کیا سکھاتی ہے کربلا کی داستان


برصغیر پاک و ہند میں یکم محرم سے 8 ربیع الاول تک عزاداری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مجالس، جلوس، نوحہ خوانی اور سینہ زنی کے درمیان ذہن میں بار بار ایک سوال آتا ہے اور وہ یہ کہ صدیوں سے چلی آ رہی عزاداری سے ہم نے کیا سبق لیا؟ ہماری زندگی میں واقعہ کربلا نے کیا تبدیلیاں پیدا کیں اور سب سے اہم سوال یہ کہ کیا سالہا سال واقعہ کربلا کی یاد محض رسم بنتی جا رہی ہے۔ مجھ سمیت ہر ایک کو اس سوال کا جائزہ لینا چاہیے۔ دراصل حق کے لیے قربانیاں دینے کے واقعات سے تاریخ کےصفحات اٹے پڑے ہیں۔ ان میں وہ واقعات بھی ہیں، جہاں بہت سے افراد نے حق کی خاطر اپنی جانیں قربان کردیں۔ ہر ایک مذہب اور مکتب فکر میں حق کے لیے جاں نثاری کی ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی۔ سقراط کے زہر کے پیالے سے لے کر حضرت عیسی کو صلیب پر چڑھائے جانے تک بہت سی قربانیاں راہ حق میں ہوئی ہیں۔ قربانی اور جاں نثاری کے ان واقعات میں جن سانحوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، ان میں ایک واقعہ کربلا بھی ہے۔ یہ بات بلاخوف و تردید کہی جاسکتی ہے، کہ راہ حق میں کسی جاں نثاری کے سانحے کی ایسی یاد پابندی سے ہر برس نہیں منائی جاتی ہے، جیسے دنیا بھر میں عزاداری کی شکل میں امام حسینؓ اور ان کے انصار کی قربانی کو یاد کیا جاتا ہے۔

واقعہ کربلا، ذہن انسانی کو جن باتوں کی دعوت دیتا ہے، ان میں عدم تشدد اور حقوق انسانی کی پاس داری سب سے نمایاں ہیں۔ حضرت امام حسینؓ کا طرز عمل گھر سے نکلنے سے لے کر عصر عاشور سرکٹانے تک ہر ہر قدم پر انسانی حریت، حقوق انسانی کی پاس داری، انسانیت کی سربلندی اور باطل کے سامنے سینہ سپر رہنے کی تعلیمات سے عبارت ہے۔ امام حسینؓ نے اپنے طرز عمل سے یہ پیغام دیا، کہ حالات کتنے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں، کتنی ہی بڑی مصیبت سر پر کیوں نہ آن پڑی ہو، ایک بات کا لحاظ بہر حال رکھا جانا ضروری ہے اور وہ ہے، انسانی آزادی۔ جس کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ امام حسینؓ کی ہر ممکن کوشش یہی تھی کہ خون ریزی نہ ہو اور بات افہام و تفہیم کے ذریعے طے ہوجائے۔

یہاں پر یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے، کہ جب امام نے یزیدی حکومت کے خلاف علم انقلاب بلند کر ہی دیا تھا اور بہر حال جاں نثاری پر آمادہ ہی تھے، تو پھر صلح کی یہ کوششیں کیا معنی؟ دراصل امام کی کوشش صلح کے ذریعے خود کی جان بچانے کی نہیں بلکہ مسلمانوں میں کسی بھی انتشار کے اندیشے کو ختم کرنے کی تھی۔ آپ صلح چاہتے تو تھے، لیکن اس لیے نہیں کہ اپنے کنبے کو محفوظ کرلیں، بلکہ اس لیے کہ جہاں تک ممکن ہو خدا کی زمین میں انسان کا خون نہ بہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ صلح کی یہ کوششیں لشکر مخالف کو سوچنے کا موقع بھی دے رہی تھیں اور ان کے بعد یہ تاویل باقی نہیں رہ جاتی کہ کربلا میں جو کچھ ہوا، وہ سب وقتی غیض و غضب اور شدت جذبات کا نتیجہ تھا۔ ایک طرف جہاں امام، لشکر مخالف کو بار بار حق کی دعوت دے رہے تھے اور جنگ و جدال سے باز رہنے کو کہہ رہے تھے وہیں آپ اپنے انصار کو بار بار اس بات کے لیے راضی کرنے کی کوشش کررہے تھے، کہ وہ اپنی جانیں محفوظ کرنے کے لیے امام کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ اس سلسلے میں شب عاشور کو خیام حسینؓی میں انصار حسینؓی کی وہ مجلس بے حد اہم ہے، جس میں آپ نے ساتھیوں کو اکٹھا کرکے خطاب کیا۔

”آگاہ ہو کہ دشمن کل ضرور جنگ کرے گا۔ میں بخوشی اجازت دیتا ہوں کہ جہاں تمھارا جی چاہے چلے جاؤ۔ میں بیعت کی ذمے داری تم سے ہٹاتا ہوں“۔

یہ مجلس اس اعتبار سے انسانی تاریخ میں امتیازی شان رکھتی ہے، کہ اس میں مصیبتوں میں مبتلا ایک شخص ہزاروں دشمنوں کے نرغے میں ہونے کے باوجود، اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کو بار بار اپنی جانیں بچالینے اور ساتھ چھوڑ کر چلے جانے کے لیے کہہ رہا ہے۔ امام کا یہ طرز عمل بتاتا ہے، کہ انسانوں کو اختیار کی آزادی حاصل ہے اور انسانی حریت کی بنیاد سمجھے جانے والے اس حق اختیار کا تحفظ بہر حال ہونا چاہئے۔ اپنی جان بچانے کے لیے دوسرے انسانوں کو ڈھال بنالینے کے واقعات تو خوب ملتے ہیں، لیکن انسانوں کو محفوظ کرکے خود کو موت کی آغوش میں پرسکون پانے کا یہ منفرد واقعہ بس سنہ 61 ہجری کو نواسہ رسول کے یہاں ہی نظر آیا۔

کربلا میں حسینی طرز عمل کا کمال یہ ہے، کہ نہ صرف یہ کہ موت کے ہنگام میں انصار حسینی کی پامردی اور استقلال کا سبب بنا، بلکہ لشکر مخالف سے بھی بہت سے افراد موت کو سامنے دیکھنے کے باوجود، امام حسینؓ کی طرف آئے۔ ان میں سے حر کا نام سب سے زیادہ مہتم بالشان ہے جو مخالف فوج میں عام سپاہی نہیں بلکہ افسر کے عہدے پر تھا اور وہی لشکر حسینؓی کو اس قتل گاہ میں لایا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس معرکے میں حسینی جماعت کی شہادت طے تھی اور غالب امکان تھا، کہ حکومت اس معرکہ آرائی کے بعد حر کو انعام کے طور پر بڑے اعزاز سے سرفراز کرتی۔ لیکن حر نے دنیاوی مال و متاع اور جاہ منصب کے مقابلے اپنے ضمیر کی سننا اور حق کی نصرت کا ساتھ دینا زیادہ مناسب جانا اور ایک ایسے گروہ میں جا ملا، جس میں شرکت ہی قتل کردیئے جانے کی ضمانت تھی۔

واقعہ کربلا کو ایک عام واقعے کے طور پر محض یاد کے طو رپر منایا جانا، اس واقعے کی عظمت کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے۔ واقعہ کربلا حریت، استقلال، شجاعت، صاف گوئی اور صبر کا درس دیتا ہے۔ یہ غیر معمولی حالات میں بھی ان اصولوں سے سمجھوتا نہ کرنے کا پیام دیتا ہے، جو اصول، انسان کی آزادی اور آدمیت کی سربلندی کی اساس ہیں۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments