کرونا ختم نہیں ہو گا



اب بہت ہوگئی بحث کہ یار کرونا کی یہ نشانیاں ہیں، فلاں اثرات ہیں، اس طرح پھیلتا ہے، یہ پرہیز کے معیارات ہیں، یہ شاید قدرتی آفت ہے، یہ انسان کے کرموں کے عوض ہے، یہ حرام کھانے سے شروع ہوا، کس طرح اس نے امیر ملکوں کے غرور کو خاک میں ملا دیا، اس نے دہشت گردی رکوا دی، ملکوں کے نظام صحت کو آشکار کر دیا، ٹینکوں اور وینٹی لینٹرز کی تعداد بتا دی، سماجی دوری، راشن سکیمیں، عالمی و مقامی حکومتی امدادی پیکجز، چھ ارب ڈالر کا امدادی پیکج، تفتان بارڈر کے ہیرو زلفی بخاری کا ذکر، چھ چھ ہزار روپے کی رشوت، کرونا کا سب سے زیادہ متاثرہ اور جانے کیا کیا۔ اب تو گروپ کالنگ، لڈو، تاش، نجی محفلوں، کاروباری دوستوں اور خاندانوں میں صرف ایک ہی سوال زیر بحث ہے کہ یار یہ ختم کب ہو گا؟

تسلی کہ وعدوں عیدوں میں موسم کا درجہ حرارت سے جوڑا گیا، لاک ڈان، سماجی دوری، گھروں میں قید، قرنطینہ سب تو کر دیکھ لیا۔ آ ج کے دور کے سوشل میڈیا ایم بی بی ایسوں کے مشوروں کے مطابق پیاز، لہسن، ادرک، مالٹاکھا کر دیکھ لیا۔ مذہبی عطائیوں کے دعووں کے مطابق قوت ایمانی کے اعلیٰ معیار پر جا کر دیکھ لیا۔ میڈیا کے بڑے بڑے آگہی پروگرام سن سن کر لگنے لگا ہے کہ ہمیں کرونا تو نہیں ہے مگر کوئی نہ کوئی بیماری ضرور ہے۔

فلمی اور کتابی پیشن گوئیوں، ایک صدی پرانی بیماریوں کے ہسٹری جان لی، سرمایہ دار ملکوں کی چالیں سن لیں، بائیولوجیکل وار کا بھی تذکرہ سن لیا، طاقتی گروپس اور تجارتی گروپس کا تذکرہ سن لیا، کلوروکوئین، ملیریا کی دوائی کا تذکرہ، سو میں سے ایک یا ڈیرہ لوگوں کی اموات کی تسلی تک سن لی مگر کرونا ہے کہ ختم ہونے کا کوئی جواب نہیں ملا۔

بیویوں کے ساتھ دن گزارنے کے طریقے، ٹک ٹاک کی برمار، پشپ اپس چیلنجز، انڈیا پاکستان میچز کی سیریز، انڈیا کا پورن ویب سائٹ وزٹ کرنے میں پہلا نمبر، کنڈوم بنانے والے کمپنیوں کا ٹارگٹ نہ پورا کر سکنے کی وارننگ۔ کیسے کیسے تخلیقی عنوان پڑھ ے اور ان کو زیر بحث لائے مگر کرونا جانے کب تلک رہے گا۔ شاندار فلمیں دیکھیں، کتابیں پڑھیں، کالم پڑھے اور لکھے مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ ان سب کے دوران اگر کچھ ہوا توبھلا ہو جہانگیر ترین صاحب کا جن کے وسیلے کچھ دن گفتگو سننے اور کرنے کے موضوعات تو بدلے، نہیں تو ہم بہت سوں کو لگنا شروع ہو گیا تھا شاید ہم کرونا سپیشلسٹ ہو گئے ہیں اور ہم تو تھیسس لکھ کر بڑے اچھے برائے نام ڈاکٹر بن سکتے ہیں۔

بس پھر کیا تھا انہی موضوعات پر بحث کرتے کرتے ایک دن یونہی بیٹھے بیٹھے شاید ہم میں سے ہمارے ایک دوست انجم ڈیوڈ پر نیوٹن کا کشف ہوا اور انجم نیوٹن نے ہمیں بتایا دوستو۔ ”کرونا ختم نہیں ہونا“۔ ہم نے انجم کو نیوٹن کا لقب دے کر طنزیہ پوچھنا شروع کر دیا کہ موصوف کی پیشن گوئی کے پیچھے علم ہے، تحقیق ہے یا آپ نے محض بحث ختم کرنے کے لئے کہہ دیا۔ انجم صاحب نے کہا مجھے لگتا ہے قدرت ہی اس سلسلے میں انسانوں کی کچھ مدد کر سکتی ہے۔

اور اس سے بیشتر بھی بہت سی بیماریاں دنیا میں آ ئیں اور آ ج بھی اپنا وجود رکھتی ہیں اس سب میں اگر کچھ ہوا ہے تو بس یہ کہ قدرت نے ہمارے نظام مدافعت کو ا ن بیماریوں کو برداشت کرنے کے قابل بنا دیا اور کچھ ہم میں سے عظیم انسانون نے ویکسین ایجاد کر کے لوگوں کو بیماریوں سے لڑنے کے قابل بنا دیا۔ ہم پانچوں میں سے چاروں پر طنز و مزاح کا بھوت سوار تھا اس لئے شاید ہم نے بات کو مذاق میں لے کر ختم کردیا۔

اگلے دن اپنے دوست کی بات کا تذکرہ کسی سنجیدہ محفل میں کیا تو انجم کی منطق سمجھ میں آ نا شروع ہو گئی پروفیسر صاحب نے انجم صاحب کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ صاحب علم، مہارت کاروں، حکومتوں ڈاکٹروں کے سب تدبیریں اب انسانی نظام مدافعت سے ہیں جو کہ انسان میں موجود نظام قدرت میں پنہاں ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کرونا ختم نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments