افسانہ وہم


موت چاروں طرف خوف کی صورت میں پھیلی ہوئی تھی۔ جیسے کوئی گوشت خور پرندہ کسی مردار کی تاک میں بیٹھا ہو، اس سے اٹھنے والے تعفن سے بھوک کو بڑھا رہا ہو۔ پیٹ بھر جانے کا احساس اسے سرور کی کیفیت میں مبتلا کر رہا ہو۔

اس نے بے بسی کے عالم میں اپنی کھڑکی سے باہر جھانکا۔ باہر ٹرکوں کی ایک لمبی قطار موجود تھی۔ جس کے اندر موجود مردہ جسم پر موت نے اپنے پنجے گاڑ کر ان جسموں کو شکست دے دی تھی۔ اسے یوں لگا موت اس کی گلی میں رقص کر رہی ہے۔ اس کی بے بسی پر ٹھٹھے لگائے جارہے ہیں۔

اس نے خوف کے عالم میں اپنے وجود پر گہری نگاہ ڈالی۔ موت اس کے حسن اور جوانی کا لحاظ کیے بغیر کسی بھی لمحے اسے دبوچنے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ وہ اس کائناتی نظام کے ارتقاء کے بارے میں جاننے میں دلچسپی لینے لگا۔ موت کا زندگی سے تعلق یا زندگی کا موت سے تعلق بیک وقت کتنا مضحکہ خیز اور اذیت ناک ہے۔ اس نے بے بسی سے اپنے سلوٹ زدہ بستر کو دیکھا اور پھر کپڑوں اور جوتوں کے اس ڈھیر کو جو بے جان الماری سے باہر جھانک رہے تھے

اس نے اپنا دھیان بٹانے کے لیے ٹی وی آن کیا۔ یہاں بھی ہر چہرے پر موت کا خوف ناچ رہا تھا۔ اندھی موت جو ہر آدمی کی رگوں سے ڈپریشن کی صورت میں قطرہ قطرہ زندگی کو نچوڑ رہی تھی۔

بچ جانے والے اپنی باری کے منتظر تھے مرجانے سے زیادہ مرنے کا خوف اذیت ناک ہوتا ہے۔
اسے اپنی ماں کی سونی کلائیاں یاد آئیں جن پر موت اس کے باپ کے مرنے پر بیوگی کی شکل میں لپٹ گئی تھی۔ اس کی آنکھوں سے نہ جانے کتنے ماہ تک آنسوؤں کی شکل میں بہتی رہی تھی اور پھر اس کے گالوں پر بے بسی کی صورت میں جم گئی۔

موت اس کے پورے وجود پر اسی واہمے کی صورت میں وقوع پذیر تھی اور وہم کا مرض اس وبائی مرض سے زیادہ خوفناک تھا۔

اس نے شیشے میں موجود اپنے عکس کو آخری بار بے بسی کے عالم میں دیکھا۔ موت کے سنّاٹے اس کی آنکھوں سے باہر جھانک رہے تھے۔ اس کے وجود پر اس وہم کا سایہ ہو چکا تھا۔

گولی کی آواز فضا کے سناٹے کو چیرتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہم اور موت اپنی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے اگلے شکار کی تلاش میں مصروف ہوگئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments