نیوٹن کا تیسرا قانون (لنڈے کے لبرل مت پڑھیں )


محل ماڑیوں اور غریب باڑیوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں ہر نئے آنے والوں کو درجنوں انسانی آنکھوں اور سوالوں کا سامنا کرنے کے بعد ہی داخلے کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ آج صبح صبح آنے والے نے محلے کے داخلی راستے کی پہلی گلی سے نکلتے شاہجہان کریانے والے سے جبار وکیل کے گھر کا راستہ پوچھا تو اس نے راستہ بتانے سے پہلے اس کی آمد کا مقصد معلوم کیا اور ضروری معلومات مل جانے کے بعد اسے اس کی منزل کا پتہ بتا کر خود چوک میں پھٹے پر بیٹھے چند نکموں کی طرف بڑھ گیا۔ اور آنے والا اپنی سائیکل کے پیڈل مارتا مسجد والی گلی میں مڑ گیا۔

 ”کون ہے؟ “ ایک نکمے نے سگریٹ کے کش سے پھپھڑوں کے جراثیم مارتے ہوئے پوچھا

 ”کرائے کا مکان ڈھونڈ رہا ہے۔ جبار وکیل کے گھر کا پتہ پوچھ رہا تھا“ شاہ جہان نے سگریٹ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے جواب دیا

جبار وکیل اس علاقے کا ایک دور اندیش آدمی تھا جس نے اپنے آبائی محلے کے علاوہ آس پاس کے علاقوں میں کئی مکان بنا رکھے تھے جو سارا سال مناسب کرائے پر اٹھے رہتے تھے۔ دس بارہ سال سے کمر کے درد نے اس کی وکالت تو ٹھپ کر دی تھی لیکن کرائے کا مکانوں کا دھندہ خوب چل رہا تھا۔ اچھے وقتوں میں کی گئی اس سرمایہ کاری کے درخت ہر ماہ پھل دیتے تھے۔

 ”ہے کہاں کا؟ “ دوسرے نکمے نے سوال داغا

 ”کوٹلے کا۔ بال بچوں والا ہے۔ زوار حسین نام ہے“ شاہ جہان نے تین کشوں میں تین بنیادی معلومات فراہم کرنے کے بعد سگریٹ پہلے نکمے کی طرف بڑھا دیا

 ”نام سے تو شیعہ لگ رہا ہے؟ “ پہلے نکمے نے اپنا قیاس لگایا

 ”شیعہ ہی ہے۔ انگلی میں فیروزہ تھا اس کی“ شاہ جہان نے اس کے قیاس پر اپنے یقین کی مہر لگا کر اپنی دکان کا تالا کھول دیا

اس زمانے میں شیعہ سنی نفرت کی وبا اپنے مرکزسے نکل کر اس شہر میں بھی پھیل چکی تھی ہر سال محرم کے مہینے میں یہ وبادونوں طرف سے دس بارہ لوگوں کے سر لے جاتی اور باقی کے گیارہ مہینے اگلے محرم میں انتقام کی تیاریاں ہوتی رہتی تھیں۔ اس محلے میں دہائیوں سے آباد چالیس پچاس شیعوں کے گھر تھے لیکن جب وبا اپنے عروج پر پہنچی تو ان میں سے زیادہ تر اپنی جان کے خوف سے سب کچھ اونے پونے بیچ کر ان علاقوں میں جا بسے تھے جہاں ان کے ہم مسلک اکثریت میں تھے۔ ان میں سے زیادہ تر گھر جبار وکیل نے خریدکر اپنے مختلف بیٹوں کے نام لگا دیے تھے۔ اب تین چارسیدوں کے گھر باقی تھے۔ جن میں ایک لاولد اور ضعیف جوڑا تھا ان سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں تھا کیوں کہ وہ محرم کے دس دن محلے میں ہی رہتے تھے کسی مجلس اور جلوس میں نہیں جاتے تھے اس لئے محلے کے لئے قابل قبول تھے۔ دوسرا گھرانہ صاحب اولاد تو تھا لیکن ان کے دونوں لڑکے سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم تھے۔ گونگے بہرے شیعوں سے بھلا کسی کو کیا دقت ہوتی اس لئے ان کو بھی کچھ نہیں کہا جاتا تھا۔ تیسرا ہومیو پیتھک ڈاکٹر غلام عباس شاہ تھاجو اپنے پیشے کی طرح خود بھی ہومیوپیتھک قسم کا شیعہ تھاجو اپنی دونوں بیٹیاں کراچی میں بیاہنے کے بعداپنی بیوی کے ساتھ اپنی گھر کے آنگن میں پڑا ان نواسے نواسیوں کی راہ دیکھتا رہتا تھا جو کبھی اس محلے میں آئے ہی نہیں۔ غلام عباس شاہ کے مکان پر نظریں جمائے بیٹھا جبار وکیل ہفتے میں ایک بار کمر کے علاج کے بہانے شاہ جی کے اجڑے دیار پر ضرور حاضری دیتا تاکہ اندازہ لگا سکے کہ کہ بوڑھے سید کا اس دنیا سے دانہ پانی اٹھنے والا ہے۔

اگلے آدھے گھنٹے میں یہ خبر پورے محلے کے کانوں تک پہنچ چکی تھی کہ سہراب کی سائیکل پر سوار زوار حسین نام کا ایک پینتالیس پچاس سالہ شیعہ کرائے کا مکان تلاش کرتا پھر رہا ہے۔ ظہر کی نماز کے بعد جبار وکیل چند سرکردہ نمازیوں کے گھیرے میں تھا جو اس کی زوارحسین سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں جاننے کے لئے بے تاب تھے۔ مولوی ابراہیم کے پوچھنے پر وکیل نے انکشاف کیا کہ اس نے اپنا ایک مکان زوار حسین کو کرائے پر دے دیا ہے۔

 ”کوئی واقفیت نکل آئی تھی؟ “ بابو فضل نے سنتوں سے سلام پھیرتے ہوئے پوچھا

 ”شیعوں سے جبار خان کی کوئی واقفیت نہیں ہے بابو صاحب۔ یہ تو شیعوں کو اس نظر سے دیکھتا ہے جیسے اللہ بخشے ہٹلر یہودیوں کو دیکھا کرتا تھا۔ ہٹلرکہتا تھا کہ دنیا میں صرف دو قوموں کو جینے کا حق ہے ایک جرمن اور دوسرے مسلمان“ وکیل کے جواب دینے سے پہلے ہی حاجی فیض محمد اس کی حمایت میں خوامخواہ بول پڑا

 ”لالٹین تو بس ویسٹن جرمنی کے“ صوفی ہاشم نے داڑھی میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے اپنے علم کے دریا کا بند توڑا

 ”اللہ بابے کی قبر کو روشن رکھے دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ سے لالٹینوں کی جوڑی لایا تھا۔ ایک چوری ہو گیا لیکن دوسرا جو بچ گیا ہے، اللہ کے گھر میں کھڑا ہوں، آج تک ویسے کا ویسا ہے جیسے ابھی ابھی کارخانے سے نکلا ہو۔ چمنی تک نہیں ٹوٹی 50 سال سے۔ لالٹین تو بس ویسٹن جرمنی کے“

اس سے پہلے کہ صوفی ہاشم ایسٹ اور ویسٹ جرمنی کے لالٹینوں اور جرمنوں کا فرق اور ان کا جغرافیہ بتاتا۔ بابو فضل نے بات کو دوبارہ وہیں سے اٹھایا جہاں سے وہ بھٹک کر ہٹلر اور یہودیوں کی ہڈیوں تک چلی گئی تھی

 ”ہم نے تو سنا ہے شیعہ ہے“۔ بابو فضل نے درود کے بعد اپنے جثے پر پھونک مارتے ہوئے پوچھا

 ”بخاری سید ہے۔ سید زروار حسین شاہ نام ہے اور میرے ایک بہت قریبی جاننے والے کا جاننے والا ہے“ جبار وکیل نے ایک سانس میں اپنی بات مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا

 ”سنی سید ہے؟ “ بابو فضل نے تفتیشانہ لہجے میں پوچھا

 ”نہیں۔ لیکن باقیوں کی طرح کٹر نہیں ہے۔ اپنے غلام عباس شاہ جیسا بے ضرر شیعہ ہے“ وکیل کے لہجے سے یقین جھلک رہا تھا

 ”شیعہ شیعہ ہوتا ہے وکیل صاحب۔ یہ لوگ چودہ سو سال سے مسلمانوں کو تقسیم کر کے بیٹھے ہیں۔ مولانا غلام صدیق فاروقی کی لکھی تاریخ اسلام پڑھ کے دیکھ لو کہ کس طرح ان ظالموں نے امت کے ٹکڑے کیے ہیں۔ دور مت جاؤ حضرت ٹیپو سلطان کے ساتھ نمک حرامی کرنے والا میر صادق کون تھا؟ سراج الدولہ کے ساتھ غداری کرنے والے میر جعفر کا کیا مسلک تھا؟ اور تو اور ہندوستان کے مسلمانوں کو تقسیم کرنے میں بھی انہی کا ہاتھ ہے چاہے محمد علی جناح ہو یا لیاقت علی خان یا سر آغا خان۔ یہ لوگ نہ ہوتے توہندوستان پر آج بھی ہماری حکومت ہوتی“

مولوی ابراہیم نے چار جملوں میں اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ سمیٹ کر جبار وکیل کے منہ پر مار دی۔

 ”اللہ کی مہربانی اور علماءکی محنت سے محلہ ان تبرا بازوں سے خالی ہوا تھا اور تم ایک اور کو اپنا مکان کرائے پر دے کر دوبارہ وہ راستہ کھول رہے ہو جس کو ہمارے جوان بچوں نے اپنا خون دے کر بند کیا ہے“

یہ بات کرتے ہوئے بابو فضل کی آواز ایسے رندھ گئی جیسے آنسو آنکھ سے نکلنے کی بجائے اس کے گلے پر گر رہے ہوں

شاید اسے اپنا منجھلا بیٹاعاصم یاد آرہا تھا جس کی لاش چار سال پہلے کھیتوں سے ملی تھی لیکن قاتلوں کا سراغ نہیں ملا تھا۔ اللہ کے اس سپاہی نے جھنگ کے ایک مدرسے سے عالم کا کورس کرنے کے بعددن رات ایک کی محنت سے اسلام دشمنوں کو بے نقاب کر کے جوانوں میں اپنے مسلک کا شعور بیدار کیا۔ ورنہ اس سے پہلے تو سادہ اور معصوم سنی بے چارے نہ صرف ان سے میل جول رکھتے تھے بلکہ ایک دوسرے سے رشتے بھی کر دیتے تھے۔ سنیوں کے گھروں میں شیعوں کی بیٹیاں تھیں اور شیعوں کے گھروں میں سنی لڑکیاں۔ اس گمراہ فرقے کی کارستانیاں ایک ایک مسلمان تک پہنچانے میں مولانا عاصم کا بہت بڑا ہاتھ تھا اور اس کے پیچھے پوری جماعت کا ہاتھ تھا۔ اپنی اور امت کی بیداری اس لڑکے کا واحد قصور تھا اس لئے راستے سے ہٹا دیا گیا۔ لیکن اللہ کا انصاف تو ہونا ہی تھا۔ جن جن لوگوں پر بابو فضل کو شک تھا اس نے ایف آئی آر میں نہ صرف ان کو بلکہ ایران کے آیت اللہ خامنائی کو بھی نامزد کر دیا۔ محرم آنے سے پہلے پہلے ہی مولانا عاصم کی جماعت نے خامنائی کے سوا سارے نامزد مجرم ایک ایک کر کے مار ڈالے۔ خون ناحق کا بدلہ لے لیا گیا۔ بابو فضل کا گلا اسی شہید بیٹے کی یاد میں رندھ رہا تھا

 ”یہ زوار شاہ کرتا کیا ہے؟ “ صوفی ہاشم نے ماحول کی گھٹن کے کھڑے پانی میں اپنے سوال کا پتھر پھینکا

 ”پولیس میں ہے۔ اے ایس آئی۔ “ جبار وکیل نے جواب دے کر سنتوں کی نیت باندھ لی جو سب کے لئے اشارہ تھا کہ وہ اب اس موضوع پر مزید بات کرنے کی بجائے اپنے رب کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ سارے بزرگ اسے خدا کے حوالے کر کے مسجد سے باہر نکل گئے وکیل کی سنتیں ادا ہونے سے پہلے ہی یہ بزرگ اس خبر کو پھیلانے کا فرض ادا کر چکے تھے کہ ایک شیعہ پولیس والے نے اپنی وردی کی طاقت سے ان کے ایک سنی بھائی کا گھر کرائے پر حاصل کر لیا ہے۔ سارامحلہ زوار شاہ اے ایس آئی کے آنے کا انتظار کرنے لگا

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments