کپتان کی ٹیم اور یوم تشکر


عبدالسلام


\"abdus-salam\" جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانامہ لیکس کے حوالے سے دائر درخواستوں کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا اعلان کیا تو کئی دنوں سے قائم ملک میں غیر یقینی کی صورت حال یک دم تبدیل ہوگئی۔ اور اسلام آباد لاک ڈاؤن یوم تشکر بن گیا۔ عمران خان صاحب نے اعلان کیا کہ دراصل ہم تو چاہتے ہی یہی تھے۔ اور اب چونکہ ہماری خواہش پوری ہو گئی ہے لہٰذا اب احتجاج کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف یہی چاہتی تھی تو ایسا کروانے کے لئے انہوں نے کیا اقدامات کئے تھے۔ کیونکہ خان صاحب یا اس کے وکلاء نے ایسی کوئی درخواست جمع نہیں کرائی۔ پھر کیا خیبر پختونخوا حکومت میں پاکستان تحریک انصاف کے حلیف جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی درخواست آپس کی مشاورت کا نتیجہ تھی۔ اس سوال کا جواب تو عمران خان یا سراج الحق ہی دے سکتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ سراج الحق وہ پہلے آدمی تھے جس نے پانامہ لیکس کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکٹایا۔ اس لئے یہ بات واضح ہے کہ وہ اپنی منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن یہاں چند دیگر وجوہات کا جائزہ لینا ضروری ہے جو کہ ایک بھر پور لاک ڈاؤن پلان کو جشن اور یوم تشکر میں تبدیل کرنے کا سبب بنے۔

عمران خان ایک مہم جو آدمی ہے، ملک کے ساتھ مخلص ہے اور کچھ بہتر کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی بھی بڑی تبدیلی یا انقلاب برپا کرنے کے لئے جو ٹیم درکار ہوتی ہے، خان صاحب ابھی تک وہ ٹیم نہ بنا سکے۔ خان صاحب کے گرد موجود لوگوں کی اکثریت کرپٹ اور فرسودہ نظام کی پیداوار ہے۔ جو مختلف ادوار میں حکومتوں کا حصہ رہے اور بہتی گنگا سے مستفید ہوتے رہے۔ انہی لوگوں کی وجہ سے اچھی شہرت کے حامل لوگ خان صاحب سے دور ہوتے گئے۔ لیکن وہ اس کا ادراک نہ کر سکے۔

خان صاحب نے بجا طور پر اعلان کیا تھا کہ دس لاکھ لوگ اسلام آباد میں جمع کروں گا، تو پورے شہر کو بند کر دوں گا۔ ان کے ذہن میں یقیناً یہ بات ہوگی کہ اسلام آباد کا ایم این اے اسد عمر اپنے پچاس ہزار ووٹر کو سڑک پرلے آئے گا، راوالپنڈی اور ٹیکسلا سے شیخ رشید اور غلام سرور خان ڈیڑھ لاکھ کا مجمع اکٹھا کر لے گا، صوبہ خیبر پختونخوا میں چونکہ حکومت ہے اور گزشتہ الیکشن میں دس لاکھ سے زائد لوگوں نے ہمیں ووٹ دیا لہٰذا وہاں سے آدھے ووٹر بھی ہمت کر لے تو بات بن جائے گی۔ خان صاحب نے یہ بھی سوچھا ہوگا کہ ابھی ابھی کشمیر سے بیرسٹر سلطان محمود جیسی قدآور شخصیت پارٹی میں شامل ہوئی ہے۔ وہ بھی ایک عظیم الشان جلوس کی قیادت کرتے ہوئے پہنچے گا۔ اور ہاں پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے ہزاروں مریدین اپنے پیر کی حکم کی تعمیل میں بھنگڑا ڈالتے ہوئے آجائیں گے۔ سندھ سے عارف علوی، عمران اسمٰعیل اور علی زیدی کی قیادت میں کراچی تا راولپنڈی ٹرین مارچ ہوگا۔ ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کا قافلہ سردار محمد رند کی قیادت میں نمودار ہوگا۔ اور جب یہ سارے قافلے اسلام آباد کی طرف بڑھیں گے، تو اسلام آباد سمیت پورا ملک لاک ڈاؤن ہوگا۔ اور حکمرانوں پر عوامی دباؤ کے ساتھ اداروں پر بھی دباؤ بڑ ھے گا جس کے نتیجے میں حکمرانوں کے پاس اقتدار چھوڑنے کے سوا کوئی اور راستہ نہ ہوگا۔ اور یوں ایک کرپٹ حکومت سے ملک کو بچا لیا جائے گا۔

لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اسد عمر اپنے کارکنان کی پولیس کے ہاتھوں پٹائی دیکھتے رہے اور اپنے ہاتھ بغلوں میں ڈال کر لاتعلقی کا اظہار کرتے رہے۔ ان کے اس طرز عمل سے کارکنوں کی دل آزاری ہوئی اور عام سیاسی کارکن بھی کافی مایوس ہوا۔ جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی سمیت تمام قیادت بنی گالہ میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے رہے۔ خان صاحب پھر بھی پر امید تھے کہ پرویز خٹک لاکھوں کا جلوس لے کر آئے گا تو یہ ساری کمی پوری ہوجائے گی۔ جب پرویز خٹک کے ساتھ لاکھوں کی بجائے چند ہزار لوگ صوابی سے نکلے۔ تو بنی گالہ میں ٹینشن شروع ہوگئی۔ پنجاب پولیس کی بہیمانہ تشدد بھی قابل مذمت ہے۔ لیکن تبدیلی اور انقلاب لانے والوں کو اس سے کئی گنا پر تشدد راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پرویز خٹک کے قافلے کا برہان سے واپس جانا اس پورے مہم کا نقطہ انجام ثابت ہوا۔ اس تمام صورت حال میں صرف ایک چیز اس مہم کو کامیاب کر سکتی تھی اور وہ یہ کہ خان صاحب بنی گالہ سے نکل آتے۔ اس صورت حال میں اگر آپ گرفتار ہوتے یا آنسو گیس شیلنگ کا نشانہ بنتے تو عزت بچ جاتی۔ لیکن اپنے گرد موجود سیاسی پنڈتوں نے ایسا بھی نہیں کرنے دیا۔ پھر جشن اور یوم تشکر کے اعلان کے ساتھ اپنے موقف سے واپسی کو جہاں عام شہری سمجھنے سے قاصر ہے وہاں تحریک انصاف کا کارکن بھی مایوس اور اپنے قیادت کے فیصلوں پر برہم ہے۔

خان صاحب آپ پاکستان کی امید ہیں خدارا اپنے ارد گرد موجود اپنی ٹیم کا جائزہ لے۔ آپ کو کوئی بھی مخلص نہیں ملے گا۔ سارے کرپٹ لوگ جو مختلف ادوار میں منفی شہرت کے حامل رہے ہیں آپ کے گرد جمع ہو چکے ہیں۔ جن کی وجہ سے پارٹی میں موجود مخلص لوگ جاوید ہاشمی اور جسٹس وجیہ الدین کی طرح پارٹی سے بدظن ہورہے ہیں۔ خان صاحب نیا پاکستان بنانے کے لئے پہلے نئی ٹیم بنانے کی ضرورت ہے ورنہ موجودہ ٹیم آپ کو کہیں بھی منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments