کائنات کو مسکرانے دو


چونکہ آج کل کرونا وائرس کا دور دورہ ہے۔ اسی لئے قریباً ہر کالم، خبر، تحقیق، ہدایات اور پیغامات چاروناچار اسی سے جا ملتے ہیں۔ آپ اس سے دور رہنے کی کوشش کریں تو یہ خود آپ کے خیالات میں آ کر آپ سے مخاطب ہونے لگتا ہے۔ آپ کچھ لکھنے بیٹھو تو خودہی زیب تحریر ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ میں آج کل بطور ایک بین الاقوامی طالبہ چین کے صوبے حنان میں زیر تعلیم رہتے ہوئے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے نظر بندی کی حالت میں ہوں۔

انٹرنیٹ ذرائع کے مطابق، حنان صوبہ، ملک چین کے وسط میں واقع ہے جس کا لفظی مطلب ”درمیانی زمین“ ہے۔ اس مقام کو چین میں تاریخی اور تہذیبی اہمیت حاصل ہے۔ 95 ملین سے زیادہ آبادی رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ مقام 3000 ہزار سال پرانی ثقافتی تاریخ کے علاوہ معاشی اور سیاسی اعتبار سے بھی تقریباً ایک ہزار سال پرانی تاریخ کا حامل ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہوتے ہوئے یہ سوچنا ہی محال تھا کہ چین جیسی سر زمین پر کبھی خاموشی اور ویرانی بھی ہو سکتی ہے۔

پھر اچانک جنوری 2020 کا سال کرونا وائرس کا شور اپنے ساتھ لایا اور دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔ دن رات سرگرم عمل رہنے والے دنیا کے تمام انسان، جن کو لگتا تھا دنیا انہی کے دم سے چل رہی ہے، ناکارہ ہو گئے۔ دنیا کے تمام انسانوں کی بالعموم اور بڑے ممالک کی بالخصوص یہ خوش فہمی کہ وہ دنیا کے لیے کام نہ کریں تو دنیا ختم ہو جائے گی۔ کائنات بے رنگ ہو جائے گی۔ انسان کا وجود نا پید ہو جائے گا۔ مگر ایسا تو کچھ نہیں ہوا۔

انسانی زندگی کے گھروں تک محدود ہو جانے کے باوجود کائنات کی خوبصورتی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ سورج آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ بہار اس باربھی پوری خوبصورتی کے ساتھ جلوہ گر ہوئی۔ میں چین کے جس جامعہ میں زیرِ تعلیم ہوں وہ صوبے کی خوبصورت جامعات میں شمار کی جاتی ہے۔ جب یہاں بہار اپنے پر پھیلاتی ہے تو اتنی قسم کے پھول کھلتے ہیں کہ آپ گننے لگیں تو صبح سے شام ہو جائے۔ رنگوں کا وہ حسین امتزاج نظر آتا ہے کہ قوس و قزح بھی مانند پڑ جائے۔

پرندوں کی چہچہاہٹ اور بہتی آبشاروں کا شور آپ کو اس دنیا کی فکروں سے آزاد کر دے۔ لیکن اس وائرس کی افتاد سے تو ان کی خوبصورتی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ بلکہ کائنات مزید پرسکون نظر آ رہی ہے۔ نیلے آسمان کے نکھار میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ بادنسیم بڑے ناز سے آپ کو چھو کر گزرتی ہے کہ اب اس کو آلودہ کرنی والی صنعات بند پڑی ہیں۔ پرندے اپنی خر مستیوں میں مصروف ہیں کہ انہیں انسانوں کے شور شرابے سے چھٹکارا ملا۔ جانور پوری آزادی سے زمین پر گھوم رہے ہیں کہ انسانوں کا تسلط اس زمین سے ختم ہوا۔ یوں لگتا ہے کہ کائنات اپنی ابتداء کی طرف لوٹنا چاہتی ہے۔

یہ تو آنکھوں دیکھا حال ہے جو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ کانوں کو بھی دنیا کے تغیر کے حوالے سے بہت کچھ سننے کو مل رہا ہے۔ خبر رساں اداروں سے سننے میں آرہا ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد وینس کی کینالز کا پانی اتنا شفاف ہو گیا ہے کہ اس کی سطح پر مچھلیاں تیرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ دنیا کی فضاء میں زہریلی گیسسز کی مقدار کم ہوتی نظر آرہی ہے۔ نیویارک اور لاس اینجلس کی فضاؤں میں نائٹروجن گیسسز کی مقدار میں بلترتیب 33 اور 22 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔

ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے جانوروں کو سڑک پار کرنے میں آسانی ہو رہی ہے۔ ایک ذرائع کے مطابق صرف ملک برطانیہ میں ہر سال ایک لاکھ ہیج۔ ہاگ، تیس ہزار ہرنیں، اور ایک لاکھ لومڑ سڑک کے حادثات میں مارے جاتے ہیں۔ اب جنگلی حیات کی یہ بے فکری سامنے آ رہی ہے کہ امریکہ میں وایٔٹ ہاؤس کے آس پاس ہرنیں چرتی ہوئی پائی جا رہی ہیں۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ وائرس کے موجودہ بھونچال میں صرف کائنات ہی پر سکون ہے۔ اگر کوئی مخلوق بے چین ہے تو وہ ہے انسان۔ جو انسان خود کو ذمین کا مالک سمجھ بیٹھا تھا آج اسی کے لیے اس زمیں پر جگہ محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جس انسان کی گردن میں سریہ آچکا تھا اپنی زندگی بچانے کے لیے وہ بھی منہ چھپانے کے لئے مجبور ہو گیا ہے۔ جو حاکم رعایا کی بھیڑ میں اپنی مرعوبیت دکھانے کے لیے جلوہ گر ہونا پسند کرتا تھا، آج خلوت میں چلا گیا ہے۔

جو بنی نوع انسان دوسرے کی جان کا دشمن تھا، آج اپنی جان بچانے کی فکر میں ہے۔ دوسرے انسانوں کے لیے حدود مقرر کرنے والا انسان خود محدود کر دیا گیا ہے۔ امیر و غریب، حاکم و محکوم، اعلی و ادنی، افسر و ما تحت، مرد و عورت، غرض ہر سطح پر پیدا کردہ تضحیک اور تفریق کو بھول کر ایک ہی وقت میں ایک ہی بیماری سے بچنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے اس روے ٔ زمین پر سسکتی انسانیت کی آہ وائرس کی شکل میں واپس زمین کی طرف لوٹ آئی جس نے انسانیت کے دشمن کا سکون چھین لیا ہے۔ یوں لگتا ہے انسان برابری کی سطح پر آگیا ہے اور یہ کائنات اپنی نکھرتی رعنائیوں کے ساتھ اس انسانی برابری کو دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ نظر بندی کے عالم میں کمرے کی کھڑکی سے جھانکتے ہوئے آسمان کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کائنات کا تخلیق کارانسان کو انسانیت کی طرف لوٹ جانے کا ایک موقع ضرور دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments