صنم کہتے ہیں تیرے بھی کمر ہے



سیاسی جماعتوں کے لیڈرز معصوم من الخطا ہیں۔ ان کے ورکرز چاہے دنیا زیر و زبر ہوجائے، اپنے لیڈرز پر تنقید خود تو کیا کریں گے اوروں کی حق بات بھی برداشت نہیں کرتے۔ دوسری جماعتوں کی بات ہو تو ان کے پاس دلائل کے انبار ہوتے ہیں، ان کے لیڈرز کی بات کریں تو یہ مینڈکوں کی طرح ٹاں ٹاں کرنے لگتے ہیں۔ اسی رویے کے باعث ہماری سیاسی جماعتیں پنپ نہیں پاتیں اور ان کے لیڈرز خود سر ہو جاتے ہیں۔ چاہیے ہے کہ سیاسی جماعتوں کے وفادار کارکن اپنے لیڈرز پر عقاب کی نگاہ رکھیں، جہاں غلطی محسوس کریں وہاں بے دریغ تنقید کریں کہ لیڈرز خود کو ناگزیر سمجھنا بند کر دیں۔

آپ موجودہ بحران میں سیاسی جماعتوں کے کردار کو لیں۔
تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن قائدانہ کردار؟ نوشہرہ میں پرویز خٹک، لیاقت خٹک، عمران خٹک، ابراہیم خٹک، احد خٹک، اسحق خٹک سارے بھائی بیٹوں کا کوئی بیان ہی کوئی دکھا دیں میں نے فریم کرنا ہے۔ الیکشن کے دوران پانی کی طرح پیسہ بہانے والے، سر عام ووٹوں کی خریدوفروخت کا دھندہ کرنے والوں کی جیبوں پر اب قفل کیوں پڑے ہیں؟ عمران خان ماشا اللہ خود بھی ارب پتی ہیں۔ چودہ جائیدادوں کے خود اکلوتے مالک ہیں۔ بہنوں کی دولت ملک کی سرحدوں سے باہر تک پھیلی ہوئی ہے۔ بیٹوں کی دولت کا کوئی حساب ہی نہیں۔ خان صاحب صبح و شام قوم سے خطابات کر کے پیسے مانگ رہے ہیں۔ نہیں بتا رہے تو یہ کہ خود وہ اور ان کا خاندان کتنا دے رہا ہے؟ تحریک انصاف کے ارب پتی قوم کی ’خدمت‘ کے علاؤہ کتنی مالی مدد کر رہے ہیں؟

پاکستان مسلم لیگ نواز کہاں ہے؟ صنم کہتے ہیں تیرے بھی کمر ہیں، کہاں ہے کس طرف کو ہے کدھر ہے؟ نواز شریف کیا اتنے بیمار ہیں کہ قوم کے نام ایک پیغام ہی جاری نہیں کر سکتے؟ شہباز شریف نے کورونا سے لڑنے کا عجیب نسخہ دیا کہ میر شکیل کو رہا کر دیں تو اللہ رحم کرے گا، کورونا پسپا ہو جائے گا۔ پشتو میں کہتے ہیں کہ شرم اگر بھیڑ ہوتی تو ان کے پیچھے باں باں کرتی۔ مریم نواز کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ ارے خدا کے بندوں، اتنی دولت کا کیا کرنا ہے آپ لوگوں نے؟

کچھ تو خیال کریں، کوئی شرم کوئی حیا؟ وزیراعظم کو ویسے بھی مانگنے کے سوا اور کوئی ہنر نہیں آتا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ نواز شریف وزیراعظم کے نام دو چار ارب کا چیک کاٹ کر کہتے کہ لو بیٹا کر لو حکومت۔ کیا مسلم لیگ نواز کے کارکنوں میں انتی اخلاقی جرات نہیں کہ اپنے لیڈران سے پوچھ لیں کہ اس ملک نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے، اب آپ کی باری ہے، مدد کریں ورنہ ہم آپ کے خلاف مورخہ سنبھال رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اگر چہ کورونا بحران میں کافی فعال نظر آئی ہے لیکن بحیثیت جماعت اس کا وجود ملک کے دیگر صوبوں میں محسوس نہیں کیا جا رہا۔ آصف زرداری کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ کچھ پتہ نہیں۔ بلاول نے اگر چہ اپنے بیانات سے اچھا تاثر قائم کیا لیکن بہ حیثیت ایک لیڈر بلاول قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ کسی جیالے کو ہمت نہیں کہ اپنے لیڈر کو للکار کر میدان میں لے آئے۔ زرداری کے علاؤہ بھی پیپلز پارٹی میں ارب پتی لوگ موجود ہیں، ان لوگوں نے اب تک اپنی بے تحاشا دولت سے کتنے لوگوں کی مدد کی ہے؟ اپنے آپ کو غریبوں اور مظلوموں کی جماعت گرداننے والوں کو کیوں توفیق نہیں کہ اور تو چھوڑیں اپنے غریب کارکنان کو ہی کوئی امداد دیں

عوامی نیشنل پارٹی کتنی عوامی ہے کتنی نیشنل اور کتنی پارٹی، سب سامنے نظر آرہا ہے۔ ان کے لیڈر گھروں میں گھس گئے ہیں تو کارکن کیا کریں؟ ان کے ہاتھوں کسی بندے کی مدد کی کوئی خبر نہیں آئی۔ راشد شہید فاؤنڈیشن کو میاں افتخار حسین کی سرپرستی حاصل ہے، ایک بڑی جماعت اس کی پشت پر ایک شہید کا نام ایک تنخواہ دار ٹیم لیکن کل تک اس پلیٹ فارم سے ساٹھ لوگوں تک خوراک پہنچائی گئی ہے۔ اصفندیار ولی خان، حیدر ہوتی کا پتہ بھی نہیں چل رہا کہ کہاں زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں؟ اس جماعت کے ’ننگیالو‘ کو توفیق نہیں کہ اپنے لیڈرز پر تنقید کریں کہ چیف صاحب باہر نکلو، قیادت کرو۔

قائد جمیعت حضرت مولانا فضل الرحمن مد ظلہ العالی کے کے متعلق بات کریں تو ان کے کارکن انہیں سیاسی لیڈر کے علاؤہ کوئی اور ہی چیز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے بھیا! مولانا آپ کے نزدیک جو بھی حیثیت رکھتے ہیں آپ کی مرضی لیکن ہمیں یہ پوچھنے کا حق ہے کہ لاکھوں سالاروں کے تذکرے سنانے والے، ان سے مضحکہ خیز سلامی لینے والے، ملک کے کھونے کھونے سے لوگ جمع کرنے اسلام آباد لانے والے، اب کہاں ہیں؟ کیا وسائل ختم ہوگئے ہیں۔

مولانا کے کارکنوں نے آزادی مارچ کے دوران ڈسپلن کا مظاہرہ کیا تو مخالفین نے بھی داد دی لیکن سوال بنتا ہے کہ دور  دراز سے اپنے ساتھ چنے اور مکئی کی روٹیاں لے کر اسلام آباد نامعلوم مدت تک قیام کے عرض سے آنے والوں کا جذبہ اب کدھر چلا گیا؟ کیا یہ سالار اتنی سکت نہیں رکھتے کہ رمضان آنے سے پہلے لوگوں کے گھروں تک راشن پہنچائیں؟ مولانا نے کورونا کے دوران مساجد میں نماز پڑھنے اور انہیں آباد رکھنے کا بہترین حل پیش کیا تھا، مولانا بتائیں کہ انہوں نے اس پر عمل در آمد کے حوالے سے کیا کردار ادا کیا؟ مسجد کے ممبر کو الیکشن کے دوران استعمال کرنے والے کے لئے کیا یہ اچھا نہ تھا کہ اسی مسجد سے غریبوں کے چولہے چلنے کے اسباب پیدا کر لیتے؟

سیاسی کارکنوں کو چاہیے کہ دوسری جماعتوں پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کا بھی محاسبہ کریں اس سے آپ کی جماعتیں مضبوط ہوتی ہیں۔ دوسروں پر ہمہ وقت تنقید کے نشتر برسانے والوں کی جب اپنی بات آتی ہے تو زمین جنبد نہ جنبد گل محمد والا معاملہ ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments