فنیشور ناتھ رینو: آزادی کے بعد ہندی ادب کے معمار



ہندوستان میں آزادی کے بعد سے اب تک درجنوں سرکاریں آئیں اور گئیں مگر سیمانچل اور ارریہ کے حالات نہیں بدلے۔ یہاں پیدا ہوکر پلے بڑھے اور دنیا کو راہ دکھانے والے لعل و گہر کی قدر نہیں ہوئی۔ سیاسی اور سماجی مفاد میں ملبوس سماج نے اپنے ان فرزند ارجمند کو بھی فراموش کردیا جن کے دم سے دنیا جہان میں شہر اور خطہ کی نیک نامی مشہور ہے۔ جن کے لازوال ادبی تخلیقات، افسانے، ناول، رپورتاژ اور شعروغزل ہنوز رہ نما لکیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج سے پچاس سال قبل سیمانچل کالا پانی کے نام سے مشہور تھا جہاں زندگی کے آثار تو تھے مگر دھندلے۔ ایسے نامساعد حالات میں بھی خطہ سیمانچل کے شعراء، ادبا اور ناول گار شہرۂ آفاق ہوئے۔ ان کی تخلیقات کو ادب میں اولین مقام ملا۔ بلکہ سب سے عظیم تخلیق کار کہلائے انہیں میں سے ایک ہندی ناول نگاری کا معتبر اور محترم نام فینشور ناتھ رینو ہے۔

جن کو جدید ہندوستان کا منشی پریم چند کہا جاتا ہے۔ جن کی آج یوم وفات ہے وہ 4 مارچ 1921 کو اس وقت کے پورنیہ (موجودہ ارریہ ضلع) کے اوراہی ہینگنا گاؤں میں پیدا ہوا تھا اور 11 اپریل 1977 کو ان کا انتقال ہوا سال 2020 رینو جینتی صدی تقریب کا سال ہے ابھی جبکہ آپ کی نظر سے یہ تحریر گزررہی ہوگی یہ وقت تمام عالم انسانی کے لئے مشکل گھڑی ہے لوگ باگ خوف اور سراسیمگی میں جی رہے ہیں لہذا حکومت بہار کی جانب سے ماہ مارچ کے بیس تاریخ سے شروع ہونے والا رینو مہوتسو بھی مؤخر کردیا گیا ہے۔

رینو مہوتسو کی کامیابی کے لئے محکمہ فن و ثقافت بہار نے ہرممکن کوشش کی تھی مگر یہ بارآور نہیں ہوسکا۔ رینو کی شخصیت اور فن سے روشناس ہونے کا یہ بہترین موقع ہوسکتا تھا۔ با الخصوص نئی نسل کے لئے اچھا خاصہ موقع تھا چونکہ اب سے پہلی نسل رینو جی کی تحریر کردہ مشہور اور مقبول کہانی ”مارے گئے گل فام“ کے پلاٹ پر بننے والی مووی ”تیسری قسم“ سے بھلی بھانتی واقف ہے۔ کمل باسو بھٹا چاریہ نے اس فلم کی ہدایات دی ہیں فلم کے مرکزی کرداروں میں راج کپور اور وحیدہ رحمان ہے۔

پرڑوسی ملک پاکستان کے پردۂ سیمیں کا ایک معتبر نام اسکرپٹ رائٹر ظفر عمران اپنے کالم ”مکالمہ“ میں لکھتے ہین ”بہت بعد میں مجھے ’مارے گئے گل فام‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ افسانے نے مجھ پہ اچھا تاثر چھوڑا، تو دوسری بار ’تیسری قسم‘ کو طالب علم کے طور پہ دیکھنے کی ٹھانی، کہ کیسے ایک افسانے کو اسکرین پہ منتقل کیا گیا ہے۔ یہ سبھی فلم بین مانتے ہیں، کہ جن جن ناولوں پر فلمیں بنی ہیں، انھیں پڑھنے کے بعد فلم دیکھی جائے تو چاہے وہ بیسویں صدی کی اول نمبر فلم ’گاڈ فادر‘ ہی کیوں نہ ہو، ناول کے مقابلے میں کم تر محسوس ہوتی ہے۔ ناول میں ہر قاری کا اپنا تصور ہوتا ہے، جو اسکرین کے کرداروں سے میل کھائے نہ کھائے“

آج سے 98 سال قبل قدیم پورنیہ اور موجودہ ارریہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے متوسط گھرانہ شیلاناتھ منڈل کے یہاں آنکھیں کھولنے والا عبقری ذہن و دماغ کا حامل عظیم شخصیت ناول نگارفنیشورناتھ رینو کی تمام زندگی جہدمسلسل سے عبارت ہے مگر اس عظیم فنکارنے مسائل و مشکلات کو اپنے پاؤں کی بیڑی بننے کا موقع نہیں دیا اور مسلسل شاہکار کہانی اور ناول کے ذریعہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سماج کو آئینہ دکھایا، گاؤں کی ہڑیا سے لے کر سیاست کے پرپیج راہوں پہ وار اور جاگیردارانہ سماج کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دی۔

عام فہم زبان، سادہ مگر پرکشش اسلوب اور واضح نقطۂ نظر کے ساتھ فنکارانہ خوبیوں سے متصف شہرۂ آفاق ناول ”میلا آنچل“ لکھا جس نے ہندی ادب میں دھوم مچا دیا ان کے ہم عصر لکھاری اور ناقدین عش عش کراٹھے۔ میلا آنچل کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ناول کے اشاعت کے بعد انگریزی سمیت کئی ایک اہم زبان میں اس کا ترجمہ شائع ہوا اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اس کا لکھنے کا انداز واضح تھا جس میں ہر کردار کی نفسیاتی تصور کو دیدہ انداز میں بیان کیا گیا ہے رینو کی کہانیوں اور ناولوں میں علاقائی زندگی کی ہر دھن، ہر خوشبو، ہر تال، ہر آواز، ہر خوبصورتی اور ہر بدصورتی کے ساتھ الفاظ کو کامیابی کے ساتھ باندھنے کی کامیاب کوشش ملتی ہے۔

ان کے زبان اور اسلوب کا جادوئی اثر ہے جو قارئین کو باندھے رکھتی ہے اور پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں دیہی زندگی کے لوک گیتوں کا تخلیقی استعمال کیا ہے اس نے اپنی تحریروں میں پریم چند کی سماجی حقیقت پسندانہ روایت کو آگے بڑھایا ہے اور وہ آزادی کے بعد کا پریم چند کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اپنی تخلیقات میں انہوں نے علاقائی اصطلاحات کو بہت احسن پیرایہ میں استعمال کیا ہے انسانی احسات کو ہنر مندی کے ساتھ پیش کرنے والے امر کتھا شلپی فنیشور ناتھ رینو دنیا کے ان چند عظیم ادیبوں میں سے ایک ہیں جن کے ناول اور کہانیوں کو پسندیدگی کا فخر حاصل جو علاقائی (آنچلک) افسانہ نگاری کی ایک مضبوط نمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ کسان، گلوکار، جنگ آزادی کے مجاہد، شاعر، صحافی بھی تھے۔

رینو کی شخصیت ہمہ جہت تھی انہوں نے معاشرہ کی ان تبدیلیوں کو بہت قریب سے محسوس کیا جو آزادی وطن 1947 کے بعد ملک کے دیہی علاقے میں رونما ہورہا تھا۔ سماجی اتل پتھل کا دور دورہ تھا جس میں امیر امیر ترین اور غریب غریب ترین ہوتے جارہے تھے میلا آنچل کا یہ نعرہ دیکھیں کہ ”یہ آزادی جھوٹی ہے۔ دیش کی جنتا بھوکی ہے۔ اسی طرح گاؤں اور کسان کے مسائل و مشکلات پہ ارباب اقتدار اور سماج کو جھجھوڑنے کا کام کیا ہے ملاحظہ کیجئے کہ“ کسانوں کے معاملے دیکھنے کے لئے وزیر زراعت اسے بنایا جاتا ہے جسے یہ تک پتا نہیں ہے کہ دھان کا پودا ہوتا ہے یا پیڑ،

جدوجہد آزادی اور نیپال انقلاب میں انہوں نے اپنا فعال کردار ادا کیا۔ نیپال میں ان کا کوئیرالہ شاہی خاندان سے بہت گہرا تعلق تھا کہا جاتا ہے کہ وہ مصنف سے پہلے ایک انقلابی مجاہد آزادی تھے۔ تاناشاہی، سماجی نابرابری اور انصاف کے لئے قلم کے ساتھ ساتھ انہوں نے بندوق بھی اٹھائی ان کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت رہی۔ انہوں نے بنا رکے اور تھکے ہارے میلا آنچل کے بعد پرتی پری کتھا، جلوس، کتنے چوراہے وغیرہ اہم اور مقبول ناول ہندی ادب کو دیا ان کی گرانمایہ خدمات کے اعتراف میں بھارت سرکار کی جانب سے میلا آنچل کی تصنیف پر پدم شری اعزاز سے بھی نوازاگیا۔

حالانکہ ان کی شخصیت اور فن مزید اکرام، احترام اور توجہ کی متقاضی ہے۔ ان کی تصنیف، کہانیاں اور ناول انسانی سماج کے لئے رہنما خطوط ہے۔ با الخصول وطن عزیز ہندوستان کہ جہاں اسی فیصد آبادی گاؤں میں بودوباش رکھتی ہے اور رینو کی کہانیوں کا پس منظر اور پیش منظر گاؤں کی زندگی ہی ہے۔ لہذا لازم ہے کہ بھارت کو وسیع تناظر میں جاننے سمجھنے کے لئے رینو ریسرچ چیمبر قائم کیا جائے ان کے اعتراف میں یادگار بنائے جائیں بلکہ حق تو یہ ہے بعد از مرگ سہی بھارت رتن سے انہیں سرفراز کیا جائے تاکہ شعرو ادب اور ہندی کہانی و ناول نگار کی اس انقلابی اور عظیم فنکار کو بہترین خراج عقیدت مل سکے۔ اور پسماندگی کی شکار سیمانچل کا جو قافلہ شعر وداب رواں دواں ہے اس کو دوام مل سکے۔ کہ بقول علامہ رحمتہ اللہ علیہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے / بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments