چین میں اتحاد، یقین محکم اور تنظیم


”اتحاد، یقین محکم اور تنظیم“ وہ خوبصورت موٹو ہے جس کا سبق ہمیں بانی پاکستان محترم قائد اعظم محمد علی جناح نے دیا۔ ہم نے اس موٹو کو بڑے ادب و احترام کے ساتھ کتابوں میں چھاپا اور اس کو عمارتوں میں کندہ بھی کیا۔ اس کا سبق اونچی آواز میں یاد بھی کیا اور نعرے لگا کر بھی اس کی عظمت کو اجاگر کیا۔ بوقت ضرورت اس کو حوالے کے طور پر استعمال بھی کیا گیا۔ لیکن اس کی عملی صورت آہستہ آہستہ ناپید ہو گئی۔ اب تو اس کی کمیابی کا یہ عالم ہے کہ اس کی تلاش میں آپ کو قائد کے وطن سے باہر جانا ہو گا۔

زندگی میں کسی مقصد کا حصول ہو، یا کسی مشکل سے نبٹنے کا سامنا ہو، کڑا وقت ہو، یا کوئی آفت ہو۔ کوئی بیماری درپیش ہو یا کوئی وبا۔ سب سے پہلے جو چیز کٹھن حالات سے نمٹنے کا حوصلہ دیتی ہے وہ ایمان اور یقین ہے۔ کسی بھی مشکل اور پیچیدہ حالات سے نمٹنے کا یقین انسان کو اس سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔

ایمان اور یقین کا سفر جہاں انسان کا تعلق خدا سے مضبوط کرتا ہے وہیں یہ خدا کے بندوں کو بھی ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کیوں کہ ایمان ہی تو اتحاد کا سبب بنتا ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے۔

اگر بات کی جائے تنظیم کی تو اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ نظام کائنات سے لے کر زمین پر چلنے والے کیڑے مکوڑے تک نظم و ضبط کے محتاج ہیں۔ اگر ایک لمحے کی بھی ہیر پھیر ہو تو پورا نظام درہم برہم ہو جائے۔ نمازوں کے اوقات سے لے کر، سحر و افطار تک۔ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک، سب نظم و ضبط کے پابند ہیں۔ مختصر یہ کہ شب و روز سے لے کر ماہ و سال تک تنظیم کے پابند ہیں۔

گویا مذکورہ بالا تینوں عناصر انسان کی زندگی میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر علمی طور پر جاننے کے بعد اس کو عملی طور بھی اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا جائے تو ہم ایک منظم قوم کے طور پر اپنی شناخت بنا سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم آج بھی اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار نہیں۔ یا شاید ہم پاکستانیوں کو ”عمل“ کے لفظ اور تاکید سے ہی اس قدر الرجی ہے کہ ہم اپنے وہم میں بھی عمل جیسی خرافات چیز کو قبول نہیں کرتے۔

یوں تو بحیثیت قوم نظم و ضبط کے بارے میں ہمارے گزشتہ ریکارڈز بھی قابل ذکر نہیں ہیں لیکن دور حاضر میں کرونا وائرس کی آمد سے تو نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔ عوام سے ایک ہی درخواست کی جا رہی ہے کہ آپ گھروں میں محصور رہیں اور وہ بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں۔ یہ درخواست بھی ان کی صحت کو یقینی بنانے کے لیے کی جا رہی ہے تاکہ ”پر ہیز علاج سے بہتر ہے“ کی منطق پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ان کی صحت مند زندگی کو وائرس کے خطرے سے محفوظ رکھا جائے۔

لیکن عوام تو ”میں نہ مانوں ہار“ کے مصداق ”میں نہ مانوں بات“ پر ڈٹ گئے ہیں۔ ایسے میں ہر شخص طرح طرح کی قیاس آرائیوں میں مصروف ہے، کوئی بھوک سے خوفزدہ ہے تو کوئی معاشی بدحالی سے فکر مند۔ کسی نے اس کو آفت قرار دیا اور کسی نے اس کو آزمائش گردانا۔ جو سرحدوں پار تھے وہ گھروں کو لوٹ رہے ہیں اور جو سرحدوں کے اندر ہیں وہ کسی حد کے ماننے والے ہی نہیں۔ سوشل میڈیا پر الگ اودھم مچا ہے۔ کرونا سے بچنے کے لیے نت نئے ٹوٹکوں میں ڈاکٹرز حضرات کی طرف سے کرونا سے بچاؤ کے لیے بتائی گئی احتیاطی تدابیر کی آواز تو دب کر ہی رہ گئی۔ یعنی کرونا سے بچاؤ کے لیے بھی مختلف طبقہ فکر کے لوگ سامنے آئے جو اپنا اپنا بین بجا رہے ہیں۔ ایسے میں یہ وبائی مرض کرونا ہی ہے جو سنجیدگی اور فکر کا مطلوب ہے۔

مختصر یہ کہ عوام نے اس موقع پر بھی بھرپور افراتفری کا مظاہرہ کیا۔ عوام کے رویے کے سامنے عالم بے بس، حاکم بیزار نظرآئے۔ با شعور پریشان اور سمجھدار حیران ہیں۔ اس تاریخی وبائی مرض کی آمد سے جہاں اقوام عالم پریشان ہے ادھر ہی ایک قوم کرہ ارض پر ایسی ہے جس کو اس مرض کی سنگینی سمجھانے کے لیے بھی واویلا مچانا پڑا۔ کچھ صاحب علم حضرات نے کرونا وائرس جیسے جرثومہ پر لطائف بنائے تو کوئی لیموں پانی سے اس کا علاج کرتا ہوا دکھائی دیا۔

ایسے ایسے ٹوٹکے پیش کیے گئے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن بھی شرما جائے۔ فیس بُک اور یوٹیوب چینلز پر وائرس سے متعلق ایسے حقائق پیش کیے گئے کہ کسی بھی ہوشمند کے ہوش خطا ہو جائیں۔ وائرس سے بچاؤ کے پیغامات دوست احباب، رشتہ داروں، اڑوس پڑوس، سے اندرون اور بیرون ملک ارسال کرنے کے لیے انٹرنیٹ کے پیکجز کا بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ صبح و شام دیسی و انگریزی ٹوٹکے، اور نیک تمنائیں موبائل فون کے ذریعے ارسال کی جاتی رہیں۔

وائرس سے متاثرہ ممالک کے لیے قیاس آرائیاں بھی خوب ڈٹ کر کی گئیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ہمیشہ کی طرح ہر مصیبت کا ذمہ رار حکومت کو ٹھہرانے والی عظیم قوم نے کرونا کے معاملے میں بھی اپنا حق ادا کیا اور حکومت کی ناقص کارکردگی پر خوب تجزیہ کیا۔ مختصر یہ کہ اس وباء سے متعلق ہر غیر ضروری رویہ ضرورت سے زیادہ پایا گیا۔ اگر خاص و عام میں کسی چیز کی کمی نظر آئی تو وہ ہے انفرادی اور اجتماعی احساس ذمہ داری۔ صحت کے ضامن اداروں کی ہدایات کی نظر اندازی۔ صفوں میں اتحاد کی کمی۔ نظم و ضبط کا فقدان۔ جو کہ ماضی کی طرح ایک بار پھر ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آیا۔

بحیثیت ایک طالب علم مجھے کرونا جیسی آفت یا آزمائش کا سامنا دیار غیر ”چائنہ“ میں ہوا۔ مذکورہ ملک کے سالانہ تہوار کی تعطیلات کے دوران ہی اس آفت کا شور بلند ہوا۔ پھر کیا ”اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ“ کے مصداق مختلف ممالک کی طرف سے مختلف قیاس آرائیاں اور ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ لیکن حکومت نے بروقت علم و دانش، اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے اندرون ملک تمام سرگرمیوں کو معطل کر دیا۔ عوام بلا چوں چراں اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے گھروں میں محصور ہوگئے۔

نہ تو کسی کو بھوک سے مرنے کا خوف لاحق ہوا اور نہ ہی کسی نے سڑکوں پر نکل کر اپنی آزادی چھن جانے کا احتجاج کیا۔ نہ ہی کسی کو مہینے بھر کا راشن جمع کرنے کی فکر ہوئی اور نہ ہی کسی کو امدادی لسٹوں میں اپنا نام آنے کی فکر ہوئی اور نہ ہی خواہش۔ اس کی وجہ لوگوں کی اپنے ملک کا نظام چلانے والوں پر یقین تھا۔ اس آفت کے خلاف جیت کے لیٔے انتظار کی وجہ وہ اتحاد تھا جو ان کی صفوں میں نظر آیا۔ نظم و ضبط اور بر وقت فیصلوں کی ایسی مثال پیش کی کہ دنیا ان کے گن گانے لگی۔

عوام کے پر سکون رہنے کی ایک وجہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا جذبہ تھا جس کا بھر پور مظاہرہ کیا گیا۔ ہر طرف ایک ہی فکر لاحق تھی کہ اپنے ”صحت مند کل“ کے لیے اپنے ”آج“ کو گھروں میں محصور کرنا ضروری ہے۔ اسی میں انفرادی اور اجتماعی صحت کا راز پوشیدہ ہے اور کرونا جیسے مرض کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا حامل ملک ہوتے ہوئے، سفر سے لے کر خریداری تک، روزمرہ کے ہر کام کے لیے موبائل اپلیکیشن استعمال کرنے والی عوام کی طرف سے کرونا کے لیے کوئی لطائف پیش نہیں کیے گئے۔

کیونکہ یہ قوم ”سینس آف ہیومر“ اور ”سینس آف ریسپانسیبلٹی“ کے فرق سے بھی بخوبی واقف ہے۔ اس کے بر عکس گھروں میں محصور لوگوں نے مختلف طریقوں اور ذرائع سے اپنے حکمرانوں کے ساتھ تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ یہ بات اس ملک کے بارے میں کی جا رہی ہے جہاں اس کائنات کو چلانے والی قدرت کو ”اللہ“ کے نام سے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ جس سرزمین پر کلمہ گو تو گنے چنے ہیں لیکن عملی اسلام سے آپ کی ملاقات ہر چوراہے پر ہو جاتی ہے۔ قائد کے بھٹکے ہوئے قول کے جز ”اتحاد، یقین محکم اور تنظیم“ سے بھی آپ کی ملاقات ادھر ہی ہو گی جس پر اندھا دھند عمل ہوتا بھی نظر آئے گا۔

اس کے برعکس اللہ کے فضل سے پاکستان کلمہ گو کے رہنے کی سرزمین ہے۔ جس کا ایمان اور توکل ہی مثالی ہے۔ جس کا ایمان اس ذات پر ہے جو پتھر میں بھی کیڑے کو رزق دیتا ہے۔ جو اس انسان سے بھی اس کے حصے کا نوالہ نہیں روکتا جو ساری عمر اس کا نام نہیں لیتا۔ پھر اس کا نام لینے والا کیوں رزق کے لیے پریشان ہے؟ کیا اس کا یقین کمزور ہے؟ یا اسے اپنے توکل پر شک ہے؟ یا اس کی وجہ اپنے ان فرائض سے روگردانی ہے جو اس نے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے پورے نہیں کیے؟

اگر نہیں تو اس وباء کے واویلے میں پہلی فکر اپنی زندگی کی کریں۔ خود کو اس کیڑے کی مانند کر لیں جو پتھر میں رہتے ہوئے بھی اللہ کی قدرت سے اپنے وجود کو قائم رکھتا ہے۔ جو نوالہ آپ کے نصیب کا ہے وہ خود آپ تک پہنچے گا لیکن اس کے لیے خدا کی ذات پر توکل ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں سے محبت کو ماں کی محبت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جیسے ایک شفیق ماں اپنے ہر بچے کی بھوک سے واقف ہوتی ہے اور اس کے کھانے کی فکر اسے لاحق ہوتی ہے۔ کائنات کا تخلیق کار تو اپنی مخلوق کی شہ رگ سے بھی قریب ہے تو وہ آپ کو بھوکا کیسے سونے دے گا۔ ایسے میں ہر فکر سے آزاد ہو کر اپنی صفوں میں اتحاد اور تنطیم پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے کرونا کی آفت، آزمائش سے نبٹنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ یہ ایک جنگ ہے جس کو لڑنے اور جیتنے کے لیے ہتھیار کی نہیں آپ کے احساس ذمہ داری اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ یہ لڑائی انفرادی سطح سے شروع ہو کر اجتماعی فتح کا سبب بنے گی۔ یہ آپ کی، آپ کے خاندان اور پورے معاشرے کی بقا کی جنگ ہے جس کو فتح کرنے کے لیے آپ کو ہی لڑنا ہے۔ اسی طرز عمل سے آپ اپنا سماجی فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں جو محدود سہولیات کے باوجود اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دن رات آپ کی صحت کو یقینی بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

آپ کا تعاون جہاں آپ کے ذمہ دار قوم ہونے کا ثبوت ہو گا وہیں اس وبائی مرض کے خلاف لڑنے والوں پر بہت بڑا احسان بھی ہو گا۔ اگر بحیثیت قوم مذکورہ بالا عناصر کو بھی عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جائیں تو موجودہ صورتحال کا مقابلہ بخوبی کیا جا سکتا ہے کیونکہ علم اپنے جوہر دکھانے کے لیے عمل کا محتاج ہے۔ ایک نامور مصنف ایکتھرا ٹولی اپنی کتاب ”اے نیو ارتھ“ میں لکھتے ہیں کہ اپنی ذات کے بارے میں بیداری اور آگاہی کے لیے انسان کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور شعور کی منزل تک پہنچنے کے لیے اپنے آپ پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ ”تو اس آفت یا آزمائش کو غنیمت جانتے ہوئے ہمیں اپنی ذات کے کمزور پہلوؤں پر غور و فکر کرنا چاہیے تاکہ ہم بحیثیت انسان سرخرو ہو سکیں۔ انسانیت کی منزلیں طے کرنے کے بعد ہر منزل پانا آسان ہو جائے گی۔

قومیت، صوبائیت، لسانیت، مذہبی تفریق، ذات پات، دولت اور مفلسی کے فرق کو بھلا کر بحیثیت پاکستانی اپنے فرائض و ذمہ داری کو پورا کریں۔ ذمہ داری، اتحاد اور یقین سے لڑی جانے والی اس جنگ میں وہ دن دور نہیں جب پاکستان کوویڈ۔ 19 جیسے وبائی مرض سے نجات پا لے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments