دشت کا بہشت کا ، ازل سے ایک منظر ہے فقط آنکھیں بدلتی ہیں


 عادت ہے کہ تصویر یا ویڈیو میں کسی بھی  منظر کو دیکھنے کے بعد اس کا تجزیہ کرنے بیٹھ جاتا ہوں۔تصویر اور منظر کے ان حصوں پربھی غور کرتا ہوں جو ہائی لائٹ نہیں یا غیر اہم ہیں۔ پرانی عادت ہے ۔  وبا کے محاصرے کے دنوں میں بڑی کام آرہی ہے۔ مثلا میرے سامنے کسی شخص کی تصویر ہو تو تصویر دیکھنے کے بعد دیکھتا ہوں کہ اس کے قدموں کے نیچے فرش کس طرح کا ہے۔ پیچھے کیلنڈر پر تصویر کیا ہے۔ گھڑی میں کیا بج رہا ہے۔ کپڑوں میں استری کہاں خراب ہوئی پڑی ہے۔ مونچھوں کے کترنے میں کہاں ہاتھ ہل گیا ہے۔ چہرے پر مسکراہٹ کتنی بناوٹی ہے۔

کوئی ویڈیو دیکھوں تو بھی یہی کچھ ہوتا رہتا ہے۔ احمد فراز کوسنتے ہوئے جو لوگ واہ واہ کررہے ہیں کون سمجھ رہا ہے اور کون ہے جو بے سمجھے داد دیے جارہا ہے۔ جگجیت کے کس مصرع پر سامنے بیٹھی شخصیت کی آنکھوں میں انسو تیرنے لگے تھے۔ راحت فتح علی کو سنتے ہوئے پیچھے آنکھوں میں موٹا سرما لگائے خاتون سپاٹ لہجہ کیوں لیے بیٹھی ہے۔ اس کے جذبات کو کوئی مصرع کوئی آہنگ اپیل کیوں نہیں کرتا۔

یہ سامنے کی لائن میں چیونگم چباکر چباکر جو شخص ادھر ادھر دیکھ رہا ہے وہ پیچھے کیوں جا کر نہیں بیٹھ جاتا۔ اسے نہیں معلوم میرا ری ایکشن سامنے والے پر کیا اثر کررہا ہے؟ دوسری لائن میں بائیں جانب یہ خوش پوش خوش شکل نوجوان کتنے غور سے سن رہاہے۔ لیرکس ساتھ دہراتے ہوئے اس کی آنکھیں کیسے نیم بند ہوجاتی ہیں۔ سر کو بائیں سے دائیں  پھر دائیں سے بائیں جس جھٹکے سے وہ حرکت دے رہاہے تو انہماک اور جذب کے کسی اور کیفیت میں لگتاہے۔ لگتا ہے وہ گیت سمجھ نہیں رہا آنکھوں سے پی رہا ہے۔

جشن ریختہ کا مشاعرہ میرے سامنے ہے۔ امجد اسلام امجد  نئی نسل کے لیے لکھی گئی  اپنی نظم سنارہے ہیں۔

میرے بیٹے نے آنکھیں اک نئی دنیا میں کھولی ہیں

اسے وہ خواب کیسے دوں

جنہیں تعبیر کرنے میں میری یہ عمر گذری ہے

میری تعظیم کی خاطر وہ ان کو لے تو لے شاید

مگر جو زندگی اس کو ملی ہے اس کے دامن میں

ہمارے عہد کی قدریں تو کیا یادیں بھی کم کم ہیں

انوکھے پھول ہیں اس کے

نرالے اس کے موسم ہیں

خود اپنی ذات کی مستی میں بہنا چاہتا ہے وہ

نئی دنیا نئے منظر میں رہنا چاہتا ہے وہ

سمجھ میں کچھ نہیں آتا اسے کیسے بتاوں میں

ازل سے آج تک جتنے محبت کرنے والے ہیں

سبھی کی اک کہانی ہے

نئی لگتی تو ہے لیکن حقیقت میں پرانی ہے

اسے کیسے بتاوں میں کہ میری باپ کی باتیں

مجھے بھی ایسے وقت کا احوال لگتی تھیں

جو اک بوڑھا فسانہ تھا

میں اس کی جیب کے متروک سکوں کوکہاں رکھتا

کہ یہ میرا زمانہ تھا

نئے بازار تھے میرے کرنسی اور تھی میری

وہ بستی اور تھی میری

مگر پھر یہ کھلا مجھ پر

نیا کچھ بھی نہیں شاید

ازل سے ایک منظر ہے فقط آنکھیں بدلتی ہیں

میری نظروں کا دھوکہ تھا کہ یہ چیزیں بدلتی ہیں

اسے کیسے بتاوں میں کہ یہ عرفان کا لمحہ

ابھی اس تک نہیں پہنچا

مگر جس وقت پہنچے گا اسے بھی اپنے بیٹے کو

یہی قصہ سنانے میں یہی دشواریاں ہوں گی

کہ وہ بھی تو کچھ اپنی بات کہنا چاہتا ہوگا

نئی دنیا نئے منظر میں رہنا چاہتا ہوگا

اور اپنی ذات کی مستی میں بہنا چاہتا ہوگا

میں  نظم سن رہا ہوں اور منظر کو دیکھ رہا ہوں ۔ کیمرہ گھومتا ہے سامنے سامعین کی بڑی تعداد بیٹھی ہے۔ میں حسب عادت چہروں کو پڑھ رہاہوں۔ ویسا ہی منظرہےجس طرح مشاعروں میں ہوتا ہے۔ کوئی داد دے رہا ہے۔ کسی کے چہرے پر دھیمی معنی خیز مسکراہٹ ہے۔  کوئی بزرگ ماضی میں کھویا ہے۔ کوئی بے نیازی سے موبائل پر انگلیاں چلا رہا ہے۔

کوئی سننے سے زیادہ ویڈیو بنانے میں دلچسپی لے رہا ہے۔ کسی کو سیلفی یا د پڑی ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو غور سے سن رہے، موقع پر داد دے رہے ہیں۔مگر ان سب میں ایک چیز الگ اور نئی نظر آئی۔ نظریں اس پر جم گئیں۔ ہر بار جب کیمرہ گھوم کر آتا ہے میری نظریں اس نوجوان جوڑے پر آکر رک جاتی ہیں۔شکل اور لباس کی ایک عام سی  لڑکی کاغذ قلم ہاتھ میں لیے بہت انہماک سے سن رہی ہے۔  اشعار نوٹ کرتی جارہی ہے۔ آس پاس کے شور سے بے نیاز اس کی ساری توجہ لفظوں کو  گرنے سے بچانے پر لگی ہوئی ہے۔ شب کی تاریکی میں جیسے جگنووں کو آنچل میں قید کررہی ہو۔ جیسے لفظوں  کے جھرنے کے گرد حصار باندھنے کی کوشش کررہی ہو۔

بخدا سفر زندگی میں نوجوانی کا یہ پڑاؤ کتنا خواب آگیں ہوتا ہے۔ یہ کسی ٹریلر کی طرح بہت جلد منظر بدلتا گذرتا ہے۔ ہماری عمر کے جو لوگ عشرہ ڈیڑھ پہلے اس دور سے گذرے ہیں انہیں یہ سب کسی خواب کی طرح یاد آتے ہیں۔  اشعار جمع کرکر کے ساتھ محفوظ کرنے کی یہ لاحاصل مشق ہم نے بھی برسوں کی۔ راہ گذرتے کسی اخبار کا شعری صفحہ نظر آیا تو مقدس اوراق کی طرح اٹھاکر صاف کیا۔ ساتھ لیا اور اس وقت تک اس کی حفاظت کرتے رہے جب تک اس میں سے اپنا انتخاب ڈائری میں محفوظ نہیں کیا۔

اچھا شعر کہیں پر بھی ، کسی سے بھی سنا وہیں لکھ کر محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ جہاں کاغذ قلم میسر نہ ہوتے باربار دہراکر یاد کرلیتے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بہت سے اشعار اب بھی یاد ہیں۔ مدرسے میں درس کے دوران کسی استاد نےموقع کی مناسبت سے کوئی شعر پڑھا تو فورا سامنے ٹیبل پر رکھی کاپی میں لکھ لیتا۔

ایسی رف کاپیاں میرے پاس اب بھی محفوظ ہیں اور ان کے مختلف صفحات پر ، کونوں کھدروں میں ایسے بہت سے اشعار درج ہیں۔ بہت سے اشعار کے ساتھ اساتذہ کے نام، تاریخ ، وقت اور موقع بھی لکھا موجود ہے۔ اشعار کی ڈائری کا پیٹ بھرنے کی ہر وقت کوشش ہوتی۔

کلیات ناصر کاظمی ایک دوست سے ایک رات کے لیے پڑھنے کو ملی۔ رات کے آخری پہر تک جاگتا رہا اور  اس میں سے اپنے منتخب اشعار ڈائری میں لکھتا رہا۔  حبیب جالب، میر تقی میر، غالب بہت سے شعراء کو اسی طرح سے ڈائری میں سمیٹنے کی کوشش کی۔ شاعروں میں سب سے پہلے جو کتاب پڑھی اور خوب پڑھی وہ فیض کی “دست صبا” تھی۔ اس کی پوری نظمیں اور غزلیں یاد کیں۔ اپنی ڈائریاں آج بھی میرے پاس موجود ہیں۔ نظر سے گذرتی ہیں تو اجڑی دلی کی کوئی بستی یا کسی پرشکوہ بادشاہ کا مزار لگتی ہیں۔  میر تقی میر نے کہا :اب جس جگہ کے داغ ہے یاں کل کو درد تھا۔

امجد صاحب کی نظم سن رہا ہوں اور اپنی ڈائریاں یاد آرہی ہیں۔ لگتا ہے ساری دنیا ایک جیسی زندگی جیتی ہے۔ عمر کے ساتھ زندگی کی وارداتیں بدلتی جاتی ہیں مگر سارے قافلے انہیں منزلوں سے ہوکر گذرتے ہیں۔ 2015 کے مشاعرے میں لکھی یہ نظمیں 2030 میں شاید انہیں بھی بچپن کا کھیل یا محض کسی عمر کا  مشغلہ لگیں ، جسے آج وہ پورے ذوق وشوق سے  لکھتے جارہے ہیں۔ لیکن  تب کوئی  اور ہوگا جو اس دشت سے گذررہا ہوگا۔ کیوں کہ : ازل سے ایک منظر ہے فقط آنکھیں بدلتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments