بے راہرو شوہر، وفا شعار بیوی اور نوادرات کی محبت


ثامرہ نے غسل کے بعد لامبے بالوں کو نرم کاٹن کے کپڑے میں لپیٹا اور تولیے میں بدن کی نمی جذب کرنے لگی۔ اس کی خادمہ ہلکی سی دستک دے کر ڈریسنگ روم میں داخل ہوگئی اور بولی، ڈیزائنر نے ایک اسٹائلسٹ کو ڈریس کے ساتھ بھیج دیا ہے۔ ثامرہ نے خود کو تولیے میں لپیٹ لیا اور کہا تم جاؤ میں آ رہی ہوں وارڈروب قیمتی ملبوسات و زیر جاموں سے بھری ہوئی تھی اس نے زہر خند مسکراہٹ کے ساتھ قیمتی زیر جاموں کے ہینگرز کو دھکیلا۔ دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کے تیار کردہ ڈیزائنر زیر جامے جو دکھنے میں خوبصورت لیکن بے آرام تھے۔

کمپنی صرف خاص صارفین کے لئے یہ بناتی تھی لیکن ثامرہ کو قیمتی موتیوں سے مزین زیر جاموں سے چڑ تھی، کیونکہ موتی اس کے نازک بدن کو بے آرامی دیتے تھے یہ اس کے شوہر کا خبط تھا کہ ہر قیمتی شے کا ذخیرہ اس کے پاس موجود ہو۔

ثامرہ نے سب سے آرام دہ زیر جامے منتخب کیے اور پہن کر ڈریسنگ روم سے باہر آ گئی۔
کمرے میں ڈیزائنر کی بھیجی ہوئی لڑکی اور لباس موجود تھا لڑکی نے اس کے بال سکھا اوربنا کر اسے لباس پہننے میں مدد دی اور چلی گئی۔

ثامرہ نے اپنے دھلے ہوئے چہرے پر ایک نگاہ ڈالی، اس کو میک اپ کی چنداں ضرورت نہ تھی، سرخ و سفید رنگت انتالیس سال کی عمر میں بھی تاباں تھی، اس نے آنکھوں میں کاجل لگایا، قدرتی لامبی پلکوں کو میک کے کراون مسکارے سے گھنی کیا اور لپ اسٹک کے ڈھیر میں سے لپ اسٹک منتخب کر کے لبوں پر سجائی، لپ اسٹک کے بعد اس نے لباس کے ہم رنگ اسکارف کو سر پر سیٹ کیا اور شانوں پر بھی ڈال لیا۔ اس کو سر اور شانوں کو ڈھکنے کی عادت تھی اور وہ جانتی تھی کہ اس کی نسل کی چند ہی عورتیں اس روایت کو برقرار رکھتی ہیں وہ ان چند عورتوں میں شامل رہنا چاہتی تھی، آئینے میں اپنا جائزہ لینے کے بعد اس نے کلچ اٹھایا اور گھر کے وسیع و عریض لان میں آگئی۔

اس کے باہر نکلتے ہی خیام علوی اس کے قریب آیا تبریز صاحب راستے میں ہیں بس پہنچنے ہی والے ہیں آپ مہمانوں کو دیکھئے کافی مہمان آ چکے ہیں، وہ دبی زبان سے بولا۔ ثامرہ نے دانت پیستے ہوئے کہا، اس تقریب کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ شہر میں وبا کی افواہیں ہیں۔ خیام علوی بے چارگی سے بولا، آپ کو معلوم تو ہے جب بھی صاحب شہر میں قدم رکھنے والے ہوتے ہیں دوست احباب ملنا چاہتے ہیں اور تقریب ملاقات بہرحال ضروری ہے۔ ثامرہ مسکراہٹ لبوں پر سجا کر مہمانوں سے ملنے لگی کہ مہمان نوازی و خندہ پیشانی بھی اس کی روایت و تربیت کا حصہ تھی۔

خیام علوی بے چینی سے اپنے صاحب کا انتظار کر رہا تھا لیکن صاحب گھر کے طویل پورچ میں داخل ہونے کے بعد گاڑی سے بھی نہ اتر پایا تھا، کیونکہ اس کی نئی دوست جس کو وہ ابھی امارات میں چھوڑ کر آیا تھا، اپنی تصاویر وٹس ایپ کر دی تھیں آتشی گلابی رنگ کی بکنی میں وہ غضب ڈھا رہی تھی۔ تبریز نے کال ملائی اور اسے تسلی دی کہ وہ صرف دو دن کے بعد آ جائے گا۔ تبریز نے لان میں داخل ہونے کے بعد اپنی بھاری آواز میں باآواز بلند سلام کیا۔ اس کے دوستوں نے پر جوش خیر مقدم کیا۔

سب سے مل کر وہ ثامرہ کے قریب آیا اور اس کی کمر میں ہاتھ ڈال دیا۔ اس نے اس کے گال کا بوسہ لینا چاہا تھا لیکن ثامرہ چالاکی سے طرح دے گئی۔ تقریب خوشگوار طور پر اختتام پذیر ہو گئی۔

خیام علوی نے اس کے سامنے اپنا ترتیب دیا ہوا شیڈول یہ کہتے ہوئے رکھ دیا جب تک آپ یہاں ہیں انجام دیے جانے والے امور لیکن تبریز نے یہ کہتے ہوئے کاغذ خیام کی طرف واپس اچھال دیا کہ میں صرف دو دن کے لئے آیا ہوں، اس لیے سب کچھ چھوڑو، اور اپنی خواب گاہ میں آگیا۔

ثامرہ سرعت سے لباس بدل کر عبادت کے لئے کھڑی ہو چکی تھی۔ تبریز نے لباس تبدیل کیا، اور خواب گاہ کے ٹو سیٹر پر نشست جما کر اسے دیکھنے لگا۔ ثامرہ مجبوراً عبادت ختم کر کے بستر پر بیٹھ کر ہاتھوں پر کریم کا مساج کرنے لگی۔ تبریز نے سگار سلگایا اور بستر پر آ گیا اور بولا اب مجازی خدا کو بھی خوش کر دو۔ ثامرہ تلخی سے ہنسی، مجازی خدا تو ویسے ہی خوش رہتا ہے، اس کو خوش کرنے کیا ضرورت ہے۔

تبریز نے قہقہ لگایا اور اس کو اپنے قریب کرتے ہوئے کہا، چلو تم نے مان لیا کہ تمہارا خدا تم سے ناراض ہے جب ہی تم کو اسے منانا پڑتا ہے، وہ تمھاری دعا بھی نہیں قبول کر رہا ہے، مجھے دیکھو تمھارے دھکے دینے کے باوجود تم سے ناراض نہیں ہوتا ملنے چلا آتا ہوں۔ اس نے ثامرہ کے لبوں پر اپنے لب رکھ دیے۔ ثامرہ کسمسائی، اس نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دھکیلنا شروع کر دیا۔ لیکن تبریز نے اس کی ہر مزاحمت ناکام بنا دی، اس کے مطمئن ہوتے ہی ثامرہ بستر سے اتر کر غسل خانے میں چلی گئی اور جب تک وہ سو نہیں گیا باہر نہ آئی۔

علی الصبح بیدار ہوتے ہی تبریز خیام علوی کے ساتھ گھر سے نکل گیا۔ ثامرہ نے سکون سے ناشتہ کیا اور ٹی وی دیکھنے لگی، دنیا میں وبا پھیل رہی تھی۔ ابھی ان کے ملک میں کوئی کیس نہ تھا، لیکن بیرون ملک سے آنے والے افراد کو روکنے پر اتفاق کیا جا رہا تھا اور حکومت ذرائع آمد و رفت معطل کر دینے پر غور کر رہی تھی۔ ثامرہ نے چینل بدل دیا۔ دوپہر کو تبریز اور خیام علوی کی واپسی ہوئی۔

لان میں ایک شور و ہنگامہ مچ گیا۔ ثامرہ باہر نکلی تو اسے ایک نوعمر خوبصورت بنگال ٹائیگر نظر آیا۔ جس کو تبریز اور خیام نے مل کر قابو کیا ہوا تھا، یہ کہاں سے آیا، ثامرہ نے حیران ہو کر پوچھا۔ اسی کو تو خریدنے آیا ہوں بھاگم بھاگ، بہت مشکل سے ملا ہے۔ بس اسی کی کمی تھی میرے ذاتی زو میں، سینتالیس سالہ تبریز کی مسکراہٹ اس وقت بچوں جیسی تھی۔

ثامرہ واپس گھر کے اندر آ گئی اس کی دل چسپی ہر شے سے مفقود ہو چکی تھی، اسے اچھی طرح معلوم ہو چکا تھا کہ اس کا امیر و کبیر شوہر صرف نوادرات جمع کرنے کا شوقین ہے، اس کو ہر پسندیدہ شے بس چاہیے ہوتی ہے، شے حاصل کر نے کے بعد اس کی دلچسپی اس میں چنداں برقرار نہیں رہتی۔ جیسے کہ ثامرہ کو حاصل کرنے کے بعد، وہ بھی تو نادر نمونہ تھی، حسن و تہذیب اور روایت کا۔

تبریز کی وسیع اراضی پر پھیلی زمین و جائیداد کی دیکھ ریکھ کرنے والے منشی کی بیٹی ثامرہ جس سے تبریز نے پانچ سال پہلے شادی کی تھی۔ شادی کا مقصد اپنی مرتی ہوئی والدہ کو پرسکون کرنا اور آنے والی نسل کی بہتر ین تربیت تھا۔ اس کے لئے ثامرہ ہی نادر انتخاب تھی، جس کو اس نے نکاح سے پہلے صرف ایک نظر دیکھا تھا، کیونکہ وہ باپردہ اور گھریلو لڑکی تھی۔ ثامرہ کی والدہ بچپن میں ہی وفات پا چکی تھیں منشی صاحب نے بہت سینت سینت کر احتیاط سے ثامرہ کی پرورش کی تھی، ماں اور باپ دونوں بن کر پالا تھا، چونتیس سالہ ثامرہ بھی صبر کے ساتھ باپ کی دہلیز پر بیٹھی تھی۔

تبریز ساری زندگی ملک سے باہر رہا تھا، جب تبریز کی ماں کا آخری وقت آیا تو تبریز کو بلوایا گیا اور پھر بیالیس سالہ تبریز نے وہی کیا جو ماں نے چاہا کیونکہ اس کی ماں ہی اس کے لئے سب کچھ تھی۔ پشتوں سے چلی آ رہی ننھیالی دولت پر وہ عیش کر رہا تھا، کئی سال پہلے باپ نے اسی دولت کی وجہ سے اس کی ماں کے ساتھ لالچ اور دھوکہ دہی کی تھی۔ تبریز کو باپ کی شکل بھی یاد نہ تھی، ماں اس کے باپ کا گھرچھوڑ کر واپس اپنے باپ کے پاس آگئی تھی اور کاروبار کے ذریعے باپ کی دولت کو مزید وسعت دی تھی۔ تبریز کو علم بھی نہیں تھا کہ ان کی فیکٹریز اور زمینیں کہاں کہاں ہیں، ماں کے منشی، اس کے اپنے دوست اور دست راست خیام علوی نے اس کو باخبر کیا تھا۔ بس پھر تبریز نے شاہ خرچیوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ عیش تو وہ پہلے ہی کر رہا تھا، لیکن اب کھل کر کھیلتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments