ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا



لاوا تہہ خاک عرصہ دراز تک پکتا ہے خبر لیکن ارتعاش سطح پر آنے کے بعد ہوتی ہے۔ ایف آئی اے کی رپورٹ لیک ہونے کے بعد جو ہنگامہ برپا ہے اس کی وجہ وہ نہیں جو بظاہر نظر آ رہی ہے بلکہ حقیقی عوامل اور ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دہائیاں تو بحران کے آغاز سے ہی مچ رہی تھیں اس وقت مگر وزیراعظم صاحب پرسکون بیٹھے رہے اچانک پھر ایسا کیا ہوا کہ انہوں نے تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی۔ کہا جا سکتا ہے کہ شور بڑھنے پر مجبوراً وزیراعظم کو بحران کی وجوہات جاننے کے لیے انکوائری کمیٹی کی تشکیل کا حکم جاری کرنا پڑا۔

سوال لیکن پھر بھی پیدا ہوتا ہے کہ شروع سے ہی فائدہ اٹھانے والوں کے طور پر انگلیاں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کی جانب اٹھ رہی تھیں لیکن تحقیقات کے دوران اور اس کے بعد بھی وزیراعظم صاحب کیوں فرماتے رہے کہ مذکورہ حضرات اس اسکینڈل میں کسی طور ملوث نہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک ذمہ دار منصب پر بیٹھے ہونے کے باوجود وزیراعظم صاحب نے کسی ملزم کے بارے ایسی گواہی دی جو بعدازاں ان کے اپنے ماتحت ادارے کی رپورٹ میں غلط ثابت ہوئی۔

شکوک و شبہات کی وجہ یہ بھی ہے کہ تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے کئی ہفتے قبل ہی اپنی رپورٹ مکمل کرکے وزیراعظم کو ارسال کر دی تھی پھر اتنے دن کیوں رپورٹ ان کے ٹیبل پر پڑی رہی اور اس وقت اسے لیک کرنے کے پیچھے کیا حکمت ہے۔ ایک اور سوال بھی اٹھتا ہے کہ کارروائی اگر رپورٹ کے فارنزک آڈٹ کے بعد ہی ہونی ہے تو پھر پہلے سے طوفان برپا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ رپورٹ کا اجرا عمران خان کا ایسا کارنامہ ہے جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی اور اس سے خان صاحب کی دیانتداری پر عوام کے یقین میں مزید اضافہ ہوگا۔ ایسا کہنے والے نجانے کس جنت میں رہتے ہیں۔ کیا عمران خان صاحب اتنے بھولے ہیں کہ اتنی تاخیر سے انہیں علم ہوا کہ ان کے یمین و یسار کس طرح کے لوگ ہیں۔ مشہور محاورہ ہے کہ دنیا میں کہیں فری لنچ نہیں ہوتا کوئی شخص اگر دوسرے پر خرچ کرتا ہے تو لازما اس کے پیش نظر اپنا مفاد ہوتا ہے۔

جہانگیر ترین کی تحریک انصاف پر سرمایہ کاری ڈھکی چھپی نہیں۔ خان صاحب اقتدار میں آنے سے قبل کہا کرتے تھے کہ کاروباری لوگ سیاست میں اپنے کاروباری مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر آتے ہیں۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ جہانگیر ترین سے مالی تعاون حاصل کرتے وقت انہیں علم نہیں ہوگا کہ ایک سرمایہ دار بغیر سود و زیاں کا حساب رکھے دست تعاون دراز کبھی نہیں کر سکتا۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے قبل جہانگیر ترین کا ذاتی جہاز تحریک انصاف کی الیکشن مہم میں رکشے سے بڑھ کر استعمال ہوتا رہا۔

ملک بھر سے الیکٹیبلز کو جہانگیر ترین اپنے جہاز پر بٹھا کر بنی گالا لاتے اور مشرف بہ تحریک انصاف کرتے رہے۔ یہی نہیں بلکہ جہانگیر ترین دوڑ دھوپ نہ کرتے اور اتحادی جماعتوں کو لارے لپے نہ لگاتے تو وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کبھی حکومت نا بنا سکتی۔ اچانک جہانگیر ترین کی برائیاں بیان کرنا تو وہی بات ہے کہ

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

اس وقت تو جہانگیر ترین سے کسی کو کراہت محسوس نہیں ہوئی۔ ایف آئی اے کی رپورٹ میں ان پر سبسڈی حاصل کرنے کا جو الزام لگا ہے کیا یہ پہلی مرتبہ کسی شوگر مل اونر نے لی۔ یہ بھی سوچنا چاہیے شوگر ملز کو سبسڈی جہانگیر ترین نے تو نہیں دی بلکہ وفاقی شوگر ایڈوائزری بورڈ نے ایکسپورٹ کی سفارش کی عبدالرزاق داؤد جس کے چیئرمین تھے۔ بعدازاں ان سفارشات کی روشنی میں ای سی سی نے گیارہ لاکھ ٹن برآمد کی منظوری دی اور صوبوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ شوگر ملوں کو تین ارب کی سبسڈی دے سکتے ہیں۔

خود عمران خان اور ان کی کابینہ نے بھی ان فیصلوں کی توثیق کی۔ اس کے بعد سبسڈی وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور ان کی صوبائی کابینہ کی منظوری سے مل مالکان تک پہنچی۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ ملز مالکان کا کم از کم اس قصے میں قصور نہیں بلکہ قصوروار وفاقی و صوبائی کابینہ ہے۔ پھر رپورٹ کے مطابق اڑھائی ارب روپے پانچ شوگر ملوں کو ملے، جس میں سے چھیالیس کروڑ جہانگیر ترین، پچاس کروڑ جہانگیر ترین کے ماموں شمیم خان کی ملوں، جبکہ پچاس کروڑ کے قریب خسرو بختیار کے بھائی مخدوم شہریار کی ملوں کو ملے، جس میں مونس الٰہی کا بھی حصہ تھا تو زیر عتاب واحد جہانگیر ترین کیوں؟ خسرو بختیار کو تو ایک طرح سے مزید ترقی مل گئی۔

یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ چینی ایکسپورٹ کا فیصلہ اکثر اس لیے لیا جاتا ہے کیونکہ شوگر ملز میں پہلے سے اسٹاک موجود ہوتا ہے۔ اس اسٹاک کی موجودگی میں ملیں مزید گنا نہیں خرید سکتیں۔ ملیں گنا نہ خریدیں تو کاشتکار متاثر ہوتا ہے کیونکہ اسے پیسے بھی چاہیے ہوتے ہیں اور نئی فصل کاشت کرنے کی خاطر زمین بھی خالی کرنا ہوتی ہے۔ لہذا اس قسم کی صورتحال ہو تو سبسڈی قانونی لحاظ سے غلط قرار نہیں دی جا سکتی ہاں اس بات کی تحقیق ضرور ہونی چاہیے کہ جب چینی کی ضرورت سے زیادہ ایکسپورٹ کس طرح ہوئی جس کی وجہ سے بحران پیدا ہوا۔

سوال پھر یہ ہے کہ جہانگیر ترین کا کیا قصور؟ شواہد اور واقفان حال بتاتے ہیں کہ جہانگیر ترین پر پرنالہ گرنے کی وجہ ایف آئی اے کی رپورٹ نہیں بلکہ تحریک انصاف کی اندرونی کشمکش ہے۔ اصل وجہ یہ ہے جہانگیر ترین کو دولت کے بے دریغ استعمال کی بدولت خان صاحب کی بہت زیادہ قربت میسر تھی، جس کی وجہ سے کئی لوگ انگاروں پر لوٹ رہے تھے۔ جہانگیر ترین سے تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کے اختلافات ڈھکی چھپی بات نہیں شاہ محمود قریشی کا پنجاب کی وزارت اعلی کا خواب ٹوٹنے میں جہانگیر ترین کا بڑا ہاتھ تھا۔

اسی طرح اسد عمر کی وزارت خزانہ سے فراغت اور حفیظ شیخ کی تعیناتی میں بھی انہی کا دست ہنر پوشیدہ تھا۔ لیکن جہانگیر ترین کے سب سے بڑے مخالف وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ہیں اور اس ساری کارروائی میں ان کا کلیدی کردار تھا۔ اس کے علاوہ جہانگیر ترین کے خلاف چند مزید کردار بھی متحرک تھے مگر فساد خلق کے خوف سے ان کا نام نہیں لیا جا سکتا۔ یہ لاوہ آج سے نہیں بلکہ مہینوں سے پک رہا تھا چینی اسکینڈل نہ بھی سامنے آتا جہانگیر ترین نے وزیراعظم کی گڈ بک سے نکلنا ہی تھا۔ مقصد جہانگیر ترین کو بدنام کرکے بیک فٹ پر لانا تھا اور عمران خان سے دور کرنا تھا اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا کسی کو اس بارے کوئی شک ہے تو وہ پچیس اپریل تک انتظار کرلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments