وصل خداوند میں انسانی سسکیوں کی باز گشت



آج مسیحی تہوار ایسٹر کے اتوار کی صبح ہے۔ ہمارے دریچے سے باہر بہار کے پھول کھلے ہیں اور درون دل دریچہ وا کریں تو بہت سی صلیبیں ہیں جن کی ستم خیز لکڑی انسانیت کے خون ناحق سے تر بہ تر نظر آتی ہے۔ مارچ اور اپریل کے درمیان پورے چاند کے بعد پہلا اتوار ایسٹر کا دن ہوتا ہے۔ یہ حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع الی اللہ کا دن ہے جو تمام انسانیت کے لئے مادی دنیا کے بندھنوں سے ماورا ایک الوہی سکون کا استعارہ ہے۔

زیست کرنے کی راہ میں انسانوں کے لئے سکھ چین کے متلاشی بہت سی راہوں کے تجربات کر چکے ہیں اورکرتے رہیں گے اور اس کی گفتگو بھی چلتی رہے گی مگر آج دل میں حضرت یسوح مسیح کی آیت مبارکہ یاد آئی کہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود کبھی گناہ نہ کیا ہو۔ ہمیں اس بات پر یقین کامل ہے کہ اگر حضرت مسیح نے پوری زندگی میں صرف یہی ایک تعلیم دی ہوتی تو یہ اکیلی تعلیم ان کی حیات جاوداں کے لئے بہت کافی تھی اور وہ تمام انسان جو اس تعلیم پر عمل پیرا ہوں گے، رفعت درجات ان کا بھی مقدر ٹھہرے گی۔

آج پورے چاند کی رات کے بعد ایسٹر والے اتوار کو حضرت مسیح کے وصل خداند کی خوشی میں گاتی گرجا گھر کی گھنٹیوں میں ابھی تک ان کی پچھلے جمعہ والے دن کی سسکیوں کی افسردہ بازگشت بھی شامل ہے جب انہوں دعا کی تھی کہ اے خدا یہ زہر کا پیالہ مجھ سے ٹال دے۔ ایلی ایلی لما سبقت نی۔ اے خدا تو نے مجھے چھوڑ کیوں دیا؟

حضرت مسیح صرف ایک دفعہ مصلوب ہوئے اور ہمارے شہر، گلیاں محلے ہیں کہ جہاں انسانیت روز مصلوب ہوتی ہے اور اس کے درد کا درماں کہیں نہیں ہے۔ اس کے لئے کبھی آنسو خیرات ہوتے ہیں اور کبھی معمولی مقدار میں مادی وسائل مگر عجیب منطق ہے کہ قتل و غارت گری کا سامان بہم کرنے کے لئے مادی وسائل اس سے کہیں بڑھ کر خرچ کیے جاتے ہیں اور عام انسان کو جاہل رکھنے کے لئے بھی۔ یہ ایک تہذیبی المیہ ہے۔

زندگی کرنے کا سامان ایک بات ہے اور زندگی میں مادیت پرستی بالکل دوسری بات ہے جس کے لئے قرآن حکیم میں خسارے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور اس کے باوجود خواہش نفسی ہے کہ اس کی پیاس نہیں بجھتی۔ ہو نہ ہو یہ پیاس انسان کی سرشت میں شامل ہے جس کے لئے شیطان جیسے نادیدہ کردار وضع کر لئے گئے ہیں۔ گمان گزرتا ہے کہ شیطان کی ساری صفات انسان کے اندر موجود ہیں اور شیطان کا نام اندرونی شر کی نفسیاتی ”پروجیکشن“ Projection ہے تا کہ اس کا احساس گناہ کم ہو سکے کہ یہ انسان نہیں، کوئی اور ہے جو اسے بھٹکا تا رہتا ہے۔ یہاں خدائی مذہب کی بات نہیں ہو رہی، انسان کی بات ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ انسان نے مذہب کو اپنے ذاتی مفاد میں استعمال کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔

ہمارا تہذیبی ورثہ احساس گناہ کو کم کرنے، خوش رہنے اور زندگی کو قائم رکھنے کی شدید خواہش کے ساتھ وابستہ ہے۔ مذہب جو تمام انسانی معاملات میں در ریزی کا دعویٰ رکھتا ہے، یقیناً نفسیاتی صحت کے بارے میں بھی مختلف طرح سے حکمت کا درس دیتا رہتا ہے۔ بات تو اچھی ہے مگر زندگی دراصل تاریخ اور نفسیات کا ایک تانا بانا ہے جس کی دبیز تہیں بات کو تھوڑا سا الجھا دیتی ہیں۔ سگمنڈ فرا ئیڈ نے کہیں مشہور شاعر گوئٹے کا حوالہ دیا تھا۔ گوئٹے کہتا ہے کہ۔ جس کے پاس سائنس اور آرٹ ہے وہ مذہب کا راز بھی جانتا ہے اور جس کے پاس نہ سائنس ہے اور نہ ہی آرٹ، اس کے پاس کم سے کم مذہب کو رہنے دیا جائے۔

افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ مذاہب عالم کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے نہایت احترام کے باوجود ہمی٘ں گوئٹے کے خیالات کے ساتھ اختلاف کرنے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ انفرادی، سماجی اور تہذیبی اخلاقیا ت کے بہت سے درس ہمیں مذہب کی کتابوں میں تو ملتے ہیں مگر ان سب تعلیمات کے باوجود لوح حیات پر انسانوں کا عمل کیسا رہا، یہ ایک علیحدہ تکلیفف دہ داستان ہے اور لمبی ہے۔

یہ تو معلوم نہیں کہ وہ زمانہ کب آئے مگر کبھی نہ کبھی ذی شعور انسان کو زندہ رہنے کے دکھ کا مداوا کرنے کے لئے عقل سلیم کو بنیاد بنا کر سوچنا ہو گا کہ سماج کو مذہب کی بنیاد پر اٹھانے کا پچھلے پانچ ہزار سال کا تجربہ کیسا رہا ہے؟ کیا اس سے انسان کے حقیقی دکھ درد میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے؟ کیا اس سے انسان کی انسان سے محبت کے سوتے پھوٹے ہیں؟ مذہبی تعلیمات اس بنیادی اخلاقی اصول کو عملی سطح پر لاگو کرنے میں کس حد تک کارگر ہوئیں ہیں تا کہ ہر کوئی جھوٹ فریب سے دور رہے؟

مذہبی تعلیمات کی بنا پر انسان کے اندر کیا اور کتنی تبدیلی رونما ہوئی یا نہ ہوئی اس کا میزانیہ اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس کے باوجود ایک بات طے ہے کہ جزا سزا کے لالچ اور خوف کو خدا کے نام کے ساتھ اور دیگر ماورائے عقل رشتوں میں باندھ کر سماجی اچھائی برائی کے بہت سے تجربات ہوئے ہیں، کبھی انفرادی سطح پر اور کبھی سیاسی سطح پر۔ مصر کے پرانے پادریوں نے اپنی تعلیمات کو خداوں کے نام منسوب کیا۔ بادشاہ حمورابی کے قوانین خدا کے نام کے ساتھ معروف ہیں اور مشرق وسطی کے تمام مذاہب علم انسانیت کی سربلندی کے واسطے خدا کے نعرے کے ساتھ میدان میں آئے۔

یہ باتیں سماجی سیاست پر مذہب کا پرتو ہیں۔ سماجی سیاست کے سارے نظریات اور مذہب سے جڑی حسیات اس بات پر دلیل ہیں کہ انسان کبھی اکیلا نہیں ہو سکتا۔ انسان اکیلا بھی اپنے زمانے کے طور اقدار کے زیر اثر ہوتا ہے جن کے ذریعے اس کا سماج کے ساتھ سمبندھ ہوتا ہے۔ بات انفرادی اخلاقیات کی ہو یا مجموعی، ہمیں آج ایسٹر کے دن اس بات کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے کہ مذاہب عالم نے اخلاقیات کی بہت سی جہتیں ذہن انسانی پر وا کی ہیں جس کا ذکر مسیح علیہ السلام کے رفع اللہ کے حوالے سے پہلے بھی ہوا ہے۔ اور یہ بات بھی بجا ہے کہ ان سب کاوشات کا محور و مرکز انسان کا عمل ہے۔ مجموعی معاشرتی اور سیاسی اعمال کی بات کسی اور دن سہی، ایسٹر کے دن کی مناسبت سے بات کو انفرادی اعمال صالحہ تک رکھتے ہیں۔

ہمارے خیال میں کوئی بھی اور بات کہنے سے پیش تر اس سوال پہ نظر رکھنا اہم ہے کہ اخلاقیات کے سارے دعوے کے باوجود کیا یہ صرف مذہب ہی ہے جو کامیاب ہو سکتا ہے یا یہ کہ اخلاقیات کا جواز صرف مذہب میں ہی پنہاں ہے؟ ہمیں ایک پرانے امریکی انڈین بزرگ کی کہانی یاد آئی۔ سرخ فام انڈین سماج کی ساری کی ساری اساس فطرت، ہوا، چرند اور پرند ہیں۔ یہ بزرگ جنگل میں بیٹھے اپنے قبیلے کے ایک چھوٹے بچے کو کہانی سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیٹا اس ساری دنیا میں دو بھیڑیے ہیں جو ہر وقت آپس میں محو جنگ رہتے ہیں۔

بچے نے حیرت سے پوچھا، اچھا وہ کون ہیں؟ فرمانے لگے۔ ایک بھڑیے کا نام ہے، پیار، محبت اور اخلاق۔ اور دوسرے بھیڑیے کا نام ہے نفرت، حسد اور ظلم۔ بس ساری دنیا اور کاروبار زندگی ان دو بھیڑیوں کی آپس میں جنگ ہے۔ چھوٹا بچہ مبہوت جو یہ کہانی سن رہا تھا کچھ دیر خاموش سوچتا رہا اور پھر حیرانی سے پوچھتا ہے مگر اس لڑائی میں ہار جیت کس کی ہوتی ہے؟ بزرگ نے متانت سے جواب دیا، جیت اس کی، جسے پالنے پوسنے پر محنت زیادہ کرو گے اور جسے تم کھانا زیادہ کھلاؤ گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments