دھرنا ڈائری، دوسرا اور آخری صفحہ


\"omair

آفس سے کال آئی آپ نے دھرنا کوریج کے لیے اسلام آباد جانا ہے۔ ہمیں خوشی اور تشویش ایک ساتھ ہوئی۔ خوشی ایک مختلف ذمہ داری ملنے کی تھی، تشویش اس بات کی کہ خدا جانے یہ دھرنا کب تک چلے۔ کتنے دن کا زاد راہ ساتھ رکھیں، اسلام آباد کا موسم کیسا ہو گا، گرم کپڑے نکالنے ہیں تو الماری کے بالائی خانے پھرولنا ہوں گے، وغیرہ وغیرہ۔

2014 کے دھرنے میں بھی اسلام آباد بھیجے گئے تھے، نیوز روم کی چار دیواری سے نکل کر فیلڈ میں جانے سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ خبر نشریاتی رابطے کے بجائے اپنی آنکھ سے بنتے دیکھی تھی۔ کئی تجربات جو نیوز روم میں سات سال گزار کر نہ ہوئے وہ فیلڈ میں رہتے ہوئے سات دن میں ہو گئے تھے۔

شادمانی کے غبارے سے کچھ ہوا اس وقت نکلی جب بتایا گیا اسلام آباد جا کر بھی ہمارا پڑاؤ بیورو آفس میں ہی ہو گا۔ سوچے بیٹھے تھے کہ میدان جنگ میں جو کچھ بیتے گا، اس کی داستان کہیں گے، یہاں ہمیں پچھلے مورچوں میں بٹھا دیا گیا۔

خیر ہم نے دھکے سے ایک چکر لال حویلی اور بنی گالہ کا لگایا۔ عمران خان کی رہائش گاہ اور اس کے گرد جمع تحریک انصاف کے کارکنوں کو دیکھا، ان سے بات کی، ان کے جذبوں کو محسوس کیا۔

اب معاملہ بخیر و خوبی انجام کو پہنچ چکا تو ہمیں 2014 کے دھرنے سے کچھ کہانیاں یاد آئی ہیں۔ وہی کہے دیتے ہیں۔

جب اسلام آباد میں یلغار ہو چکی اور تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ عوامی تحریک کے کارکنان بھی شہر کی متوازی سڑکوں پر فروکش ہو چکے تو عاجز نے ان سے گفتگو کی تھی۔ پوچھا، کیا چاہتے ہو؟ جواب ملتا، نواز شریف کا استعفیٰ چاہتے ہیں، حکومت گرانا چاہتے ہیں۔ پوچھا، اگر انہوں نے استعفیٰ نہ دیا تو؟ تحریک انصاف والے جواب دیتے، خان صاحب نے کچھ سوچا ہی ہو گا۔ عوامی تحریک والے کہتے، قبلہ نے کچھ سوچا ہی ہو گا۔ (عوامی تحریک کے لوگ طاہر القادری کا نام نہیں لیتے، انہیں قبلہ کہتے ہیں) ہم سوال کرتے آپ کی بھی کوئی رائے ہو گی، حکومت گرانے کا کوئی لائحہ عمل سوچا ہو گا آپ نے؟ دونوں پارٹیوں کے کارکن کہتے ان کے قائدین نے کچھ سوچ رکھا ہو گا، وہ تو بس ان کے کہنے پر آ گئے ہیں۔

کیا نواز شریف صرف ان کے مطالبے پر ہی استعفیٰ دے دیں گے؟ اگر نواز شریف استعفیٰ نہیں دیتے تو حکومت کیسے گرائی جائے گی؟ متبادل حکومت کس کی ہو گی اور کیسے آئے گی؟ اس بارے میں ان کی قیادت کو کچھ یقین دہانیاں ہوں تو ہوں، کارکنان کو بالکل علم نہیں تھا، پھر بھی وہ ڈٹے ہوئے تھے۔

بعض اوقات ہمیں ان کے عزم اور قیادت کے ساتھ وابستگی پر حیرت بھی ہوتی۔ طاہر القادری کے کنٹینر کے گرد جو پہلا حفاظتی دستہ تھا، وہ خواتین کا تھا۔ ہمیں اس کی منطق سمجھ نہ آتی۔ مرد محافظوں کی موجودگی میں خواتین کا حفاظتی دستہ کیوں؟ یہی سوال خواتین کارکنان سے پوچھ بیٹھے تو برہم ہو گئیں۔ کہنے لگیں وہ طاہر القادری کو اپنے والد کی طرح سمجھتی ہیں اور والد کی حفاظت اولاد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اکثر دیکھا کہ طاہر القادری نے کنٹینر کا دروازہ کھولا تو سب۔ قبلہ آ گئے قبلہ آ گئے۔ کہتی تڑپ کر کھڑی ہو گئیں۔

ہمیں ادارے نے کوریج کے لیے بھیجا تھا۔ اس کام کی تنخواہ بھی مل رہی تھی، پھر ہماری رہائش اور کھانے پینے کا بھی بہت مناسب انتظام تھا۔ اس کے باوجود تنگ پڑ گئے تھے۔ لیکن عوامی تحریک والے مطمئن رہتے۔ ایک بار تیز بارش ہوئی، ٹینٹ اکھڑ گئے۔ سوچا آج تو تفکر کا کوئی جملہ ان کے منہ سے نکلے گا۔ لیکن وہ صابن مل کر بارش کے پانی سے نہانے لگے۔

ایک روز دیکھا تحریک انصاف کے کچھ کارکن جیو نیوز کے رپورٹر پر پل پڑے ہیں۔ ان دنوں یہ جماعت جیو نیوز سے ناراض تھی۔ بیچ بچاؤ کے بعد رپورٹر صاحب اپنی راہ کو ہوئے تو ہم نے ایک حملہ آور کارکن کو جا پکڑا۔ پوچھا بھائی آپ کیا کر رہے تھے اور کیوں کر رہے تھے؟ کہنے لگا، ام نے دیکھا کہ جیو کا رپورٹر ہے، بس ام نے اس کے کیمرے کا تاریں ماریں پکڑ کر کھینچ دیا۔

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments