وزیر اعظم کے بچوں کو پیر تک آخری موقع :جواب جمع نہ کرایا تو الزاماتتسلیم کرلیں گے:سپریم کورٹ


\"supreme-court\"

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ٹیرنس جے سگمونی + دی نیشن رپورٹ + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کی سماعت کے دوران وزیراعظم محمد نواز شریف کے بیٹوں اور بیٹی کو پیر تک آخری موقع دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنا جواب داخل کرائیں، بصورت دیگر یہ سمجھا جائے گا کہ ان کے پاس اپنے دفاع کے لئے پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس حوالے سے جواب نہ دیا گیا تو یہ سمجھا جائے گا کہ انہوں (مرد یاعورت) نے الزامات کو تسلیم کرلیا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کو جواب دینے کیلئے 15 دن دیئے گئے، قانون کے مطابق جواب جمع نہ کرایا گیا تو الزامات تسلیم کرلیں گے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، ایڈووکیٹ طارق اسد کی درخواستوں کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاملے کی عوامی اہمیت کے پیش نظر انہیں سنا جا سکتا ہے، ماضی کے عدالتی نظائر کی روشنی میں یہ درخواستیں قابل سماعت ہیں۔ عدالت نے کہا کہ وہ درخواست گزاروں کی طرف سے جمع ضابطہ کار کی پابند نہیں ہو گی۔ ٹرمز آف ریفرنس کا فیصلہ عدالت خود کرے گی۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ مجوزہ جوڈیشل کمیشن ایک رکنی ہو گا جو عدالت عظمیٰ کے حاضر سروس جج پر مشتمل ہو گا، اسے سپریم کورٹ کے اختیارات حاصل ہونگے۔ عدالت نے فریق بننے کے لئے اسد کھرل اور کوکب اقبال کی درخواستیں خارج کر دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کیخلاف پانامہ لیکس کی تحقیقات کرنے والے کمشن کا کسی جماعت کے ضوابط کار سے متفق ہونا ضروری نہیں ہوگا۔ وزیراعظم کی طرف سے ان کے وکیل نے وزیراعظم پر عائد تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ وزیراعظم نہ تو کسی آف شور کمپنی کے مالک ہیں نہ کسی آف شور کمپنی کا فائدہ انہیں پہنچ رہا ہے۔ سماعت کا آغاز ہوا تو عدالتی استفسار پر وکیل سلمان اسلم بٹ نے بتایا کہ انہوں نے وزیراعظم نوازشریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور کیپٹن (ر) صفدر کی طرف سے جواب جمع کرایا ہے۔ وزیراعظم کا موقف یہ ہے کہ وہ کسی آف شور کمپنی کے مالک ہیں نہ پارک لین لندن کی جائیداد کے۔ پانامہ پیپرز میں ان کا نام شامل نہیں۔ وہ باقاعدہ مستقل طور پر ٹیکس گزار شہری ہیں اور ہر سال باقاعدگی کے ساتھ ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ ٹیکس سٹیٹمنٹ جمع کراتے ہیں۔ ان کی جائیداد کی تمام تفصیل انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس ڈکلیئریشن کی صورت میں ایف بی آر کے پاس موجود ہے۔ انہوں نے کسی شخص کو اپنے زیرکفالت ظاہر نہیں کیا۔ عوامی نمائندگی اور دیگر مروجہ قوانین کے تحت ان کے تمام اثاثوں اور جائیداد الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ وزیراعظم نے الزامات کی تردید کی ہے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ وزیراعظم کے تین بچوں کے جواب کہاں ہیں تو سلمان بٹ نے مہلت کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ جواب جمع کرانے کے لئے ایک ہفتہ کا وقت دیا جائے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ ہمارا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اصل جواب بچوں کا ہو گا کہ ان کا آف شور کمپنیوں کے بارے میں کیا کہنا ہے۔ عدالتی استفسار پر سلمان بٹ نے بتایا کہ وزیراعظم کے دونوں بیٹے ملک سے باہر ہیں۔ ان سے رابطہ کر کے جواب جمع کرایا جائے گا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بیٹی تو ملک میں ہے۔ ان کا جواب تو جمع کرایا جاتا۔ کیا اگلے سال جواب جمع کرائیں گے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ بیٹی کے بارے میں الزام ہے کہ وزیراعظم نے انہیں اپنے زیرکفالت ظاہر کیا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم پر الزام ہے کہ جب ان کی بیٹی ان کے زیرکفالت تھی تب بھی وہ آف شور کمپنیوں کی حصہ دار تھی۔ یہ غلط ہے یا صحیح لیکن الزام ضرور ہے۔ سلمان بٹ نے بتایا کہ جس تاریخ کا الزام ہے کہ وہ زیرکفالت تھی اس وقت وہ زیرکفالت نہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں صرف یہ بتائیں کہ آپ وزیراعظم کے بیٹوں اور بیٹی کے جواب جمع کرانا چاہتے ہیں یا نہیں اگر کوئی شخص الزام کا جواب نہیں دیتا تو وہ الزامات تسلیم کر رہا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم نے جواب کے لئے دو بار وقت دیا تھا پھر جواب کیوں نہیں آیا۔ سلمان بٹ نے کہا کہ ہمیں 24 گھنٹے دیئے گئے تھے۔ اس میں بیشتر جواب جمع کرا دیئے گئے ہیں۔ جسٹس امیر ھانی مسلم نے کہا کہ آپ نے کیس کے قابل سماعت ہونے کا نکتہ اٹھایا ہے۔ سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ سماعت پر اعتراض نہیں لیکن عدالت خود قابل سماعت ہونے کا معاملہ دیکھے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتنے دن میں جواب جمع کرا سکتے ہیں تو سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ سات روز چاہئیں۔ چیف جسٹس نے فریقین سے استفسار کیا کہ کسی اور کو کیس کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے تو کوئی سامنے نہ آیا۔ عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیسوں کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ عدالت خود کرے۔ اس پر عدالت نے کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وکلاء مجوزہ کمیشن کی کارروائی کو ریگولیٹ کرنے کے لیے تجاویز لے کر آئے ہیں تو جمع کرا دیں اس کے بعد کمیشن تشکیل دیا جائے گا ایک رکنی کمیشن ہوگا جو سپریم کورٹ کے جج پر مشتمل ہو گا۔تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے کہا تھا کہ اگر دو روز میں جواب نہ آئے تو الزامات درست تصور ہوں گے۔انہیں جواب جمع کرانے کے لیے مزید وقت نہیں دیا جائے ان لوگوں نے جواب جمع نہ کراکر الزامات تسلیم کر لیے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سخت فیصلہ ہوگا حامد خان نے کہا کہ ٹرمز آف ریفرنس آنے کے بعد کمشن تشکیل دیا جائے تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا جس طرح عدالتی کاروائی کو رپورٹ کر رہا ہے وہ خطرناک ہے اگر ہم نیک نیتی سے بھی کوئی بات کرتے ہیں تو میڈیا میں نئی بحث چھڑ جاتی ہے اب تو یہ نوبت آئی ہے کہ میڈیا میں ننگی گالیاں دی جاتی ہیں پیر تک جواب جمع کرنے کی مہلت دیتے ہیں لیکن ٹرمز آف ریفرنس آج ہی جمع کرائیں۔ طارق اسد نے کہا کہ یہ معاملہ دو سیاسی جماعتوں کے درمیان نہیں بلکہ عوامی نوعیت کا ہے، عوام کے موقف کو سنا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ غلط تاثر لے رہے ہیں آپ کو سنا جائے گا شیخ رشید نے کہا کہ ملک کا عدلیہ پر اعتماد ہے میڈیا کی پرواہ نہ کریں جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ میڈیا پر تو آپ آتے ہیں۔ شیخ رشید نے کہا کہ 2013ء کے اثاثوں کی ڈکلیئریشن میں وزیراعظم نے مریم نواز کوکفالت میں ظاہر کیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک رکنی کمشن کے قیام کے لئے حکم جاری کریں گے، کمشن بااختیار ہوگا جو معاملے کی تحقیقات کرے گا،کمشن سپریم کورٹ کے جج پر مشتمل ہوگا، تمام فریقین کمشن کے کام کے طریقہ کار سے متعلق تجاویز جمع کرائیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ وزیر اعظم کے بچوں کے جواب کیوں نہیں جمع کرائے گئے، آپ ہمارا وقت ضائع کر رہے ہیں، 15 دن کا وقت دیا گیا تھا، اصل فریق کا جواب تو آیا نہیں، لکھ کردیں مریم نواز میری کفالت میں نہیں۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ قانون کے مطابق اگر جواب جمع نہ کرایا تو الزامات تسلیم کرلیں گے۔ وزہراعظم کے وکیل نے جواب کیلئے ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کو دو بار مہلت دے چکے ہیں آپ بتائیں کیا آپ جواب جمع کرانا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے استدعا مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم کے بچوں کو پیر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔ کیس کی سماعت پیر کی صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی گئی۔ سماعت کے موقع پر حکومت کی نمائندگی کرنے کیلئے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما وفاقی وزیر خواجہ آصف اور دانیال عزیز‘ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید‘ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان‘ شیریں مزاری‘ شاہ محمود قریشی اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سپریم کورٹ میں موجود تھے۔
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم میاں نواز شریف، کیپٹن صفدر(ر)، اسحاق ڈار نے اپنے جواب جبکہ تحریک انصاف، جماعت اسلامی، شیخ رشید احمد نے ٹرمز آف ریفرنس(ٹی او آرز) جمع کروادیئے ہیں ۔وزیراعظم کے جواب میں کہا گیا ہے کہ بہتر ہے کسی آف شور کمپنی کا مالک نہیں ہوں ، پانامہ پیپر میں میرا نام نہیں ۔ لندن میں بتائی جانے والی 5جائیدادوں فلیٹس میں سے کسی کا بھی مالک نہیں نہ ہی پانامہ پیپرز میں نام آیا ہے ، میں قانون کے مطابق باقاعدہ انکم اور ویلتھ ٹیکس ادا کرتا ہوں انکم ٹیکس اور اس پر عائد ہونے والی ڈیوٹی بھی جمع کرائی ہے ، جواب میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے عام انتخابات2013سے قبل الیکشن کمیشن میں اپنے تمام اثاثے ظاہر کیئے تھے ،اس وقت تینوں بچوں میں سے کوئی بھی ان کے زیر کفالت نہیں ہے ، میں آئین کے آرٹیکل 62،63کے تحت سب کچھ ظاہر کیا ہے ۔ اپنے جواب میںوفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے لگنے والے الزامات پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے درخواست میں میرے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں،درخواست میں میرے مبینہ بیان حلفی کوبنیاد بنایا گیا ہے،پرویزمشرف کے دور میں مجھ سے بیان حلفی زبردستی لکھوایا گیا تھا، میں نے نہ اپنے اثاثے چھپائے اور نہ ہی کسی آف شور کمپنی سے تعلق ہے،کسی بھی منی لانڈرنگ میں ملوث نہیں ہوں۔ لاہور ہائیکورٹ میرے بیان حلفی کو ناقابل قبول قراردے چکی ہے،میں کسی منی لانڈرنگ میں ملوث نہیں ہوں ۔تحریک انصاف نے 17نکات پر مشتمل ٹی او آرز میں کہا کہ پانامہ پیپرز میں آنے والے ناموں ان کے خاندان کے افراد کے حوالے سے انکوائری کمیشن تحقیقات کرے ، اثاثے اور پراپرٹیز کا ریکارڈ چیک کرے اس کا جائزہ لے ، جس کا نام پانامہ پیپرز میں آئے اس خاندان کے ہرفرد کے بینک اکائونٹس اندرون ملک اور بیرون ملک ، ویلتھ ٹیکس ، انکم ٹیکس کے گوشورے کا جائزہ لیا جائے، بینک ٹرانزیکشن ، خریدی گئی پراپرٹی کا ریکارڈ طلب کرے ۔بینک میں پڑے فنڈز پر پرافٹ ، ڈی وی ڈنٹ چیک کیئے جائیں سالانہ کے حساب سے ، دہشت گردی کی مد میں کتنے فنڈز آئے مصرف کیا ہوا کتنا عرصہ بینک میں رہے کیا پرافٹ ہوا اور وہ کدھر گیا ، کمپنیوں میں لگائے گئے سرمائے، سیل پرچیز کا ریکارڈ ، ایگرمنٹ طلب کیئے جائیں، کمیشن متعلقہ ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے جو آف شورز کمپنیوں کا آڈٹ بھی کرے اور رپورٹ کمیشن کو پیش کرے ۔ سرمائے کی اس وقت مارکیٹ ویلو کیا تھی ؟1985سے 2016 تک ریکارڈ مرتب کرے اس کے تناظر میں معاملے کو دیکھا جائے۔ آف شور کمپنیوں میں ملوث فرد نے اس دوران ٹیکس گوشوارے جو جمع کروائے وہ کیا تھے اور اس کا بینک بیلنس کیا تھا ، پاکستانی حکومت اور بیرون ملک ہونے والے معاہدوں کی قانونی حیثیت کو دیکھا جائے، سال وائز دیکھا جائے کہ پراپرٹی کس کی ملکیت تھی اس کے نام کب ہوئی اور کب اس کے نام سے کسی اور کو منتقل ہوگئی ، الیکشن کمیشن میں اس وقت جمع کرائے گئے گوشواروں میں کیا ظاہر کیا اور کیا چھپایا گیا موازنہ کرکے کمیٹی رپورٹ کمیشن کو دے ، جرم ثابت ہونے پر ہر فرد کے خلاف الگ دیوانی فوجداری مقدمہ قائم کیا جائے اس کی جائیداد بحق سرکار ضبط کی جائے عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا جائے ۔ جماعت اسلامی نے اپنے تین نکاتی ٹی او آرز میں کہا ہے کہ کمیشن سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی نگرانی میں قائم کیا جائے تمام متعلقہ ادارے معاونت کے پابند ہوں اختیارات سپریم کورٹ کے برابر ہوں ، رپورٹ حکومت کو نہیں سپریم کورٹ کو دی جائے، کمیشن کی رپورٹ دینے کا ٹائم فریم ہونا چاہئے۔ جماعت اسلامی نے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی کمشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے دستور کی سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط فوجداری ضابطہ دیوانی کے تحت نام عدالتیں اختیارات ہونگے کارروائی عوام کیلئے اوپن ہونی چاہئے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے 7نکات پر مشتمل ٹی او آرز جمع کروائے ہیں جن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جن افراد کے نام آف شور کمپنیوں میں آئے ہیں ان کے خاندان بیٹوں بیٹیوں سے جواب طلب کیا جائے۔ان سے1985 سے 2016 تک جائیداد ، اثاثوں کی ملکیت ، ٹیکس کا ریکارڈطلب کیا جائے ۔رقم کا سورس طلب کیا جائے۔ کمیشن ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے جو متعلقہ ماہرین پر مشتمل ہو بیرون ملک بھی جاسکے ، ریکارڈ اکھٹا کرسکے ، چیک کرسکے، انکوائری کمیشن کو سی آر پی سی استعمال کرنے کے اختیارات حاصل ہونا چاہیں ، اگر کوئی رزکارانہ طور پر خود کو احتساب کے لیئے پیش کرے اور سرمایہ واپس کرے تو اسے پہلے کلیر کردینا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments