کورونا وائرس سنگاپور میں پھر زور پکڑنے لگا، کیا دنیا کو پریشان ہونا چاہیے؟


سنگاپور

سنگاپور نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت غیر ضروری طور پر گھرسے باہر نکلنے والوں کو دس ہزار ڈالر جرمانہ یا چھ ماہ تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے

جب سے کورونا وائرس سامنے آیا ہے دنیا بھر میں سنگاپور کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے کہ اس چھوٹے مگر امیر ملک نے کس طرح وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات کیے۔

کورونا وائرس کو ابھی کووڈ 19 کا نام بھی نہیں دیا گیا تھا اس وقت سے سنگا پور کی حکومت نے شہریوں کو غیر ضروری سفر کم کرنا کا حکم دیا تھا اور انتہائی مؤثر انداز میں ان تمام لوگوں کا کھوج لگایا جو وائرس سے متاثرہ شخص سے رابطے میں آئے ہوں۔

لیکن حالیہ دنوں میں سنگا پور میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھی ہے اور ایک دن میں نئے کیسز کی تعداد 142 سے بڑھ 287 تک جا پہنچی ہے۔ ملک میں مجموعی طور پر 2200 سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ 528 افراد مکمل طور پر صحتیاب ہو چکے ہیں اور کُل آٹھ اموات ہوئی ہیں۔

سنگاپور میں سامنے آنے والے نئے کیسز کی اکثریت ان ہوسٹلوں سے آئی ہے جو سنگاپور نے غیر ملکی ورکرز کے لیے بنا رکھے ہیں۔

ماضی میں سنگاپور پر غیر ملکی مزدوروں کو شہروں سے دورگنجان ہوسٹلوں میں رکھنے پر تنقید ہوتی رہی ہے۔ ان ہوسٹلوں میں ایک کمرے میں کم از کم بارہ مزدووں کو رکھا جاتا ہے۔

اب سنگاپور میں جزوی لاک ڈاؤن ہے۔ سکول اور غیر ضروری کاروبار بند ہیں اور لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ گھروں میں رہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک جو اب تک ہر کام ٹھیک کر رہا تھا، اس سے کچھ اہم سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

بی بی سی بینر

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا کے مریض دنیا میں کہاں کہاں ہیں؟

کورونا: ترکمانستان میں اب تک کوئی کیس رپورٹ کیوں نہیں ہوا؟

کیا اقلیتی برادریاں کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں؟


سنگاپور کیا صحیح کر رہا تھا؟

سنگاپور میں کورونا وائرس کا پہلا مریض 23 جنوری کو سامنے آیا۔ یہ ایک چینی سیاح تھا جو ووہان شہر سے سنگاپور آیا۔

اسی روز ووہان شہر کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا تھا لیکن سنگاپور نے کورونا کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد جس طرح کا ردعمل ظاہر کیا اس پر سنگاپور کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔

سنگاپور نے فوراً اپنےایئرپورٹس پر مسافروں کو چیک کرنا شروع کر دیا۔ ہر مشتبہ مریض کا ٹیسٹ کیا جانے لگا اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ان تمام لوگوں کا پتہ لگایا گیا جو کورونا وائرس کے مریضوں سے رابطے میں آئے تھے۔ ان تمام لوگوں کو گھروں میں بند کر دیا گیا جب تک ان کے ٹیسٹ منفی نہ آئے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ نے سنگاپور کو ایسی مثال قرار دیا تھا جس کی دوسروں کو تقلید کرنی چاہیے۔

سنگاپور نے کئی ہفتوں تک کورونا کے مریضوں کو کم سطح پر رکھنے میں کامیابی حاصل کی اور سوائے چند ایک جگہوں کے سنگاپور میں شہریوں کی نقل و حمل پر کوئی پابندی نہیں تھی۔

ڈبلیو ایچ او کے گلوبل آؤٹ بریک الرٹ ریسپانس کے چیئرمین پروفیسر ڈیل فشر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے جب بھی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنتا کہ سنگاپور اتنی کامیابی سےوائرس کے پھیلاؤ کو روکے ہوئے ہے، تو میرا جواب ہوتا تھا ’ابھی تک۔‘

پروفیسر ڈیل فشر کا کہنا ہے کہ اس بیماری کو روکنا بہت مشکل ہے۔

سنگاپور

کورونا وائرس کو ابھی کووڈ 19 کا نام بھی نہیں دیا گیا تھا جب سنگا پور نے شہریوں کے غیر ضروری سفر کو کم کرنا شروع کر دیا اور انتہائی مؤثر انداز میں ان تمام لوگوں کا کھوج لگایا جو وائرس سے متاثرہ شخص سے رابطے میں آئے ہوں

چیزیں کب خراب ہونا شروع ہوئیں؟

سنگاپور نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے جو اقدامات اٹھائے وہ مارچ کے پہلے دو ہفتوں تک کارآمد رہے لیکن جب یہ وائرس دنیا بھر میں پھیلنے لگا اور حکومتوں نے اپنے شہریوں کو واپس وطن بلانا شروع کیا تو سنگا پور کے ہزاروں شہری ان ممالک سے واپس آئے جو کورونا وائرس کےخطرے کو ابھی سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے۔ سنگاپور میں بھی ہزاروں لوگ واپس آئے۔

بیرون ملک سے آنے والے ہر شہری پر لازم تھا کہ وہ دو ہفتوں تک گھروں میں رہیں گے۔ البتہ ان گھروں میں رہنے والے ایسے دوسرے لوگ جو بیرون ملک سے نہیں آئے تھے اور ان میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے کوئی اثرات بھی نہیں تھے ان کو معمول کی زندگی گزارنے کی اجازت تھی۔

مارچ کے وسط سے سنگاپور میں کورونا وائرس کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا تھا لیکن ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو یا تو بیرون ملک سے آئے تھے یا بیرون ملک سے آنےوالوں سے رابطے میں تھے۔

اب سنگاپور میں اس پر بات ہو رہی ہے کہ جن خاندانوں میں ایسے لوگ شامل ہوئے جو بیرون ملک سے آئے تھے اور خاندان کے دوسرے افراد کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہونی چاہیے تھیں۔

سنگاپور کے سا سوی ہاک سکول آف پبلک ہیلتھ کے ڈین پروفیسر یک ینگ ٹیو کا کہنا ہے: ’جب چیز ہو جائے تو یہ کہنا آسان ہوتا ہے کہ یہ غلطی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہم اب اس بیماری کے بارے میں جانتے ہیں اتنا ہمیں اس وقت معلوم نہیں تھا۔ اس وقت یہ بھی معلوم نہیں کہ اس وائرس سے متاثرہ شخص بغیر کوئی علامات ظاہر کیے کئی روز اپنی معمول کی زندگی گزار سکتا ہے۔‘

سنگاپور کے اس تجربے ایک یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اس وائرس کے بارے میں ہمیں جو کچھ معلومات ہیں ان پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔

مثال کے طور ہمیں یہ نہیں مان لینا چاہیے کہ جو شخص اس وائرس سےمتاثر ہو چکا ہے وہ ہمیشہ کے لیے اس وائرس سےمحفوظ ہو چکا ہے کیونکہ ابھی تک یہ بات یقینی نہیں ہے۔

سنگاپور

حالیہ دنوں میں سنگا پور میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھی ہے اور ایک دن میں نئے کیسز کی تعداد 142 سے بڑھ 287 تک جا پہنچی ہے

سنگاپور ہمیں کیا بتاتا ہے کہ وائرس کہاں سے پھیلا؟

سنگا پور میں وائرس کی درآمد کو روکنے کے بہت اقدامات ہو رہے ہیں۔ اب باہر سے آنے والے ہر شخص کا حکومتی قرنطینہ میں جانا لازم ہے۔

حال ہی میں سنگاپور نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت غیر ضروری طور پر گھرسے باہر نکلنے والوں کو دس ہزار ڈالر جرمانہ یا چھ ماہ تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ حکومت اسے لاک ڈاؤن کا نام تو نہیں دے رہی لیکن یہ حقیقت میں لاک ڈاؤن ہی ہے۔

کووڈ 19 کے نئے مریض کہاں سے آئے؟

کورونا کے نئے مریضوں میں حالیہ اضافہ ان ہوسٹلوں سے ہوا ہے جہاں غریب ممالک سے آنے والے لاکھوں مزدوروں کو رکھا جاتا ہے۔ یہ لوگ شپنگ، تعمیراتی اور مرمتی کاموں کی صنعت میں کام کرتے ہیں۔

ان غیر ملکی مزدوروں پر قانونی طور پر لازم ہے کہ وہ ان ہوسٹلوں میں ہی رہیں گے۔ ہر کمرے میں بارہ لوگ رہتے ہیں، ان کے کچن اور باتھ روم مشترکہ ہیں۔

ان ہوسٹلوں سے کورونا وائرس کے 500 مریضوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔

قومی ترقی کے وزیر لارنس وانگ نے کہا ہے کہ یہ ہمیں معلوم تھا کہ ان ہوسٹلوں میں کورونا پھیل سکتا ہے۔ میں اس مسئلے کو مختلف اندازمیں نمٹنا چاہتا تھا لیکن کئی ورکر بیماری کی علامات کے ظاہر ہونے کے باوجود کام کر رہے تھے۔

وزیر لارنس وانگ کا کہنا ہے کہ اگلے ہفتے یا اس کے آس پاس کورونا کے نئے مریضوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا ہے۔

پروفیسر ٹیو کا کہنا ہے کہ ان ہوسٹلوں میں جو کچھ ہوا اس سے ہمیں اشارہ ملتا ہے کہ جنوبی ایشیا، جنوبی مشرقی ایشیا اور افریقہ کے کچھ ممالک جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد انھیں ہوسٹلوں کی طرح کے حالات میں رہنے پر مجبور ہیں وہاں بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔

سنگاپور

سنگاپور میں سامنے آنے والے نئے کیسز کی اکثریت ان ہوسٹلوں سے آئی ہے جو سنگاپور نے غیر ملکی ورکرز کے لیے بنا رکھے ہیں

پروفیسر لی ہانگ ہسو کہتے ہیں سنگاپور کے ہوسٹلوں سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ معاشی ہمواری ہی بہتر راستہ ہے۔

’اس وائرس نے ہمارے معاشرے کی خامیوں اور خاص طور پر غیرملکی مزدوروں کے مسائل کو اجاگر کردیا ہے۔‘

پروفیسر لی ہانگ ہسو کا کہنا ہے کہ غیر ملکی مزدوروں کے لیے تیار ان ہوسٹلوں میں انسانی رہائش کے کم سے کم رقبے کے کسی اصول پر عمل نہیں ہوتا اور یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کے لیے ضروریات ناکافی ہیں۔

’سنگاپور جیسے امیر ملک کو ان لوگوں کی صحت کے لیے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔‘

سنگا پور میں 24 ہزار مزدوروں کو ان کے ہوسٹلوں میں محصور کر دیا گیا ہے اور انھیں پوری تنخواہ بھی دی جا رہی ہے اور مفت کھانا بھی مہیا کیا جا رہا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ تیزی سے ان کے ٹیسٹ بھی کر رہی ہے اور ایسے مزدور جو وائرس سے متاثرنہیں ہیں انھیں حکومتی عمارات یا فوجی کیمپوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔

سنگاپور میں غیر ملکی مزدوروں کےل یے قائم ہوسٹلوں کا سیاحتی بحری جہازوں سے موازنہ کیا جا رہا ہے جو کورونا وائرس کے دنیا میں پھیلاؤ کا سبب بنے۔

سنگا پور کے افرادی قوت کے وزیر جوزفین تیاؤ نے کہا کہ مزدوروں کے ان ہوسٹلوں کا معیار بڑھانا ایک راست اقدام ہو گا۔

کیا اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ممکن نہیں؟

سنگاپور پر ایسے الزامات لگائے گئے کہ اس نے لاک ڈاؤن کرنے میں تاخیر کی۔ لیکن پروفیسر ڈیل فشر کا کہنا ہے کہ سنگاپور نے بہت سارے ممالک کی نسبت تیزی سے اقدامات کیے اور اس وقت لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے اقدامات شروع کیے جب روزانہ کورونا کے نئے مریضوں کی تعداد 100 کے لگ بھگ تھی۔

پروفیسر فشر کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کا فائدہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ اگر تین اقدامات ساتھ ساتھ کیے جائیں۔

سب سے پہلے لوگوں کو گھروں میں محدود کر کے وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جائے۔ صحت کے نظام کو بھی وقت چاہیے۔ پہلے مریض بستروں کو خالی کریں اور صحت کا عملہ بھی اس قابل ہو کہ وہ بھی چھٹیاں لینے کے قابل ہو۔

تیسری اور اہم ضرورت قرنطینہ کی گنجائش ، تنہائی کی سہولتیں اور مریض سے رابطے میں آنے والوں کو ڈھونڈنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔

پروفیسر ڈیل فشر کا کہنا ہے ’اگر آپ ایک یا دو اقدام کریں گے اور پھر سب کچھ کھول دیں گے تو تاریخ اپنےآپ کو دہرائے گی۔‘

سنگاپور اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ امریکہ یا برطانیہ کے برعکس اس کا صحت کا نظام ابھی تک مغلوب نہیں ہوا ہے۔

سنگاپورمیں ایک جماعت کی حکمرانی ہے اور یہاں کا میڈیا بھی حکومت سے تعاون کرتا ہے۔

پروفیسر ڈیل فشر کا کہنا ہے کہ واضح پیغامات کے باجود سنگا پور کے لوگوں کو اس وبا کے خطرے کی شدت کا پوری طرح احساس نہیں ہو پا رہا ہے۔

’وہ یہ کہیں گے کہ ہاں سنگاپور کو یہ کرنا چاہیے لیکن میں اپنی ماں کو دیکھنے جا رہا ہوں۔‘

سنگا پور میں نئے قانون کے نفاذ کے پہلے دو روز میں دس ہزار لوگوں کو وارننگ جاری کی گئی جو کھانے گھر لے جانے کی بجائے وہیں کھا رہے تھے اور پبلک مقامات پر میل جول کر رہے ہیں۔

بڑے آبادیوں والے اور پیچیدہ سیاست والے ممالک کو کچھ کرنے کے لیے ہفتوں اور مہینوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔

تمام ممالک بہتری کے آثار نمودار ہونے کے منتظر ہیں لیکن سنگاپورسے ملنے والا سبق یہ ہے کہ ابھی نرمی اور ڈھیلا پڑنے کی گنجائش نہیں۔ تمام ممالک کو وبا کی دوسری، تیسری اور شاید چوتھی لہر کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

پروفیسر ٹیو کا کہنا ہے کہ اگر دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے اعداد و شمار صحیح ہیں تو کئی ممالک کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ گنجان آبادیوں کو وہیں تک محدود کر دیں اور وائرس سے متاثرہ لوگوں کا دوسروں سے میل جول ختم کروا دیں۔

دنیا کو سنگاپور کے ہوسٹلوں کی مثال کو سامنے رکھنا چاہیے۔ پروفیسر ٹیو کا کہنا ہے کہ ہمیں دنیا کو تیار کرنا چاہیے۔ یورپ اور امریکہ میں بھی ایسی کمیونٹیز ہیں جہاں لوگ قریب قریب رہتے ہیں۔ جب کووڈ نائنٹین وہاں داخل ہو گا تو کیا ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp