کوئٹہ کے مسیحا اور ایوان اقتدار کی قربان گاہیں


ہم تو خیر پردیس میں ہیں اور دیس کی خیر مناتے ہیں۔ کورونا کی آفت نے دیس بدیس کی تفریق مٹا ڈالی ہے۔ دو بیٹیاں نیو یارک میں ہیں اور نیویارک میں کورونا نے آندھ اٹھا رکھی ہے۔ یہاں اومان اور خلیج کے دوسرے ممالک میں وبا کی شدت اگرچہ نسبتاً کم ہے لیکن معمولات زندگی معطل ہیں۔ یہ اور قصہ ہے کہ میڈیکل کے شعبے سے وابستہ افراد کے لئے لاک ڈاؤن کی سہولت میسر نہیں ہے بلکہ ہنگامی حالات ہیں۔ ذمہ داری تو بڑھ گئی ہے، معلوم خطرے اور ان دیکھے خدشات کا دھڑکا الگ ہے۔ خیر گزری کہ یہاں وسائل اور سہولیات کی کمیابی کا شکوہ نہیں۔ ہسپتال کے دروازے سے آپریشن تھیٹر تک ہر ممکن احتیاط کی جارہی ہے۔ طبی عملے کے لئے مکمل حفاظتی تدابیر کے بغیر کام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ایسے میں دیس سے خبر آئی کہ کوئٹہ میں کورونا کے محاذ پر داد شجاعت دینے والے ڈاکٹرز اور متعلقہ طبی عملے نے حفاظتی ساز و سامان کا مطالبہ کیا تو ان پر پولیس ٹوٹ پڑی۔ ڈنڈے برسائے گئے، آنسو گیس پھینکی گئی۔ گریبان پھٹ گئے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ایسے نازک حالات میں انسانی جان بچانے والوں کی قدر و قیمت کا بھرم چاک ہو گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان ابھی قرون وسطیٰ کی سماجی اقدار سے جھونجھ رہا ہے۔ ہم نے سترہ برس پاکستان میں طبی خدمات سرانجام دیں، سو درون خانہ حالات کے محرم ہیں۔ آج ایسے ہی کچھ تجربات بیان کرنا ہیں لیکن ایک نظر جوش ملیح آبادی کی خود نوشت “یادوں کی بارات” پر ڈال لیں۔ ہمارے پاس 1975 کا ایڈیشن ہے اور صفحہ 394 پر راجہ صاحب نان پارہ اور ابرار حسن خان ملیح آبادی کا ذکر چل رہا ہے۔ جوش صاحب لکھتے ہیں،

” اس کے بعد بوتل کھلی۔ سب سے پہلے، حسب دستور، مہتمم شراب کو ایک پیگ پلایا۔ دس پندرہ منٹ کے بعد جب اس امر کی تصدیق ہو گئی کہ شراب میں کسی دشمن نے زہر نہیں ملوا دیا ہے، ہم لوگوں کے جام بھر دیے گئے۔ “

نوجوانی میں ہم نے جب یہ احوال پڑھا تو خیال آیا کہ کیسی باصفا نسل تھی کہ اپنی جان کے تحفظ کے لئے ایک جیتے جاگتے انسان کو ہر روز موت کے دروازے سے گزارا جاتا تھا۔ تب ہمیں معلوم نہیں تھا کہ زمانہ ابھی تبدیل نہیں ہوا۔ آج بھی حکمرانوں کو زہر خورانی سے بچانے کے لئے یہی آزمودہ نسخہ رائج ہے۔ فرق صرف یہ پڑا ہے کہ اب مہتمم شراب کی بجائے سرکاری ڈاکٹروں کو اس آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور یہ تو ہمارے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خود ہمیں بارہا کسی حاکم کی جان محفوظ رکھنے کے صدقے اپنی گردن نذر کرنا پڑے گی۔ تفصیل سنائے دیتے ہیں۔ پہلے ہماری اماں کی آواز سنیے۔ ٹھیک 25 برس پہلے کا ذکر ہے۔ بہت قریب سے آئی ہے دور کی آواز۔۔۔

“خدا کا قہر نازل ہو ان موئے حکمرانوں پر! کیا ہمارے بچے ہی رہ گئے تھے ان کی جان کا صدقہ۔ غضب خدا کا، نہ کبھی ایسا سنا، نہ دیکھا۔ کیا اس دن کے لئے پال پوس کے بڑا کیا تھا کہ زندگی کا مول جانوروں جیسا ہو”

اماں کا غصہ عروج پہ تھا۔ وہ بے تحاشا مغلظات وقت کے حکمرانوں کو سنا رہی تھیں،

” اماں، پلیز آپ کا بلڈ پریشر بڑھ جائے گا. کیوں فکر کرتی ہیں آپ؟ کچھ نہیں ہو گا انشاءاللہ “

” ارے ایسے کیسے کہہ دیا تم نے؟ کہہ رہی ہوں میں، تم نہیں جاؤ گی”

” مگر اماں، یہ سرکاری نوکری ہے، ہم انکار نہیں کر سکتے” ہم منمنائے۔

” بھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان! کہہ دیا تم یہ کام نہیں کرو گی”

لمبی سی میز اور اس پہ سجی انواع و اقسام کی اشیائے خوردونوش سے اٹھتی اشتہا انگیز مہک قوت شامہ کو متاثر کرتے ہوئے دل میں چھپے ہوئے خوف کو بھلانے پہ مجبور کرتی تھی۔ ہمیں خوف چھوڑ، ایک دوسری فکر لاحق ہوئے جاتی تھی کہ بسیار خوری مزاج میں نہیں تھی سو معدہ یہ سب سہارے گا کیسے؟

” ہم یہ ان گنت کھانے کس طرح چکھیں گے؟”

ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہوئے بڑبڑاتے تھے اور ہاتھ میں پکڑی فہرست کو بے بسی سے دیکھتے تھے جو ہمارے دستخط کی منتظر تھی۔

یہ 1995 تھا!

قصہ کچھ یوں ہے کہ خانہ بدوش کا تبادلہ سول ہسپتال مری میں میڈیکل آفیسر کے طور پہ ہو چکا تھا۔ صاحب پنڈی میں تعینات تھے اور محکمہ صحت نے پنڈی پوسٹنگ کے لئے ہماری ہر درخواست مسترد کر دی تھی۔ حکم حاکم مرگ مفاجات کے تحت ہم اپنی چھوٹی سی بچی کے ہمراہ اکیلے مری جا پہنچے تھے۔ ہمیں ہسپتال کے قریب ہی ایک مکان الاٹ کر دیا گیا تھا۔

ابھی ہم معمولات کو سمجھ ہی رہے تھے کہ ہسپتال سپرنڈینٹ نے بلوا بھیجا۔

” محترمہ وزیراعظم بے نظیربھٹو تشریف لا رہی ہیں سو آپ کو خوش آمدید کہنے کے لئے ہیلی پیڈ پہ جانا ہو گا۔ آپ کے ہمراہ اسسٹنٹ کمشنر مری اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوں گے۔ وہاں سے آپ ایمبولینس میں گورنر ہاوس تک جائیں گی اور وہاں آپ کو تھوڑی دیر رکنا ہو گا”

“وہاں کیوں رکنا ہو گا، سر” ہم نے پوچھا۔

“وہ کچھ کھانے وانے کا چکر ہوتا ہے، آپ کو پروٹوکول آفیسر سمجھا دے گا”

“سر، آپ کو علم ہے کہ میں اپنی دو سالہ بچی کے ساتھ اکیلی رہتی ہوں، بہت زیادہ وقت کے لئے تو نہیں جا سکوں گی”

“ڈاکٹر طاہرہ، یہ آپ کی ڈیوٹی کا حصہ ہے” حکم صادر ہوا۔

سپرنٹڈنٹ اور باقی ڈاکٹر شاید یہ بیگار کاٹتے کاٹتے تھک چکے تھے سو وہ ہسپتال کی نئی نویلی اکلوتی لیڈی ڈاکٹر کو بھیجنے میں قطعی متامل نہ تھے۔

باقی سب تو ہمیں سمجھ آ چکا تھا لیکن یہ کھانے کا کیا مسئلہ ہے؟ یہ گتھی سلجھانی ضروری تھی۔ ادھر ادھر سے جو معلومات ملیں اس نے ہمارے ہوش اڑا دیے اور ہمیں یوں لگا کہ اب تک ہم سرکار کے نوکر تو تھے ہی لیکن سرکار کے نزدیک ہماری اہمیت کسی بلی کتے کی سی ہے (تمام بلیوں اور کتوں سے معذرت)، یہ علم نہیں تھا۔

ہم نے گھبرا کے اماں کو فون کیا تھا۔ شام تک اماں ہم تک پہنچ چکی تھیں اور منہ بھر بھر کے صلواتیں سنا رہی تھیں۔

ہم جانتے تھے، کچھ نہیں ہو سکتا، ہمیں جانا ہی تھا۔

اگلی صبح ہمیں امام ضامن باندھا گیا۔ اماں نے بھیگی آنکھوں سے بلائیں لیں، رخصت کیا اور تسبیح پکڑ کر مصلے پہ بیٹھ گئیں۔

محترمہ کو خوش آمدید کہا گیا، وہ ہیلی کاپٹر سے اترنے کے بعد کار میں تشریف فرما ہوئیں۔ ہم ایمبولنس میں بیٹھے اور ان کے پیچھے پیچھے گورنر ہاؤس پہنچے۔

اب ہم گورنر ہاوس مری کے ڈائننگ روم سے ملحقہ کمرے میں موجود تھے۔ گرم گرم کھانوں سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ لذت کی مہک ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور ہمارے ہاتھ میں ان تمام کھانوں کی فہرست تھی جو ہمیں چکھنا تھے۔

ہم ہر قاب کا ڈھکن اٹھاتے، اس میں سے ایک چمچ کا چوتھائی حصہ پلیٹ میں ڈالتے، پھر کھاتے اور فہرست پہ نشان لگاتے۔ جب تک سب کھانوں کو چکھ کے فارغ ہوئے، ہمیں ابکائیاں آ رہی تھیں۔ دل یہ چاہ رہا تھا کہ یہیں یہ سب الٹ دیں۔ گھر آ کے اگلے کچھ دنوں کے لئے بھوک مر سی گئی۔ شاید انہی دنوں کا تحفہ ہے کہ کھانے سے رغبت ہمیشہ کے لئےختم ہو گئی۔

بخدا ہمیں قطعی اندازہ نہیں کہ سرکاری مشینری کے کس دور اندیش کارندے نے یہ ترکیب ایجاد کی کہ ریاست کے اعلیٰ عہدے دار جب کہیں دورے پہ جائیں اور ان کے کھانے میں زہر خورانی کا خدشہ موجود ہو تو اس کھانے کو پہلے ایک ڈاکٹر کھائے۔ اگر وہ ڈاکٹر خوش نصیب نکلے اور زندہ بچ جائے تو جملہ فہرست پہ دستخط کر دے، یہ کہتے ہوئے کہ حضور والا! ہم نے اپنی جان کو رہن رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ٹیسٹنگ لیبارٹری سمجھتے ہوئے آپ کی جان بچائی۔ آپ پہ ہمارے والدین بھی قربان ہوں، اب یہ کھانا نوش فرمائیے، آپ اللہ کے فضل سے محفوظ ہیں۔

ریاست کو چلانے کے انتہائی فرسودہ ترین طریقوں میں سے یہ ایک تھا جس کے نہ صرف ہم عینی شاہد ہوئے بلکہ اس ڈرامے کے ایک اہم کرداربھی بنے۔ کئی سوالوں نے بھی جنم لیا؟

 ” آخر کون ان معاملات کا ذمہ دار ہے؟ کیا بنیادی شعور کی اس قدر کمی ہے کہ زہر خورانی کے خطرے کو اس طرح نبٹا جا رہا ہے؟ کیا ڈاکٹر کے ایک لقمہ چکھ لینے اور دستخط کرنے سے خطرہ ٹل جاتا ہے؟ اگر کبھی دستخط کرنے کے بعد کچھ ناگہانی ہو جائے تو ڈاکٹر کا انجام کیا ہو گا؟ کیا یہ ان بے شمار کاغذی کارروائیوں میں سے ایک تھی جس پہ ہماری ریاست پچھلے ستر برس سے چل رہی ہے؟ “

سول ہسپتال مری میں ایک سال کام کرنے کے دوران ہم نے یہ بیگار ان گنت بے تحاشا مرتبہ کاٹی۔ کبھی ہم صدر فاروق لغاری کے حضور پیش ہوتے تو کبھی گورنر پنجاب آن دھمکتے۔ کبھی کبھی بلاول بھٹو زرداری اور بختاور کی پرل کانٹینینٹل بھوربن میں رکھوالی کرنی پڑ جاتی جہاں وہ اپنی فلپائنی گورنس کے ہمراہ اسلام آباد سے سوئمنگ کرنے آتے۔

وہ دن کیسے بھولیں جب اپنی میٹھے کی کمزوری کے ہاتھوں چکھنے کی حد فراموش کر کے ہم بے نظیربھٹو کا پسندیدہ پین کیک، شہد انڈیل کے نوش جاں کر رہے تھے۔ ساتھ میں اونچی آواز سے باورچی سے ترکیب پوچھنے کی کوشش بھی جاری تھی کہ یہ کیک بے نظیر کی دی ہوئی ریسپی سے بنایا گیا تھا۔ باورچی جو لہک لہک کے ہمیں ترکیب سمجھانے میں مصروف تھا، یک لخت خاموش ہوا تو ہم چونکے۔ دیکھا تو ہمارے سر پہ بے نظیربھٹو کھڑی تھیں۔ ہمارے سلام کا سر کے اشارے سے جواب دے کے، مینیو کے بارے میں کچھ پوچھ کے وہ واپس چلی گئیں تھیں۔ ہمیں ایک خوشگوار حیرت نے گھیر لیا تھا۔

ہم تو اس شغل کے عادی بھی ہوئے اور مزے بھی لئے لیکن ہماری اماں کے سجدے اس ایک برس میں کتنے طویل ہوئے، کتنے امام ضامن باندھے گئے، ہماری واپسی پہ کچھ گھنٹوں تک کیسے ہماری رکھوالی کی جاتی، یہ ایک علیحدہ داستان ہے۔

اب نہ اماں رہیں، نہ بے نظیربھٹو!

بس کچھ یادیں باقی ہیں زندگی کے اس سفر کی، جو کہانی کہنے کی آرزو میں امڈی چلی آتی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments