اک ”حِجر“ جو ہم کو لاحق ہے


احباب کو گلہ رہتا ہے کہ یہ خادم اردو املا میں جزوی طور پر شکیل عادل زادہ صاحب اور برادرم ظفر عمران کے رنگ میں رنگتا جا رہا ہے۔ سو چونکیے مت۔ عنوان اطہر نفیس مرحوم کے مشہور مصرع میں سہوِ کتابت کا غماز نہیں ہے بلکہ ہماری عربی دانی اور ہیچ مدانی کے تازہ ترین پڑاؤ کا عکاس ہے۔

دیگر دنیا کے مانند سوریہ بھی کرونا کی وبا کی روک تھام کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے اثرات جھیل رہا ہے۔ اب تک یہاں سرکاری طور پر انیس افراد میں مرض کی تصدیق ہوئی ہے جن میں سے چار صحت یاب ہو چکے ہیں اور دو وفات پا گئے ہیں، لیکن جنگ کی افراتفری کے سبب پھیلاؤ کا درست اندازہ کسی کو نہیں ہے اور حکومتی عمل داری سے باہر کے علاقوں کی صورت حال تو مکمل طور پر پردہ اخفاء میں ہے۔ کھانے پینے، کریانہ اور اور ادویات کی دکانوں کے سوا تمام کاروبار اور سب تعلیمی ادارے، تھیٹر، سنیما، عوامی پارک، عبادت گاہیں تو پہلے ہی بند کر دیے گئے تھے۔ دو ہفتے سے ملک بھر میں شام چھے سے صبح چھے تک اور جمعہ اور سنیچر کو دوپہر بارہ سے اگلے روز صبح چھے بجے تک کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

اس خادم سمیت تمام غیر ملکی اہل کاران ابتدا سے ہی سرکار کی جانب سے مقرر کردہ ایک پنج ستارہ ہوٹل میں رہنے پر مجبور تھے، لیکن وبا سے پہلے کھانے کے لیے باہر کے ریستورانوں کا رُخ کیا کرتے تھے۔ شروع کے کچھ دن تو کھانا باہر سے لاتے رہے لیکن اب اس چھے بجے شام کی بندش کے سبب وہ سہارا بھی تقریباً اٹھ گیا۔ سو کچھ ہم کار بازار سے بجلی کے چولہے، دیگچیاں، مسالے وغیرہ لے آئے ہیں اور کمروں میں فن طباخی کی داد دیتے ہیں۔

عام حالات میں تو ہوٹل میں اس عمل کی ممانعت ہے لیکن ان خصوصی حالات کے تحت یہ لوگ بھی اس جانب سے فی الحال غصِ بصر پر کاربند ہیں۔ ہماری پاکستانی ہم کار بی بی حرا ہاشمی کا حال ہی میں یہاں تقرر ہوا تھا اور ان کے آتے ہی صورت حال دگر گوں ہو گئی۔ انہوں نے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے کچھ بندوبست کر لیا تھا، سو یہ خادم ان کے ساتھ مل جل کر پیٹ پوجا کا کچھ بندوبست کر ہی لیتا ہے۔

جیسا کہ گزشتہ مراسلے میں عرض کیا تھا، اس خادم کے کمرے کی واحد کھڑکی جانب مشرق ایک دیدہ زیب عوامی پارک پر کُھلتی ہے۔ دفتر بند کرکے ہم کاروں کو گھر سے ہی کام کرنے کی ہدایت کے نتیجے میں اس خادم کا ربط دن اور رات کے اکثر اوقات میں اسی شاہجہانی روزن کی راہ سے باہر کی دنیا سے ہوتا ہے۔ کرفیو کھلنے کے اوقات میں بھی پارک کو چاروں جانب پلاسٹک کا فیتہ لگا کر عوام کے لیے بند کردیا جاتا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ اس کی گھاس کو بلدیہ کے اہل کاران جھاڑ جھنکاڑ نہیں بنتے اور سبزہ و شجر کی تراش خراش باقاعدہ جاری رہتی ہے لیکن ویرانی کے سبب اہلِ دمشق کی زندگی اور عشق پیشگی کے نظاروں کی گہما گہمی مفقود ہو گئی ہے۔

دن کے اوقات میں کبھی کبھی راشن لینے اور کبھی سرکاری دفاتر میں اجلاسوں کے لیے جانا ہوتا ہے۔ اکثر جگہ، مثلاً سرکاری تنوروں پر لوگوں کو مناسب فاصلے سے قطار بناتے دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے۔ دوسری جانب جب ہزاروں لوگوں کا خیال آتا ہے جو کاروبار، مزدوری اور ملازمتوں کی بندش کے سبب بے روزگار ہو گئے ہیں، تو تشویش گھیر لیتی ہے۔ حکومت نے جنگ زدگی اور مغربی ممالک کی لگائی گئی یک طرفہ اقتصادی پابندیوں کے سبب مالی مشکلات کے پیش نظر کھانے پینے کی اشیاء، بجلی اور ایندھن پر سالوں سے جاری زرِ اعانت یعنی سبسڈی کو کم یا ختم کرنے کا عندیہ اس سال کے شروع میں دیا تھا۔ لیکن ان حالات میں اس ارادے پر نظر ثانی کرکے اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یقینا ایسے حالات میں بہت سوں کو بھوک سے بچانے میں یہ ایک اہم عامل ہے۔

عنوان میں مذکور لفظیاتی نکتے کا ذکر تو رہا ہی جاتا ہے۔ کرونا کے معاملات پر نظر رکھنے والے احباب واقف ہوں گے کہ جن لوگوں میں اس مرض کا شبہ پایا جائے انہیں قرنطینہ یا تنہائی میں رہنے کی سفارش کی جاتی ہے اور جن لوگوں کو سانس لینے میں دشواری ہو یا مرض کی دیگر علامات زور پکڑ جائیں انہیں ”آئسولیشن وارڈز“ میں داخل کیا جاتا ہے۔ یہاں وزارت صحت کے ساتھ اجلاسوں میں جدید عربی کا ایک اور پہلو آشکار ہوا۔ وہ یہ کہ قرنطینہ کے لیے مختص کی گئی عمارتوں کو ”مراکزِ حجر“ کہا جاتا ہے۔

اس پر بڑی حیرت ہوئی کہ ہمارے فہم کے مطابق تو حجر پتھر کو کہتے ہیں۔ آس پاس کوئی ایسا دوست بھی نہ ملا جو لسانیاتی اشتقاق میں دست رس ہو۔ ذرا سا اشارہ گوگل سے ملا لیکن تسلی نہیں ہوئی چنانچہ سوشل میڈیا کے راستے ممتاز عالم دین اور ماہر عربی مولانا عمار خان ناصر سے رہ نمائی چاہی تو تصدیق ہوئی کہ کلاسیکی عربی میں ”ح“ کے نیچے زیر کے ساتھ یہ لفظ ماں کی گود یا محفوظ علاقے کے معنی دیتا ہے۔

آئسولیشن وارڈ کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح اس سے بھی زیادہ دل چسپ نکلی۔ یہاں انہیں ”مراکزِ عزل“ کہتے ہیں۔ یہ لفظ اس خادم نے فقہ کی کتب میں دیکھ رکھا تھا اور وہاں یہ ”صرف بالغان کے لیے“ والے ابواب میں مذکور تھا۔ اس کے علاوہ اسلام کی تاریخ کے اولین عقلیت پسند مکتبہ فکر کے نام میں بھی اس کا پرتو تھا، لیکن ان معنوں میں اس کا استعمال پہلی بار دیکھا۔ یہ سطور لکھتے وقت اچانک ذہن میں انشا جی کا شعر گونجا تو بات مزید صاف ہو گئی۔ اس خادم کی طبیعت کا تو اس غزل سے قدیمی تعلق ہے اور وبا پھیلنے سے کہیں پہلے کا ہے، آپ بھی ان اشعار کو اپنے موجودہ حالت پر منطبق کر کے اس کا لُطف اٹھائیے۔

انشا کہو مزاج مبارک کو ان دنوں
دنیا خوش آ رہی کہ جانی اداس ہو

نبھنے لگی ہے بلدہِ خوباں کی خاک سے
یا جی کی وحشتیں ہیں پرانی اداس ہو

کل بزمِ دوستاں میں تمہارا ہی ذکر تھا
ہم نے سنی تمہاری کہانی اداس ہو

عذلت نشینی، خلق گریزی، فسردگی
بیتیں بہ طرزِ میر سنانی اداس ہو

دیکھو نہ اب بھی جی کو محبت سے پھیر کے
ایسی بھی کیا کسی کی جوانی اداس ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments