کورونا کی وبا اور بابا ونگا کی پیش گوئی



کرونا وائرس نے جہاں ساری دنیا میں خوف و ہراس پھیلایا ہوا ہے اور بہت سے لوگ لقمہ اجل بھی بنے، وہیں یہ بحث بھی ہے کہ یہ وائرس آخر ہے کیا؟ کیا یہ صرف وبا ہے یا کوئی بائیالوجیکل ہتھیار؟ انھی سوالوں کو مد نظر رکھتے، اگر ہم تاریخ کے اوراق میں جھانکیں تو اس وبا کے متعلق بہت سی پیش گوئیاں بھی ملیں گی، جیسا کہ بابا ونگا کی پیش گوئی۔ بابا ونگا (3 اکتوبر 1911 – 11 اگست 1996) ایک بلغارین خاتون تھی، جو کم عمری میں بگولے کی زد پر آ کر گم ہو گئی۔ اس کے بعد جنگل سے ملی مگر اس حادثے میں بصارت سے محروم ہو گئی۔ اس حادثے کے بعد بابا ونگا کو مستقبل کے بارے میں ایسے خیالات آتے جو کہ سچ ثابت ہوتے۔

بابا ونگا نے جو پیش گوئی جنگ عظیم دوئم کے بارے میں کی، اس کے سچ ثابت ہونے کے بعد زیادہ مشہور ہو گئی۔ 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پہ حملے کے بارے میں بھی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔ بابا ونگا کی چین کے بارے میں پیش گوئی تھی، کہ 2018ء کے بعد امریکا کی معیشت تباہ حالی کا شکار ہو جائے گی اور چین کی معیشت اسے سپر پاور بنا دے گی۔

1996ء میں بابا ونگا نے موت سے قبل اپنی ایک پیرو کار نیشکا جو کہ جیمناسٹک کی ٹرینر ہے، کو بتایا کہ مستقل میں ”کرونا“ بربادی کا باعث بنے گا۔ کرونا کا بلگیرین زبان میں مطلب ”guardian ship“ ہوتا ہے۔ نیشکا نے اس وقت اس لفظ سے یہ مراد لی کہ بلغاریہ پہ روس کا قبضہ ہو جائے گا۔

جب کہ اب دوسری جانب لندن کے ایک مشہور میگزین Keep the Faith کے مطابق اسرائیل کے ربی گلیزر سن نے ”کورونا“ کو بائبل سے ڈی کوڈ کیا ہے اور ان کی پیش گوئی کے مطابق 2021ء میں دنیا کا اختتام ہونے والا ہے اور یہودیوں کا مسیحا آنے والا ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق یہ حالات امام مہدی کے ظہور کی نشانیوں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔

اسی زاویے سے اگر میڈیا کی طرف دیکھا جائے، تو سیمپسمز کارٹون میں بھی کچھ سال قبل کرونا سے ملتا جلتا مرض اور حالات دکھائے گئے۔ ہالی وُڈ کی 2011ء میں ریلیز ہونے والی ایک فلم ”contagion“ بھی موجودہ حالات اور واقعات پر مبنی ہے۔

ان تمام پیش گوئیوں کے باوجود کچھ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے، کہ یہ بائیالوجیکل ویپن ہے۔ یہ بھی بات قابل قبول ہو سکتی ہے، جیسا کہ تاریخ کو اُٹھا کر دیکھا جائے تو دشمن کے پانی میں زہر ملا دینا۔ تیر، نیزے یا تلوار کو زہر آلود کر دینا یا پھر جن لوگوں کی موت وبائی مرض سے ہوئی ان کی لاشوں کو دشمن کے علاقے میں پھینک دینا، بائیلوجیکل ویپن کہلاتا ہے۔

1710ء میں روس نے جنگ میں ایسا ہی کیا اور طاعون کے مریضوں کی لاشیں ان کے دشمن کے علاقے میں پھینک دیں۔ ایسے ہی امریکا میں یورپی لوگوں نے ایسی بیماریاں پھیلائیں، جن سے امریکا کے بے شمار قدیمی باشندے مرے۔ کوریا سے جنگ کے دوران میں بھی امریکا نے ان ہتھیاروں کا استعمال کیا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا اور روس میں بائیو کیمیکل ہتھیار بنانے کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ 1972ء میں سوویت یونین معاہدے کے باوجود خفیہ طور پر یہ ہتھیار بناتا رہا۔ 2018ء میں ایک سو بیالیس ممالک نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ طور پر لیبارٹریوں میں بائیالوجیکل ہتھیاروں پر تجربات جاری رکھے۔

فی الحال چین اور امریکا اس وبا کے پھیلنے میں مورد الزام ٹھہرائے گئے۔ کرونا ہی کی ایک قسم نے 2003ء میں چین کو متاثر کیا، جسے ”severe acute syndrome“ یا ”SARS“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے تقریباً آٹھ ہزار سے زائد لوگ متاثر اور سات سو سے زائد کی اموات ہوئیں۔ اس کی ویکسین اس مرض کے بیس ماہ بعد بنی۔ 2012ء میں سعودی عرب میں بھی کرونا کی قسم کا ایک وائرس آیا، جسے ”Middle East Respiratory Syndrome“ یا ”MERS“ بھی کہتے ہیں، مگر covid۔ 19 ان سب اقسام سے زیادہ طاقت ور اور خطرناک ہے۔

جہاں اس بیماری کے بارے میں بے شمار پیش گوئیاں اور نظریات ہیں، ایسے ہی اس کا اختتام کسی بڑی تبدیلی کے رُو نما ہوئے بنا نا ممکن ہے۔ وبائی امراض نے جب بھی شدت اختیار کی تو کسی بڑی تبدیلی کا موجب بنی، جیسا کہ 1350ء میں یورپ میں طاعون کے پھیلنے سے بے شمار اموات ہوئیں۔ جس سے آبادی کا ایک تہائی حصہ ختم ہو گیا مگر اس کے خاتمے نے جہاں زرعی اور معاشی نقصان کیا، وہیں اس خطے کو جدید تجارتی نظام، ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری اور غیر ملکی توسیع کے ذریعے یورپ طاقت ور ترین خطے میں شامل ہو گیا۔

پندرھویں صدی میں امریکا میں چیچک کی وجہ سے جہاں بہت لوگ ہلاک ہوئے، وہیں اس علاقے کی وجہ سے پوری دنیا کو اس کے مہلک نتائج اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح منگ خاندان جس نے تقریباً تین صدیوں تک چین پہ حکومت کی اور یہ لوگ بد عنوانی اور قحط میں بھی شامل تھے۔ 1641ء میں ملیریا اور طاعون کی وبا سے منگ خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ اور ایک نئی حکومت وجود میں آئی۔

ان تمام پیش گوئیوں اور تاریخی اوراق کو مد نظر رکھتے ہوئے، جہاں کرونا نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اس کا خاتمہ بھی کسی بڑی تبدیلی پہ متوقع ہے۔ اگر یہ بائیالوجیکل وار کا ایک حصہ ہے، تو اس سب کا کتنا فائدہ کس ملک کو ہے، یہ بات غور طلب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments