروفیسر فخر الاسلام پشاور یونیورسٹی میں ایریا سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر ہیں اور ان کی اہلیہ ایک نجی تعلمی ادارے میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

ان کی دو بیٹیاں ڈاکٹر ثمرہ اور ڈاکٹر ماہ نور پشاور کے ہسپتالوں خیبر ٹیچنگ ہسپتال اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں تعینات ہیں۔ ان کے دو بیٹے ہیں جو ابھی زیر تعلیم ہیں۔

تشویش اور خدشات کے باوجود پر امید

کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں اس وقت ملک کے ڈاکٹرز طبی عملہ فرنٹ لائن پر موجود ہے اور ملک میں چند ڈاکٹرز اور طبی عملے کے ارکان اس وائرس سے متاثر بھی ہوئے ہیں۔ ایسے میں خیبر پختونخوا میں اپنی بچیوں کو ہسپتال بھیجنا کسی سپاہی کو جنگ کے محاذ پر بھیجنے سے کم نہیں ہے۔

پروفیسر فخر الاسلام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب بچیوں کو ہسپتال جانے کے لیے رخصت کرتے ہیں تو ایک ماں اور باپ کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور اس وقت پریشانی ضرور ہوتی ہے لیکن اس پریشانی پر اللہ کا شکر غالب آجاتا ہے۔‘

ڈاکٹر

انھوں نے کہا کہ ’جب بٹیاں رات کی ڈیوٹی کرتیں ہیں تو بے چینی رہتی ہے لیکن جب وہ ڈیوٹی سے واپس آ جاتی ہیں تو گھر میں رونق لگ جاتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ گھر میں بھی وہ کورونا کے لیے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کرتے ہیں لیکن اپنی بٹیوں کے ساتھ وہ خوب گپ شپ اور مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔

گھبرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

کرونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے لوگوں کو تلقین کی جا رہی ہے کہ کہ وہ گھروں میں رہیں اور ایسے حالات میں اپنی اولاد کو ہسپتال بھیجنا جہاں زیادہ وائرس کا زیادہ خطرہ ہو مشکل ضرور ہے لیکن پروفیسر فخر الاسلام اس سے گھبراتے نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں کورونا کے باعث ہنگامی صورتحال اور نامصائب حالات کے پیش نظر مشکلات ضرور ہیں جیسا کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو حفاظتی کٹس اور وسائل پوری طرح دستیاب نہیں ہیں لیکن یہ ایک جنگ کی سی صورتحال ہے اور اس میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہے اور ایسے حالات میں زندہ رہنا اور جدوجہد کرنا زندہ قوموں کی نشانیاں ہیں۔

ڈاکٹر بیٹیوں کا کیا کہنا ہے؟

پروفیسر فخر الاسلام کی بڑی بیٹی ڈاکٹر ماہ نور فخر حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں تعینات ہیں اور ہسپتال کے دیگر وارڈز میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

ابھی تک ان کی ڈیوٹی کورونا کے لیے مختص کیے گئے وارڈز یا کورونا آئسولیشن وارڈز میں نہیں لگائی گئی تاہم ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر بنتے وقت وقت انھوں نے یہ حلف لیا تھا کہ وہ کسی وبا یا مشکل سے نہیں گھبرائیں گی اور وہ بغیر کسی تفریق کے ہر انسان کی خدمت کریں گی۔

انھوں نے کہا کہ مشکلات ضرور پیش آتی ہیں لیکن یہ پیشہ خواتین کے لیے بہت اچھا ہے۔

جبکہ پروفیسر فخر الاسلام کی چھوٹی بیٹی ڈاکٹر ماہ نور سے پوچھا کہ اب جب کورونا کی وبا ملک میں پنجے گاڑے بیٹھی ہے تو کیا کبھی انھیں ایسا لگا کے انھوں نے یہ شعبہ اختیار کر کے غلطی کی؟

ان کا جواب میں کہنا تھا کہ کبھی نہیں بلکہ وہ اپنے اس شعبے پر فخر کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈیوٹی پر جاتے وقت انھیں والدین کی اور والدین کو ان کی فکر ضرور ہوتی ہے لیکن انسانیت کی خاطر وہ اس خدمت پر معمور ہیں اور یہی سب سے بڑا کام ہے۔

ڈاکٹر ثمرہ فخر کہتی ہیں کہ انھوں نے کورونا کے مریضوں کی سکریننگ پر ڈیوٹی کی ہے اور اس شعبے میں کام کرنا مشکل ضرور ہے اور سہولتوں کی کمی بھی ہے لیکن مجموعی طور پر وہ مطمئن ہیں اور بڑے فخر سے یہ کام کرتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انسانیت کی خدمت کا جذبہ انھیں اپنے والدین سے ورثے میں ملا ہے اور وہ خوشی سے یہ ڈیوٹی سر انجام دیتی ہیں۔

ڈاکٹروں کی کمی

صوبہ خیبر پختونخوا میں ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی کمی کا سامنا ہے اور گزشتہ کچھ عرصے کے دوران صوبے میں ڈاکٹروں کی تنظیموں کی جانب سے مظاہرے بھی کیے گئے تھے جس میں ڈاکٹروں کی خالی نشستوں پر تعیناتی کا مطالبہ سر فہرست تھا۔

اس وقت ڈاکٹروں کی صوبائی ایسوسی ایشن کے مطابق صوبے میں ایک ہزار تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی مستقل تعیناتی باقی ہے جبکہ 1500 ڈاکٹرز ایسے ہیں جنھوں نے اپنی تعلیم مکمل کر لی ہے اور اب انھیں ہاؤس جاب کے لیے تعینات کرنا باقی ہے۔

گذشتہ ماہ صوبائی حکومت نے لگ بھگ 1300 ڈاکٹروں کی تعیناتی کا فیصلہ کیا تھا اور یہ تعیناتی کنٹریکٹ پر صرف چھ ماہ کے لیے کی گئی ہے۔

پراونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان ڈاکٹر سلیم خان نے کہا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ یہ تعیناتیاں مستقل بنیادوں پر کریں تاکہ صوبے میں ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی کمی کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔

لوکم سکیم کا اعلان

https://twitter.com/Jhagra/status/1247761765917573123

خیبر پختونخوا حکومت نے ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی کمی کی وجہ سے ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی تعیناتی کے لیے لوکم سکیم کا اعلان کر دیا ہے۔

اس سکیم کے تحت بڑی تعداد میں طبی عملے کی تعیناتی کی جائے گی اور اس کے لیے اشتہارات بھی اخبارات میں جاری کر دیے گئے ہیں۔

لوکم سکیم بنیادی طور پر ایمرجنسی یا وبا کے دوران ڈاکٹروں کی کسی کی جگہ ڈیوٹی دینے یا ایمرجنسی میں کچھ وقت کے لیے ڈاکٹروں یا طبی عملے کی تعیناتی کی سکیم کو لوکم سکیم کہتے ہیں اور اس کے لیے متعدد آسامیوں کا اعلان کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp