کچھ اپنے بارے میں۔ ایک غیر معروف بندے کی آپ بیتی



آج کل ہر جگہ کرونا کی ہی خبر ہے، چاہے وہ دوسرے ملکوں کے حالات ہوں، سیاست ہو یا معیشت ہو، سب چیزیں کرونا کی ہی عینک لگا کر دیکھی جا رہی ہیں۔ ان سب سنجیدہ باتوں کے دوران میں نے سوچا آپ احباب کو کچھ بور کرنا تو بنتا ہے، تو حاضرِخدمت ہے کچھ اپنے بارے میں۔ اب آپ سوچیں گے کہ میں کون ہوں جو اپنے بارے میں لکھنے بیٹھ گیا، تو میں ایک عام سا بندہ ہوں اور میری کہانی بھی عام سی ہے، اب لکھ ہی لی ہے تو پڑھ لیں۔

دنیا میں ہمارے نزول مبارک کے بارے میں مؤرخین میں اتفاق ہے کہ یہ بھی ویسا ہی واقعہ تھا جیسا کہ ہمارے گرد و پیش کے ہسپتالوں میں ہزاروں کے حساب سے ہوتا ہے۔ کچھ بھی تو نیا یا انوکھا نہیں تھا۔ اُس زمانے کے رواج کے مطابق ہم ننھیال میں وارد ہوئے تھے اور کاشان کہلوائے گئے، جب ددھیال پہنچے تو ارمغان نام رکھ دیا گیا۔ ددھیال والے ہماری پیدائش کے علاوہ اس بات پر بھی خوش تھے کہ ہمارے دنیا میں قدم رنجہ فرمانے کا جو تار بھیجا گیا تھا وہ تھا گفٹِڈ وِد آ بوائے۔ معلوم نہیں یہ خوشی ددھیال کو اس بات کی تھی کہ ہمارے ننھیال کو انگریزی آتی ہے، یا اس بات کی تھی کہ ہمارا ورود باسعود ہوا ہے، مؤرخ اس معاملے میں بالکل ہی لب سیے ہے، واللہ اعلم

اپنے ہینڈسم ہونے پر اپنی بیس سالہ پرانی مبینہ گرل فرینڈ کی ہمارے کان میں کی گئی کچھ سرگوشیوں کے علاوہ ہمارے پاس صرف ایک دلیل ہے۔ وہ بھی سن لیں۔ جب ہاؤس بلڈنگ فینانس سے قرضہ لے کر ابا نے مکان بنایا اور ہم اس میں شفٹ ہوئے تو گھر میں کھڑکیاں ابھی نہیں لگی تھیں۔ گرمیوں کا مہینہ تھا اور مچھروں کا زور۔ مچھروں نے میرے چہرے پر بوس و کنار کر کے میرا حلیہ ہی تباہ کر دیا۔ میں دوسری کلاس میں تھا اور ہماری کلاس ٹیچر کا نام میڈم جمیلہ تھا۔ میری کاپی چیک کرتے ہوئی دیکھ کر کہنے لگیں ’ہائے اینا سوہنا منڈا تے ویکھو کم بخت مچھراں نے بیڑا غرق ہی کرتا اے منڈے دے منہ دا‘ ۔ اگر یہ دلیل آپ کو نہیں ماننی تو نہ مانیں، پہلے کون سا آپ میرے کلمہ پڑھنے پر مجھے مسلمان سمجھتے ہیں جو مجھے فکر ہو۔

ہم پیدائشی نالائق نہیں تھے، حاشا و کلا، بعد میں برضا و رغبت ہوئے تھے۔ ہمیں یاد ہے سرکاری سکول کی دوسری جماعت میں ہم کلاس میں دوسرے نمبر پر آئے تھے اور سکول کی ایک تقریب میں انعام بھی پایا تھا۔ ذہن میں زور ڈال کر بھی سچ یہی نکلتا ہے کہ اس کے بعد پڑھائی میں ایسا کوئی کارنامہ اپنی زیست میں نیست ہی ہے۔ لیکن اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ پڑھائی میں بالکل ہی کودن تھے۔ عمران سیریز اور اماں کے جاسوسی اور سسپنس ڈائجسٹ پڑھتے تھے اور چھپ چھپ کر خوب پڑھتے تھے۔ یہی پڑھنے کی عادت تھی کہ میٹرک میں گھسیٹ گھسیٹ کر پہلی ڈویژن تو لے لی مگر وہ اس قابل نہ تھی کہ اماں کی خواہش کے مطابق سرسید کالج میں داخلہ لے سکتے۔

ہم چار دوست تھے اور ایک دوسرے سے نالائقی میں سبقت لیتے ایک دوسرے کو پچھاڑتے۔ صبح جی ٹی ایس کی بس پر بائیس نمبر سے صدیقی چوک سٹوڈنٹ کارڈ کی وجہ سے چار آنے میں کالج جاتے، اور واپسی پر سِکستھ روڈ میں سڑک میں کھڑے ہو کر بس روکتے اور اس کی چھت پر بیٹھ کر مفت صدر تک آ جاتے۔ کبھی کبھی موٹرسائیکل میں جانے کی اجازت ملتی تو اماں کو ایک دوست ساتھ لے کر جانے کا بتا کر جاتے اور پھر ہم چاروں اس بائیک پر کالج جاتے اور واپس آتے۔ سیروز سینما کے سامنے انٹرنیشنل برگر سے پانچ روپے کا انڈے کے بغیر والا برگر بھی کوشش ہوتی کہ روز کھایا جائے، مگر بعض اوقات پیسے نہیں ہوتے تھے تو منہ بسورے گھر چلے جاتے تھے۔

ہماری شرافت کی گواہی ہمارے دوستوں کی زبانی سن لیں۔ کہیں دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے، جگتوں کا سماں تھا، جس کو جب موقع ملتا دوسرے کی مٹی پلید کر دیتا۔ وہیں گپیں ہانکتے ہم نے کہہ دیا کہ بچپن میں ہم انتہائی سادے اور بیبے بچے تھے (یہ نہیں کہ اب غنڈے ہیں، مگر اب ادھار نہیں رکھتے ) ، اماں جان کے پُرزور اصرار پر اپنے پیروں کو دعائیہ خط میں لکھ دیا کہ حضرت اماں کہتی ہیں کہ ہم بہت بدھو ہیں، اللہ سے دعا کریں کہ ہمیں عقل عطا ہو۔ یہ کہنے کی دیر تھی کہ ایک دوست بولے کہ اپنے پیر کا ایڈریس ہمیں بھی عنایت ہو، ہم انہیں لکھیں کہ جنابِ والا تھوڑا دعا کو ریورس گئیر لگائیں، منڈا ہتھوں نکل گیا جے۔

زندگی اسی طرح شرافت سے گزر رہی تھی کہ پھر سی اے کے آرٹیکلز شروع کر دیے۔ چار سال کی ٹریننگ میں کلائینٹس سے، سینئرز سے، مینیجرز سے وہ وہ دو نمبری سیکھی کہ اپنی فیلڈ میں ایک لحاظ سے اعلیٰ مقام پایا۔ پڑھا بھی، کام بھی سیکھا، راتیں بھی جاگیں، اتوار بھی آفس میں لگائے اور بالآخر محنت کا پھل بھی پایا۔

سخت سردی میں سیمنٹ کے اونچے اونچے سائلوز پر چڑھا، تپتی دھوپمیں فرنس آئل کے لوہے کے ڈپوز پر بھی وقت گزارا، اندھیری راتوں میں بینک سٹیٹمنٹس کھنگالیں، فائیو سٹار ہوٹل کے آڈٹ بھی کئے اور ڈٹ کر وہاں کھانے کھائے، اور یتیم خانے کا آڈٹ بھی کیا اور ان کے میس کے کھانے بھی کھائے، لمبے لمبے سفر کیے ، افغانستان بھی گیا، بھانت بھانت کے لوگوں سے ملا، مختلف ثقافتیں دیکھیں اور سمجھیں۔ خیر سے ایک بھرپور زندگی گزاری، کچھ سیکھا، کچھ نہیں بھی سیکھا۔

ہماری زندگی کی ایک کمائی یہ بھی ہے کہ ساری عمر زن مریدی میں گزاری، پہلے اماں کے علاوہ کچھ نظر نہ آتا تھا، پھر شادی کے بعد بیگم کے پیروں کے نیچے جنت ڈھونڈی اور اب بیٹی کو سر پر بٹھائے پھرتے ہیں۔ اب اگر اپنے بارے میں اور لکھتا رہا تو مضمون نہیں چھپے گا کہ ہم اپنے قارئین کو اتنا زیادہ بور بھی نہیں کر سکتے۔ پھر ملیں گے، یار زندہ صحبت باقی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments