کرونا وائرس۔ منفی اور مثبت اثرات


 

کرونا وائرس کے مہلک اور جان لیوا اثرات نے جس طرح عالم انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا اور اس وقت کرہّ ارض کا کوئی خطّہ، علاقہ اور بستی اسکی چیرہ دستیوں  سے محفوظ و مامون نہیں ہے۔ ہر دل اور دماغ پر  وائرس اور اسکے اثرات کا غلبہ ہے۔ لوگ گھروں میں قید ہو کر نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ کاروبار زندگی تقریباً ٹھپ ہو چکا ہے۔ بازار اور گلیاں سنسان۔ دفاتر اور فیکٹریاں ویرانی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ ہر طرف گھبراہت اور خوف کا غلبہ ہے۔

لاکھوں لوگوں کا روزگار چھن چکا ہے۔ اور نجانے کتنے کروڑوں اس روزگار کے چھن جانے کی فکر میں ہیں۔ ہمارے معاشرتی رویے تبدیل ہوچکے ہیں۔ اس معاشرے میں جہاں گلے ملنا، منہ چومنا، بغل گیر ہونا اور گرم جوشی سے مصافحہ کرنا ایک معمول اور معاشرتی حُسن کی عکاسی کرتا تھا۔ اب وہاں سماجی فاصلوں کے نام پر دوری دل کو کاٹ رہی ہے۔ ایک ہی چھت تلے ایک ہی خاندان کے لوگ ایک دوسرے سے اجنبی ہوتے جارہے ہیں۔ بچے بزرگوں سے اجتناب کر رہے ہیں۔ اور بزرگ قید تنہائی میں یاد اللہ میں مگن ہیں۔ ہماری عبادت گاہیں، مساجد، چرچ، مندر، گردوارے آہستہ آہستہ بے آباد ہورہے ہیں۔ بطور مسلمان یہ منظر ہمارے لیے بڑا ہی روح فرسا اور دل شکن ہے۔ جب ہم خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ﷺ کو بھی لوگوں سے خالی دیکھتے ہیں۔ کہیں جبری پابندیاں اور کہیں رضاکارانہ۔ مگر یہ سب کچھ دل کو دہلا کر رکھ رہا ہے۔ بے کسی اور مجبوری کے ڈیرے ہیں۔ صبر کے سوا چارا نہیں۔

مگر کیا اس آفت میں کوئی خیر کا پہلو بھی ہے۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں جو آفت یا مصیبت اللہ کے قرب کا باعث بنے اسے آفت یا عزاب نہیں کہتے۔ عام تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم سے ناراض ہوگئے ہیں۔ خدا کے بندو کبھی اللہ تعالٰی جو خالق و مالک کائنات ہے، سراسر رحمت ہے جسکا علم کائنات کے ذرہ ذرہ پر محیط ہے۔ زمین و آسمان کی بیکراں وسعتوں میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اس سے مخفی ہو۔ فرازِ عرش سے قعر زمیں تک ہر چیز اُس پر عیاں ہے۔ جو ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا اور ہر لمحہ ہماری سانسوں کی حفاظت کرنے والا ہے۔

جو ہماری تمام تر کوتاہیوں، لغزشوں اور نا فرمانیوں کے باوجود درگزر کرتا ہے۔ ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ اور انسان کی توبہ اور اُسکی طرف پلٹنے کا منتظر رہتا ہے۔ وہ بھلا ہم سے ناراض کیسے ہو سکتا ہے۔ اور کیا اللہ کی ناراضگی کے بعد یہ دنیا ایک لمحہ کے لیے بھی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔

میری عاجزانہ رائے میں ایسا کریم آقا اپنی مخلوق سے ناراض نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی اُسے جھنجھوڑتا ہے۔ تاکہ وہ راہِ راست پر آجائے۔ کچھ اسی طرح کی کیفیت اس وقت بھی ہے۔ آگرچہ ہماری مساجد میں حاضری کم ہورہی ہے۔ حکومتی پابندیاں بھی ہیں۔ اور شاید کچھ اس وبا سے بچنے کے لیے ضروری بھی ہے۔ مگر لوگ گھروں میں عبادت میں مصروف ہیں۔ توبہ استغفار کا وِرد جاری ہے۔ نوافل کی ادائیگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اور لوگ قرآن خوانی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ ایک اچھا شگون ہے۔ اب عوام کا جمّ غفیر ہو یا کنج عزلت لوگ اپنے خالق کی طرف رجوع کیے ہوئے ہیں۔

وائٹ ہاوس میں بھی قرآن پاک کی تلاوت کرائی جا رہی ہے اور جرمنی کے درودیوار اذانوں(اللہ اکبر) کی گونج سے بہرہ ور ہو رہے ہیں۔اگر اس وبا یا ابتلا میں لوگوں کے دلوں میں خوف خدا کا غلبہ ہے۔ وہ اپنے مجبور اور ضرورت مند بھائیوں کی مدد کے لیے روبہ عمل ہیں۔ وہ دکھی انسانیت کا درد محسوس کر رہے ہیں۔ بھو کے اور ضرورت مندوں میں راشن کی ترسیل جاری ہے۔ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے لاہور میں ایسے مناظر دیکھے ہیں کہ لوگ گاڑیوں میں پکا ہوا کھانا سڑکوں پر کھڑے ضرورت مندوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔

یہ منظر دیکھ کر حوصلہ ہوتا ہے۔ کہ ابھی ہمارا معاشرہ زندہ ہے۔قربانی اور ایثار پر زندہ معاشروں پر عذاب نہیں ہوا کرتا۔ یہ آذمایش ضرور ہے۔ آذمایش بھی کٹھن ہے۔ مگر اسے خوف خدا اور قربانی و ایثار کے لامتناہی جذبے انشااللہ شکست دیں گے۔ نبی مکرم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ “ اللہ تعالٰی کا خوف، حکمت و دانائی کا سرچشمہ ہے”

پھر ابتلا کے مثبت پہلوؤں پر نظر دوڑائیں تو ہماری

طرز معاشرت میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ لوگ ذیادہ وقت اپنے پیاروں کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ مغرب میں تو شاید طلاق کی شرح اس لاک ڈاؤن نے بڑھا دی ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس کے مثبت اثرات نظر آرہے ہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں لاک ڈاؤں نے گھر یلو پاور گیم میں کچھ ذیادہ فرق نہیں ڈالا۔ پہلے بھی خاتون خانہ کا حکم چلتا تھا اب بھی وہ بھاری ہیں۔ مرد پہلے بھی مجبور و محکوم تھا اب کچھ ذیادہ ہے۔

ہمارا ماحولیاتی نظام کافی بہتر ہوا ہے۔ فضا میں آلودگی کی شرح کم ہوئی ہے۔ ذمین و آسمان کے درمیان دُھند لکے کی جگہ اب صاف ستھرہ منظر ہے۔ آبی حیات کو ایک عرصہ دراذ کے بعد ایک پُر سکون اور صاف ماحول میّسر آیا ہے۔ گاڑیوں اور فیکڑیوں کی چمنی سے اُٹھنے والا دُھواں اب فضا کی کثافت کا باعث نہیں بن رہا۔ دلوں سے بھی کُدورت و نفرت کے خاتمہ کی اُمید ہے۔ جسمانی طور پر دور ہونے کے باوجود اگر دل بغض، عناد، دُشمنی اور نفرت سے پاک ہوجائیں۔ خوف خدا دلوں میں راسخ ہو جائے۔ ایثار و قربانی اور محبت و انس کا غلبہ ہو جائے تو انشااللہ یہ وقتی آلام، ابتلا اور آذمایش رحمت بن کر گزر جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments