سادہ سے معصوم مریدوں کی عقیدت اور پیر صاحب



ان دنوں سوشل میڈیہ پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک نوجوان پیر صاحب پلنگ پر بیٹھے ہوئے اپنے فون پر مگن ہیں اور مریدین سامنے فرش پر دری پر بیٹھے ہیں۔ مریدین ان کو نذرانے دے رہے ہیں اور وہ نوٹوں کو بڑی نخوت سے ہاتھ لگا نیچے پھینک رہے ہیں۔ اتنے تفاخرانہ لور تکبر انہ انداز دیکھ کر بہت ہی دکھ بھی ہوا اور افسوس بھی کہ اس تعلیم یافتہ دور اور اتنا وقت گزرنے کے باوجود ابھی بھی ہم نہیں بدلے۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر یادوں کے دریچے سے بہت سی پرانی یادیں بھی در آئیں۔

میں بھی ایک بڑی گدی والے پیر صاحب کا چشم وچراغ ہوں۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ والد صاحب کا جوانی کا زیادہ وقت دہلی میں گزرا تھا جہاں انہوں نے حکمت سیکھی۔ اپنے وقت کے بڑے حکما میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ گدی کے زیادہ تر معاملات میرے چچا دیکھتے تھے۔ اور اکثر مریدین کے ہاں بھی انھی کا آنا جانا رہتا تھا۔ والد صاحب پیری مریدی کی بجائے حکمت کے کام پر زیادہ وقت صرف کرتے تھے لیکن پھر بھی مریدین میرے والد کو زیادہ مانتے تھے۔

میری تربیت میں میری والدہ محترمہ کا زیادہ ہاتھ ہے۔ انہوں نے مجھے اس زمانے کے دستور کے مطابق درس میں ڈالنے کی بجائے انگریزی سکول میں داخل کروایا۔ ستر کی دیہائی کے پہلے سال تھے میں ایف ایس سی کا طالب علم تھا۔ اس وقت کے رواج کے مطابق کافی لمبے لمبے بال رکھے ہوئے تھے۔ کالج ہمارے گاؤں سے کچھ فاصلے پر تھا اس لئے روزانہ گھر واپس آ جاتے تھے۔ ایک دن رحیم یار خان سے دو مریدین آئے۔ ان کی بیٹی کی شادی تھی اور وہ پیر صاحب کو لینے آئے تھے۔

چچا صاحب گھر پر نہیں تھے اس لئے انھوں نے والد صاحب کو ساتھ چلنے کہ کہا۔ والد صاحب کی طبیعت خراب تھی اس لئے وہ اتنا لمبا سفر کرنے کے قابل نہیں تھے۔ اب انہوں نے کہا کہ صاحبزادہ صاحب کو بھیج دیں۔ والدہ مجھے اکیلے بھیجنے پر راضی نہیں تھیں لیکن مریدین نے اتنا اصرار کیا کہ مجھے جانا ہی پڑا۔ گھر سے چلتے وقت والدہ نے کافی ساری نصیحتیں کیں جوحسب معمول میں نے پلے باندھ لیں۔

رحیم یار خان ریلوے سٹیشن سے دو تین سٹیشن پہلے ایک ریلوے سٹیشن پر ہم اترے۔ اس کے قریب ہی کوئی گاؤں تھا۔ ہم سہ پہر کو ریلوے سٹیشن سے تانگے پر گاؤں پہنچے تو پورے گاؤں میں شور مچ گیا کہ میاں احمد دین کے گھر بڑے پیر صاحب کے فرزندآ ئے ہیں۔ میاں صاحب نے اپنے آنگن میں ایک بڑا پلنگ بچھایا اس پر بستر اور سفید چادر بچھائی اور مجھے اس پر بٹھا دیا۔ پلنگ کے سامنے انہوں نے دریاں بچھا دیں۔ عورتیں اور مرد آتے مجھ سے جھک کر ملتے اور دری پر بیٹھ جاتے۔ مجھے بہت شرم آ رہی تھی اس طرح بیٹھ کر کیونکہ والدہ نے مجھے ہمیشہ بزرگوں کی عزت کرنا ہی سکھایا تھا اور میرے سامنے کئی بزرگ نیچے بیٹھے تھے۔

آخر مجھ سے نہ رہا گیا تو میں پلنگ سے اٹھا اور ایک بزرگ کے ساتھ دری پر بیٹھنے لگا تو سب لوگ اٹھ گئے اور مجھے پلنگ پر بیٹھنے کہ کہا۔ لیکن میں اصرار کر کے ان کے درمیان بیٹھ گیا۔ میں نے حضور صلعم کی حیات طیبہ پر کچھ بات کی۔ رات کو انہوں نے میرے لئے بڑا اچھا بستر لگایا۔ خاتون خانہ اپنی بیٹی جس کی شادی تھی کو میرے پاس لائیں کہ اس کے لئے دعا کریں اور اس کہا کہ پیر صاحب تھکے ہوئے ہیں ان کو دباؤ۔ میں نے فوراً اسے منع کیا اور اسے جانے لئے کہا۔ خیر شادی کے دوتین دن گزار کر میں جب واپس آنے لگا تو اتنا پروٹوکول دیکھ کر دل میں بڑا ملال ہوا کہ یہ کتنے معصوم اور پیارے لوگ ہیں لیکن ہم انہیں کس بیدردی سے لوٹتے ہیں ان کو تعلیم کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ اندھی تقلید تعلیم یافتہ ہو نے کے باوجود ان کو نہیں روک سکی ہے۔

اس کے فوراً بعد میں انگلینڈ چلا گیا۔ والدین اس دوران اللہ کو پیارے ہو گئے۔ گدی کے معاملات پہلے ہی چچا نے سنبھال رکھے تھے اس لئے مجھے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ میرے کزن اس کے مالک اور کرتا دھرتا بن گئے۔ کافی عرصہ بعد ایک دفعہ بچوں کو لے کر پاکستان آیا۔ ایک دن چچا کے پاس بیٹھا تھا کہ والد صاحب کے بڑے معتقد ایک مرید ملنے آئے۔ مجھے مل کر بہت خوش ہوئے اور اپنے گھر چلنے پر اصرار کیا۔ چچا نے بھی جانے کہ کہا تو میں نے ہاں کر دی۔

دوسرے دن اپنے بچوں کو لے کر میں ان کے گاؤں گیا جو کافی دور تھا۔ اتنا وقت گزرنے کے باوجود وہ گاؤں کے مکان زیادہ تر کچے تھے۔ ان کے گھر پہنچے انہوں نے لنچ کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ بچوں کے لئے گاؤں کا سفر ایک ایڈوانچر تھا۔ ایک بوڑھی سی خاتون ان کے گھر آئیں۔ وہ بھی ہماری گدی کی مرید تھیں۔ جب ان کو پتہ چلا کہ میں ان کے بڑے پیر صاحب کا صاحبزادہ ہوں اور باہر کے ملک سے آیا ہوں نو انہوں نے بڑے پیار سے مجھے گلے لگایا میرے گال چومے اور والد بزرگوار کو یاد کر کے رو پڑیں۔

اصرار کیا کہ میں ان کے گھر ضرور آؤں۔ میں اس خاتون کے ساتھ ان کے گھر چلا گیا۔ دو کمروں کا کچا سامکان تھا جس کے آگے چاردیواری ندارد۔ صحن میں دو تین بچے کھیل رہے تھے پاؤں سے ننگے۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو کہ ایک دیہاڑی دار مزدور تھا۔ بہو کے چہرے پر چھائی پژمردگی ان کے حالات کی غمازی کر رہی تھی۔ خاتون مجھے اپنے گھر میں پا کر بہت خوش تھیں۔ انہوں نے دودھ کا گلاس دیا جو میں نہ چاہتے ہوئے بھی پی گیا۔

اس کے بعد وہ میرے پاس زمین پر بیٹھیں تو میں نے انھیں اٹھا کر اپنے پاس بٹھایا۔ انہوں نے اپنے ملگجے سے دوپٹے کے ایک کونے کی گانٹھیں کھولنا شروع کیں اور اس میں سے ایک مڑا تڑا پچاس روپے کا نوٹ نکالا اور مجھے پیش کیا۔ میں نے انکار کیا تو ان کی آنکھ سے آنسو نکل پڑے کہ شاید یہ کم ہیں تو میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ نوٹ ان سے لے لیا اور ان سے رخصت لے کر واپس اپنے بچوں کے پاس آیا۔ اپنی بیوی کو کا فی سارے بڑے نوٹ نکال کر دیے اور کہا کہ اس گھر کی خاتون کو ساتھ لے جاؤ اور اس بوڑھی خاتون کے گھر اس کے بچوں کے بہانے اس کو دے آؤ۔ آج تیس سال بعد بھی وہ پچاس کا نوٹ میں نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور میں اس خاندان کی گاہے بگاہے اب بھی مدد کرتا رہتا ہوں۔

تین چار برس پہلے اللہ تعالی نے اپنے گھر بلایا۔ حج کی سعادت حاصل کی۔ حج سے کچھ دن پہلے مکہ میں اتفاقا گاؤں کے ایک آدمی سے ملاقات ہو گئی جو وہاں پر ٹیکسی چلاتا ہے۔ بعد میں اس نے دو تین دفعہ ہمیں ڈھونڈ کر ملاقات کی۔ وہاں ایک دن ایسے ہی بیٹھے ہوئے اس نے باتوں باتوں میں بتایا کہ مرشد پاک یعنی میرے کزن نے اس دفعہ بڑے مہنگے فون کی فرمائش کی ہے۔ میں نے پوچھا کتنے کا آئے گا تو اس جو قیمت بتائی وہ اس کی تین ماہ کی تنخواہ کے برابر تھی۔

میں نے کہا بھائی کوئی سستا سا فون بھیج دو تو کہنے لگا کہ مرشد پاک کا حکم ہے کیونکر ٹال سکتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے کسی دوست کو اپنے پرانے نوکیاسیٹ سے فون کرنے لگا۔ اتنی گرمی جب درجہ حرارت پچاس ڈگری تک ہو میں نے حرم شریف جاتے ہوئے لوگوں کو عمارتوں پر رنگ کرتے دیکھا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور بیچارے دن رات ٹیکسی چلا کر بھی قرض نہ اتار سکیں ایسے لوگوں نئے ماڈل کا مہنگا فون کیسے خرید سکتے ہیں۔ میں اس لڑکے کے مرشد پاک کو جو میرا کزن بھی ہے، کو اچھی طرح جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔

مجھے بعض اوقات ان معصوم اور سادہ لوگوں پر ترس بھی آتا ہے اور ان کی جہالت پر غصہ بھی آتا ہے۔ لیکن یہ ایک اتنا حساس مو ضوع ہے جس پر بات کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کب کوئی کفر کا فتوا لگا دے۔ یقینا ہندوستان میں اسلام ہمارے بزرگان دین کی وجہ سے پھیلا ہے۔ وہ عرب اور مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے یہاں ہندو اکثریت کی آبادی میں آباد ہوئے۔ اور اپنی زندگی مکمل اسلامی طرز حیات اور اسلامی شعائر کے مطابق گزاری۔

ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ وہ اپنی ذات سے بے نیاز تھے۔ ان گنت نام ہیں اگر لکھنے بیٹھ جا ئیں تو کئی کتابیں لکھی جائیں لیکن ہم نے ان کی تعلیمات پرعمل کرنے کی بجائے دوسرے خرافات میں الجھ گئے۔ اللہ ہمیں سیدھے رستے پر چلنے کی ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ اور اس جیسے نوجوان پیر صاحب کو اپنے مریدین سے خسن سلوک کرنے کی عقل عطا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments