ریاست کے یتیم


\"ali

پچھلے دنوں میرے لکھے کسی معاشرتی نوحے پر ایک قاری نے اپنے تبصرے میں لکھا تھا ’یتیم رونے کا عادی ہوچکا ہے‘۔ میں نے پوچھا بھی کہ یہ خوبصورت محاورہ کس زبان کا ہو سکتا ہے مگر میرے مہر بان نے پلٹ کر جواب ہی نہیں دیا۔ خیر زبان کوئی بھی ہو بات سمجھ آگئی ہے کیونکہ محاورہ اسی معاشرے پر صادق آتا ہے جہاں ریاست کے کئی یتیم ہیں جن کا رونا کسی پر اثر نہیں کرتا اور ہم سب سمجھتے ہیں کہ اب یہ سارے یتیم رونے کے عادی ہو چکے ہیں۔

اس کی ایک جھلک مجھے نظر آتی ہے جب میں اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے سے گذرتا ہوں تو سبزہ زار پر کسی نہ کسی کو احتجاج کرتے دیکھتا ہوں جن کا ذکر کسی اخبار یا میڈیا کے چینل پر کبھی نہیں ہوتا ہے۔ یہاں احتجاج کرنے والے ملک کے کونے کونے سے اس لئے آتے ہیں کہ یہ شہر ملک کا دارالخلافہ ہے یہاں ملک کے حاکم رہتے ہیں جن سے ان کو امید ہے کہ ان کی آواز سنیں گے۔ پریس کلب کے باہر وہ اس لئے آتے ہیں کہ اس عمارت کے اندر آزاد میڈیا اور پریس کے وہ نمائندے بیٹھے ہوتے ہیں جو کسی نامعلوم پاگل سکندر کو چند لمحوں میں ہیرو بنا دیتے ہیں اور کسی کتے یا بلی کے نالی میں پھنس جانے کی خبر پوری دنیا میں پھیلا دیتے ہیں۔ مگر کئی کئی دن تک یہاں بھوکے پیاسے بیٹھنے کے باوجود ان کی نہ حاکم وقت سنتا ہے اور نہ آزاد میڈیا اور پریس میں ان کی شنوائی ہوتی ہے، کیونکہ سبھی کا خیال ہے کہ یہ وہ یتیم ہیں جن کو رونے کی عادت ہوگئی ہے کیونکہ یہاں یہ تماشا روز ہو تا ہے۔

کوئٹہ میں ستر سے زیادہ وکیل مارے گئے اور اب کسی کو یاد بھی نہیں کہ وکلاء کی ایک پوری پود ختم ہو گئی ہے۔ چند دنوں کے بعد سب معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ اب شاید ستر وکیلوں کے مرنے کی خبر بھی ہمیں چونکا نہ سکے کیونکہ اسی شہر میں چند دن بعد خواتین کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ چیک کرکے مار دیا گیا تو یہ پاکستان کے میڈیا میں شام کو چار نمبر کی سرخی تھی۔ خیبر پختونخواہ میں دس پندرہ لوگوں کا مرنا، قبائلی علاقے میں کسی کانوائے پر سڑک کنارے نصب بم پھٹ جا نا ایک معمول کی بات ہے کیونکہ اب ہمارے خیال میں ان علاقوں میں موت ایسے ہی آتی ہے۔ شاید چند سالوں بعد کسی کے نصیب میں اگر طبعی موت ہو تو وہ خبر بن جائے۔

گڈانی میں ایک بحری جہاز کے توڑنے کے دوران ہونے والے دھماکے میں درجنوں مزدور ہلاک ہوگئے تو اس دن ہمارا میڈیا بنی گالہ کی پہاڑی کے دامن میں عمران خان کے پش اپس دکھانے میں مصروف تھا اور ثابت کر رہا تھا کہ خان صاحب کیسے تریسٹھ سال کی عمر میں نوجوانوں سے زیادہ پھرتیلا ہے لہذا وزارت اعظمیٰ کے لئے وہی موزوں امید وار ہے۔ جب تک گڈانی سلا مت ہے وہاں سے تو ایسی خبریں آتی ہی رہیں گی، خان صاحب نے کونسا روز روز سب کے سامنے ایسے کرتب دکھانے ہیں۔ یہاں جلنے والے مزدوروں کی خبریں اگر کسی اخبار میں چھپیں یا کسی چینل میں دکھائی بھی جائیں تو ہم نے کونسا پڑھا یا دیکھا کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ مزدوروں کا اسی طرح جلنا اور مرنا ایک عام سی بات ہے اور یہ اسی طرح کے حادثات کے عادی ہیں۔ پھر بلوچستان کی بات ہی اور ہے جہاں سے غیب ہونے اور مردہ پائے جانے والے بھی ابھی خبر نہیں بنتے تو ایسے حادثات کیا معنی رکھتے ہیں۔

مختارا مائی کے ساتھ جنسی درندگی ہوئی تو دنیا نے ان سے ہمدردی کا اظہار کیا لیکن جب پاکستان کے صدر اور اسلامی دنیا کی سب سے طاقتور فوج کے سربراہ سے پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ ایسی باتوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے کیونکہ پاکستان میں لوگ یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں پناہ لینے کے لئے بھی ایسی ڈرامے کرتے رہتے ہیں۔ چلیے وہ تو پرانی بات ہے ابھی گزشتہ دنوں قصور اور سوات سے جو خبریں آرہی تھی وہ کس کو یاد رہیں۔ کسی میڈیا کے چینل یا کسی پریس کے نمائندے نے دوبارہ پلٹ کر پوچھا کہ اس کے بعد کیا ہوا؟ نہیں کیونکہ ہم سب اس بات سے متفق ہیں کہ قصور اور سوات کے معصوم بچے بھی ایسے ہی یتیم ہیں جو رونے کے عادی ہوچکے ہیں۔

ایک ہیجڑے کو صرف اس لئے قتل کیا گیا کہ اس نے شراب اور طاقت کے نشے میں دھت ایک عزت دار کی من مانیوں کو ماننے سے انکار کیا کیا تھا۔ اسی طرح کسی جاگیر دار کی شادی میں ناچنے کے لئے بلائی گئی ایک طوائف کی عزت کو بھی رات کے اندھیرے میں تار تار کیا گیا۔ جب ان کی رپورٹ درج کرانے کی کوشش کی گئی تو تھانے میں بیٹھے ریاستی مشینری کے آلہ کار تھانیدار نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ تھانیدار جس کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے کی وہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرے ان کے نزدیک ہیجڑے کی جان اور طوائف جیسے گنہگاروں کی عزت کی کوئی وقعت نہیں۔ ایک دوست جو عورتوں پر تشدد کے موضوع پر تحقیق کر رہے تھے کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک نیم قبائلی علاقے کے تھانے میں عورتوں پر تشدد کے حوالے سے پوچھا تو تھانیدار نے کہا کہ رپورٹ تو کسی قیمتی چیز مثلاً گائے، بیل بکری کے چوری کی درج ہوتی ہے عورت پر تشدد یا اس کے مارے جانے پر نہیں۔ ایسے کیس خاندان والے خود ہی سنبھالتے ہیں پولیس تک آنے نہیں دیتے۔ ایک قبائلی عورت، ایک شہری طوائف اور ایک ہیجڑہ سب ریاست کے وہ یتیم ہیں جو رونے کے عادی ہیں ان کا مارے جانا اب کسی کو چونکاتا نہیں ہے۔

سڑکوں پر بھیک مانگتے، گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے، کھلونے اور پھول بیچتے بچے سب کسی کو متوجہ نہیں کرتے کہ ان کا کسی سکول میں نہ ہونا ایک معاشرتی جرم ہے جس کا ارتکاب ان کے والدین، حکومت یا کوئی اور کر رہا ہے۔ ان میں سے کئی بچے بڑے معزز کہلانے والے لوگوں کے گھروں میں کام بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھار ہم ان پر تشدد کے واقعات بھی سنتے ہیں۔ مگر یہ بچے بھی ہمیں متوجہ نہیں کرتے کیونکہ یہ بھی ریاست کے وہ یتیم ہیں جو اب رونے کے عادی ہو چکے ہیں لہذا ان کے انسوؤں پر توجہ نہ دی جاتی۔

سردی کی ٹھٹھرتی لمبی راتیں کھانس کھانس کر بغیر دوا کے موت کا انتظار کرتے بزرگ، ہمارے چوراہوں پر کھڑی ثنا خواہان تہذیب مشرق اور غیرت مندان دیں و ملت سے منہ چھپائے کھڑی حوا کی بیٹیاں، اپنے گردے بھی امرا ء کو بیچ کر اپنے اکلوتے بیٹے کو سمندر پار بھیج کر پھر اس کی لاش وصول کرنے والے غرباء، کسی بم دھماکے کے بعد ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں ٹٹول ٹٹول کے اپنے لخت جگروں کی لاشیں ڈھونڈنے والے بوڑھے ماں باپ، نشے کی لت میں مرنے کے بعد بغیر قبروں کے کتوں کی خوراک بننے والے نوجوان سب وہ یتیم ہیں جن کے آنسو اب ہمیں متوجہ نہیں کرتے کیونکہ ہمارا معاشرہ ایک بے حس اجتماعی یتیم خانہ بن چکا ہے جہاں دراصل ہر یتیم اب رونے کا عادی ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments