احساس امداد منصوبہ اور نچلے متوسط طبقہ کے مسائل



دنیا بھر میں جہاں وبا سے لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں، وہیں ’لاک ڈاؤن‘ کی وجہ سے کروڑوں مختلف قسم کی مالی مشکلات کا بھی شکار ہیں۔ ’بلوم برگ‘ نامی کاروباری خبررساں ادارے کے مطابق عالمی وبا پانچ ہزار ارب ڈالر کھا جائے گی۔ امیر طبقہ کے لئے گھر میں بیٹھ کر وسائل کا استعمال آسان عمل ہے۔ متوسط طبقہ کے پاس بھی اپنے ذخائر کے استعمال کاحق انتخاب موجود ہے۔ مگر غریب اور نچلے متوسط طبقے روزگار سے محروم ہو کر بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔

دنیا بھر میں موجود ترقی یافتہ ممالک افلاس سے نمٹنے کے لئے اربوں ڈالر کی امدادی رقوم مختص کر رہے ہیں۔ پاکستان بھی دنیا بھر سے ملنے والی امداد کو بروئے کار لا رہا ہے۔ عالمی بینک کے ملکی سطح کے سربراہ کے مطابق، پاکستان کو ایک ارب ڈالرکی امدادی رقم فراہم کی جائے گی۔ بیس کروڑ ڈالر کی ادائیگی ہو چکی ہے، صحت کے شعبہ پر پندرہ کروڑ اور احساس پروگرام پر پانچ کروڑ ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ حکومت امداد کو بروئے کار لا کر 1.2 ٹریلین روپوں کے احساس منصوبے پر کام کررہی ہے۔

اس منصوبے میں بہت سے شعبوں میں امداد کے ساتھ، فوری طور پر 144 ارب روپوں پر مشتمل رقم ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں میں بارہ ہزار روپے فی فرد کے حساب سے جاری کی جارہی ہے۔ جس کی ادائیگی کے حصول کے لئے سترہ ہزار مراکز قائم کیے جا رہے ہیں، جب کہ سات ہزار سے زائد مراکز کام انجام دے رہے ہیں۔ اس پروگرام کو وزیراعظم کی معاون ثانیہ نشتر دیکھ رہی ہیں۔ بلا شبہ پاکستانی تاریخ میں غریب طبقے کے لئے براہ راست موئثر و شفاف طریقے سے رقوم پہنچانے کا ایک بڑا منصوبہ ہے۔ وزیراعظم اور ثانیہ نشتر کے اس منصوبے پر اقدامات قابل رشک ہیں اور وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

مگر اس منصوبے کے حوالے سے بہت سی خامیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ ان خامیوں کو آشکار کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ثانیہ نشتر کے مطابق یہ بالکل شفاف، سیاست سے بالا تر منصوبہ ہے جس میں بائیومیٹرک تصدیق کے تحت رقوم تقسیم کی جا رہی ہیں۔ مگر بہت سے مقامات سے سیاسی نمائندوں کے ملوث ہونے کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔ ’جنگ اخبار‘ کے مطابق فیصل آباد حلقہ این اے 109 میں پی ٹی آئی کے کوارڈینیٹر ساجد حسین کی جیب سے احساس پروگرام کے پانچ لاکھ چوری ہوگئے۔

سوال یہ ہے کہ، سیاسی نمائندے تک یہ رقم کیسے پہنچی؟ تفصیلات موجود ہیں کہ، مختلف علاقوں میں سیاسی کارندے پانچ سو سے دو ہزار تک کی رقم کی کٹوتی کر رہے ہیں۔ چالیس سے زائد کمیشن خوروں پر مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ احساس پروگرام کے بارے جعلی معلومات کے ذریعے ان پڑھ طبقے سے مستفید ہونے کا دھندا بھی چل رہا ہے، جس میں سے بہت سوں کو ’پی ٹی اے‘ نے شکایات کی صورت میں بلاک کر دیا ہے۔ جعلی نوٹوں کے متعلق بھی غیر مصدقہ اطلاعات پھیل رہی ہیں۔

’جنگ اخبار‘ کے مطابق بعض علاقوں میں انگوٹھا لگوا کر روپے نہ دینے کے واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔ امدادی رقم میں خرد برد کر نے والے ایسے مزید کتنے کردار ہیں؟ رمضان ریلیف کے تحت ’یوٹیلیٹی اسٹورز‘ کو پچاس ارب کی رعایتی رقم کے استعمال کو کیسے شفاف بنایا جائے گا؟ سندھ حکومت نے گرفتار ہونے والے کٹوتی کنندگان کو پی ٹی آئی کے نمائندے قرار دے دیا ہے۔ دیہی علاقوں میں من پسند فہرستیں بنانے کی غیر مصدقہ اطلاعات بھی موجود ہیں۔

ٹیلی ویژن پر وزیراعظم کے لئے شکریہ کے پیغامات نشر کرنا کیا سیاسی عمل نہیں؟ اگر آپ کے نزدیک یہ سب جائز ہے تو اسے کھل کر کریں۔ اور اپوزیشن کے منتخب نمائندوں کو بھی اس کا حصہ بنائیں۔ جب بلدیاتی انتخابات پر پاکستان کا خزانہ خرچ ہوچکا تھا، تو دوبارہ ٹائیگر فورس کو کیوں بنایا گیا۔ مارکیٹ ریسرچ کی دنیا میں تیسری بڑی کمپنی (IPSOS) کے سروے کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے پچپن فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ، بلدیاتی نظام کو بحال کیا جائے۔

گوجرانوالہ سے مسلم لیگ نواز کے بہت سے منتخب نمائندوں سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ، حکومتی انتظامیہ منتخب نمائندوں کو کسی بھی قسم کی مشاورت میں شامل کرنے کی بجائے پی ٹی آئی کے غیر منتخب نمائندوں کو شامل کرتی ہے۔ خود وزیراعظم نے بھی احساس پروگرام کے اعلان کے موقع پر کہا تھا کہ، آپ سب کے لئے اپنے حلقوں میں اثر و رسوخ بڑھانے کا سنہری موقع موجود ہے۔ کٹھن حالات کے موقع پر جہاں مل جل کر کام کرنا چاہیے، وہیں سیاست اور انا بہت سے غیر منصفانہ رویوں کو جنم دے رہی ہے۔

بات امدادی رقم یا راشن کی تقسیم کی ہو تو اس کے لئے اپنایا جانے والا طریقہ سراسر غلط ہے۔ یہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے ساتھ وبا کو مزید پھیلانے کا بھی سبب بن رہا ہے۔ بدنظمی کی بدولت ملتان میں بزرگ خاتون جان بحق، جب کہ بیس کے قریب خواتین زخمی ہو گئیں۔ متعدد مراکز پر پولیس کے عورتوں پر تشدد کے واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔ جب ہر ماہ بجلی اور گیس کے بل گھروں تک پہنچ سکتے ہیں، تو امدادی رقم کیوں نہیں پہنچ سکتی؟ فون نمبر یا آن لائن آسان ذرائع سے بھی رقم پہنچانے کا طریقہ اپنایا جا سکتا تھا۔ بعض سوشل میڈیا صارفین کے نزدیک بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت رقم کا حصول قدرے آسان تھا۔

نادرا کے ریکارڈ کے تحت رقم کی تقسیم کے امدادی منصوبے میں ایسے لوگوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ جن خاندانوں میں میاں یا بیوی میں سے کسی ایک کے نام پر ایک یا زائد موٹر سائیکل یا گاڑی رجسٹر ہو۔ جس کا پی ٹی سی ایل یا موبائل کا ماہانہ بل اوسط ایک ہزار سے زائدہو۔ تین یا زائد گھر کے افراد کا قومی شناختی کارڈ ایگزیکٹیو فیس سے بنا ہو۔ میاں یا بیوی میں سے کسی ایک کا پاسپورٹ ایگزیکٹو سینٹر سے بنا ہو۔ میاں یا بیوی میں سے کسی ایک نے بیرون ملک سفر کیا ہو۔

ایسے میں بہت سے خاندان، جو معاشرے میں بھرم قائم رکھنے کے لئے مالی کمزوری کو عیاں نہیں کرتے متاثر ہو سکتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہوں گے جن کے پاس موٹر سائیکل یا کوئی گاڑی روزگار کے حصول کا ذریعہ ہو گی۔ بہت سے لوگوں کا روزگار کا ذریعہ ہی پی ٹی سی ایل اور موبائل فون ہوں گے۔ بہت سے لوگوں کو مجبوری یا ایمرجنسی کے تحت ایگزیکٹو کارڈ یا پاسپورٹ بنانا پڑے ہوں گے۔ بہت سوں نے روزگار کی خاطر بیرون ممالک سفر کیا ہوگا۔

مگر موجودہ صورتحال میں مستحق ہوں گے، حالیہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں نہ تو روزگار میسر ہو گا اور نہ ہی حکومتی سطح پر کوئی امدادی رقم۔ بہت سے حق دار نہ ہونے کی صورت میں بھی امداد سے مستفید ہو جائیں گے۔ اس غریب اور نچلے متوسط طبقے کے سفید پوشوں کی اکثریت کے پاس جمع پونجی موجود نہیں ہوتی۔ اور ان کی اکثریت معاشرے میں اپنے بھرم کی بنا پر ہاتھ پھیلانے سے بھی قاصر ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایسے خاندان بھی موجود ہیں، جو نہ تو نادرا میں رجسٹرڈ ہیں اور نہ ہی ان تک آگاہی پیغامات کا حصول ممکن ہے۔

’ٹرسٹ برائے جمہوری تعلیم و احتساب‘ نامی ادارے کے سروے کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ میں 2.6 ملین عورتوں کے قومی شناختی کارڈ نہیں بنے۔ ”مارکیٹ ریسرچ کی دنیا میں تیسری بڑی کمپنی (IPSOS) کے سروے کے مطابق جب پاکستان بھر میں کورونا کے امدادی نمبر کے حوالے سے پوچھا گیا تو ہر پانچ میں سے تین لوگ اس کا جواب نہیں دے سکے۔ اکسٹھ فیصد لوگوں کو فلاحی تنظیموں بارے آگاہی نہیں۔ بیس فیصد لوگ ایدھی جب کہ چودہ فیصد الخدمت کی کورونا امدادی سرگرمیوں کے بارے واقف ہیں۔

پانچ میں سے دو کو وزیراعظم ٹائیگر فورس کا ہی علم نہیں“۔ ایسے بہت سے لوگ جو نہ تو قومی شناختی کارڈ رکھتے ہیں، نہ ہی ان کے پاس کسی فلاحی تنظیم کی معلومات ہیں اور نہ ہی وہ کوئی سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔ ان کے بھی متاثر ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ افسوس کا عالم یہ ہے کہ، ہمارے حکمت عملی بنانے والے اداروں نے کبھی اسلام آباد کی حدود سے نکل کر عام عوام کے مسائل کو پرکھا ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی سطح پر آج ہمارے پاس ایسی معتبر معلومات موجود نہیں کہ ہم ملک بھر میں شفاف طریقے سے مستحقین کی امداد کر سکیں۔

”پبلک پالیسی کے ماہر ’حسان خاور‘ کے مطابق موجودہ صورتحال کے زیر نظر 18 ملین تک لوگوں کی نوکریوں کے ختم ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ اگر لاک ڈاؤن کا دورانیہ بڑھتا رہا تو ان اعداد و شمار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان کے نزدیک حکومت بہت سے دوسرے معاشی منصوبوں کو بھی کورونا میں شمار کر رہی ہے جیسے ایکسپورٹروں کو رقوم کی واپسی، گندم کی خرید کے لئے مختص رقم اور بے نظیر انکم سپورٹ وغیرہ۔ ان کے نزدیک احساس نقد مدد کے پروگرام میں غبن کے خدشات موجود ہیں۔

اس کے برعکس حکومت یہ رقم بجلی کے بلوں میں چھوٹ دے کر شفاف طریقے سے حقداروں تک پہنچا سکتی ہے“۔ بہت سے محتاط اندازوں کے مطابق، پاکستان بھر میں بہت سے لوگ خاص کر بھکاری طبقہ متعدد ذرائع سے مستفید ہو رہا ہے۔ جیسے راشن کے دکانداروں کو سستے داموں بیچنے کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ اس سے بہت سے سفید پوش غریب و نچلے متوسط حق داروں کی حق صلبی ہو رہی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں اکثریت نچلے متوسط طبقے کی ہے۔

چوبیس فیصد کے قریب لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ معلومات کے مطابق امداد کے حصول کی خاطر احساس ادارے کو چھ کروڑ بائیس لاکھ پچاس ہزار لوگوں کے پیغامات موصول ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں تک امداد کی رسائی ناکافی ہے۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو متعدد بار مستفید ہوتے ہیں۔ باقی کروڑوں سفید پوش مستحقین کے امداد سے محروم رہنے کے خدشات موجود ہیں۔ حکومت کو نجی اداروں کو کمپیوٹر و ٹیکنالوجی کی مدد فراہم کرنا چاہیے، تا کہ امدادی عمل کو شفاف بنایا جا سکے۔

پنجاب حکومت کا دکانوں اور گھروں کے بلوں کے بارے اقدام قابل تعریف ہے، جس کے تحت مالکان ساٹھ دن تک کرایہ داروں کو تنگ نہیں کریں گے۔ مگر خدشہ ہے کے اس سے ایسے سفید پوش متاثر نہ ہو جائیں جن کا گزر بسر ہی کرایوں پر ہے۔ بہت سے چھوٹے کاروباری طبقے جیسے دکاندارو ریڑھی بان وغیرہ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ او بی آئی پنشرز بھی مشکلات کا شکار ہیں، انہیں بھی مالی معاونت کی ضرورت ہے۔ کورونا ریلیف فنڈ میں جو روپے جمع ہو رہے ہیں، امید ہے ان کی تفصیل عوام تک پہنچائی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments