نظریاتی سیاست اور پاکستانی مسائل



سماج کے تمام رجحانات اور اس کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام طبقات کی بہتری اور اصلاح کے لئے اقدامات کرنا سیاست ہے۔ سیاست کو کبھی عبادت کا درجہ دیا جاتا تھا، مگرپاکستان میں آج کی سیاست عبادت سے عاری طاقت اور اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ ہے جہاں اچھے سیاست دان کی پہچان نظریات نہیں بلکہ پیسہ اور طاقت کے ایوانوں میں موجود طاقتورں سے اچھے تعلقات ہیں۔ میدان ِ سیاست میں قدم رکھنے والے عوامی خدمت کا نعرہ ضرور بلند کرتے ہیں، مگر ان کے قول و فعل ان کے عمل سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔

سیاست کرنا آسان کام نہیں ہے، خاص کر پاکستان میں جہاں اقتدار کی حصول کی خاطر نظریات کی ساتھ ساتھ کسی بھی طرح کی ’قربانی‘ یا ’سمجھوتہ‘ کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا اور جمہوری اقدار کو پامال کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنا ہی مطمح نظر ٹھہرتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو حکومت بنانے کے لئے الیکٹبلز پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ الیکٹبلز ایسے مقامی پاور بروکرز ہیں جو انفرادی حلقوں میں لسانی، خاندان یا برادری کی بنیادپر الیکشن میں منتحب ہوتے ہیں۔ الیکٹبلز کا نظریاتی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ کسی کے ساتھ بھی اپنا اتحاد مفادات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔

پاکستان ایسا ملک ہے جہاں جمہوریت کی تاریخ بہت نازک ہے اس ملک پر فوجی طالع آزماؤں  نے براہ راست حکمرانی بھی کی ہے اور جمہوری ادوار میں خفیہ، یا کھلی مداخلت کی ہے اس میں متنازعہ نظریہ ضرورت کی ایجادسے متخب وزیراعظم کے عدالتی قتل تک اور جمہوری حکومتوں کو گرانے سے لے کر سیاستدانوں کی اڈیالہ جیل میں منتقلی تک فوجی طالع آزماؤں  نے بار بار بالواسطہ تنازعات پیدا کرنے اور جمہوری سیاست کو غیر جمہوری طریقے سے ختم کرنے کے لئے مداخلت کی ہے۔

جنرل ضیاء کے دور حکومت میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندیوں اور سیاسی فکر کی آماجگاہ ( طلبہ یونینز) پر پابندیوں نے آنے والی نئی نسل میں سیاسی تربیت کا فقدان پیدا کر دیا جس کا تسلسل آج تک جاری ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں جب پاکستان کی مین سٹریم سیاسی جماعتوں کے قائدین کو جلاوطنی کا سامنا تھا۔ اس سیاسی دور ابتلا میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے جنم لیا اور جس انداز سے جنم لیا اسی انداز سے عوامی مقبولیت سے محروم رہیں۔

تحریک انصاف کا وجودبھی اسی سیاسی خلا کا نتیجہ ہے۔ جس کی فکری اساس میں سیاسی نظریات کا فقدان ہے۔ اس سیاسی خلا نے تحریک انصاف کو ابھرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے علاوہ حالیہ برسوں میں فوجی حمایت اور الیکٹبلز کی شمولیت سے تحریک انصاف بائیس برس کے بعد اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور عمران خان ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے وزیراعظم کے منصب پہ فائز ہیں۔ سیاسی لیڈر عوام کے فکری رہبر ہوتے ہیں اور ایک لیڈر کا غیر جذباتی ہونا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیوں کہ لیڈرشپ نے وہ فیصلے کرنے ہوتے ہیں جو باقی نہیں کرسکتے۔

لیڈرشپ نے پالیسی دینی ہوتی ہے۔ ایک غصیلا اور جذباتی آدمی ان کاموں میں سے کتنے کام درست طور پر کرسکتا ہے؟ وزیراعظم عمران خان کی شخصیت میں بحیثیت سیاسی لیڈر جذباتی پہلو کافی نمایاں ہے۔ اپنے رہبر کی طرح اس سیاسی جماعت (تحریک انصاف ) سے وابستگی رکھنے والے بہت سے افراد میں سیاسی فکر اور سوچ کا فقدان ہے۔ اس سیاسی تربیت کے فقدان نے ایک ایسی غیر سیاسی نسل کو جنم دیا ہے جس میں نہ تو سیاسی سمجھ ہے نہ ہی اختلاف کو سننے کا ححوصلہ ہے، جو سیاسی مخالفین کو صرف گالی بکنے پے یقین رکھتی ہے۔

حکومت عام طور پرعوام کی بہتری کے لئے اصلاحات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، کیونکہ عام لوگ اپنے مسائل کا حل چاھتے ہیں۔ وہ صرف بجلی، گیس، ایندھن، اور اپنی روز مرہ ضروریات زندگی وغیرہ کی قیمتوں اور ان کی دستیابی کے متعلق سوچتے ہیں۔ تحریک انصاف کو اس بات کا ادراک ہونے کے باوجود، بدقسمتی سے اس ملک میں معیشت کو سہی سمت میں لانے کی بجائے ایسی سیاسی روش اختیار کر لی جس کا مظاہرہ پاکستان میں نوے کی دہائی میں ہوا تھا۔

سماج میں زوال کی ذمہ داری صرف سیاسی فکر کی غیر موجودگی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سماج اور ریاست کی تباہی میں سیاست دانوں کے علاوہ ہر شعبے کے لوگوں نے اپنا اپنا ”اہم کردار“ ادا کیاہے۔

سیاسی لیڈر شپ کو معاملہ فہم ہونا چاہیے، کیوں کہ معاملہ فہمی کے بغیر لیڈر شپ اگر کوئی غلط فیصلہ کر لیتی ہے تو اس فیصلے کے منفی اثرات قوم کے لئے نقصان کا باعث بنیں گے۔ پاکستان کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے لیڈر شپ کو بروقت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان مشکل وقت میں ہے، غربت بہت زیادہ ہے، افراط زر بڑھ رہی ہے اور کرونا جیسی بیماری نے پاکستان کی معیشت کو اور تباہ کر دیا ہے۔

پاکستان میں اگلی آنے والی نسلیں پیدائش سے پہلے ہی بھاری قرضوں کے بوجھ تلے ہیں، پاکستان کی معاشی بدحالی میں عسکری اور ہر سیاسی جماعت نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے بھلا وہ بیرونی قرضوں کی صورت میں ہو“ جمہوریت کی بساط لپیٹ دینے میں ہو یا ریاست کی رٹ کو چلینج کر کے شہروں کا محاصرہ کرنامیں ہو۔ تمام مسائل کا حل اسی بات میں ہے کے قومی مفاد میں تمام سیاسی جماعتیں آپس کی سیاسی اختلافات کو بھلاکر مل بیٹھیں اور ایک ایسی معاشی پالیسی ترتیب دی جائے جس سے آنے والی نسلوں سے قرض کا بوجھ اتارا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments