کورونا وائرس: ’مائی لارڈ گرفتاری کے لیے حاضر ہوں‘


کورٹ

جعل سازی کے مقدمے کے ملزم وقار احمد ان 270 سے زیادہ قیدیوں میں شامل تھے جنھیں وفاقی دارالحکومت کی ضلعی انتظامیہ نے کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کروایا تھا۔

ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر اسلام آباد ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ نے گذشتہ ماہ ان قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا جن کے مقدمات کی سماعت جاری تھی اور جن پر عائد الزامات پر سزا سات سال سے کم تھی۔

ان دونوں عدالتوں کے حکم پر 800 سے زیادہ قیدیوں کو رہا کیا گیا لیکن پھر سپریم کورٹ نے رہائی کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیے

سپریم کورٹ کا رہا کیے گئے قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری کا حکم

پاکستان میں 80 ہزار قیدیوں میں کسے رہا کیا جا سکتا ہے اور کیسے؟

’ہاتھ دھونے کی تاکید کے علاوہ کچھ نہیں ہو رہا‘

وقار احمد کو ایف آئی اے نے چند ماہ قبل جعلسازی کے مقدمے میں گرفتار کیا تھا اور حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے اپنی رہائی کے احکامات کالعدم قرار دیے جانے کے بعد انھوں نے جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دی تو انھیں بتایا گیا کہ وہ پہلے گرفتاری دیں تو ہی وہ ضمانت کی درخواست دائر کرنے کے اہل ہوں گے۔

اور وقار احمد نے وہیں عدالت میں یہ کہتے ہوئے گرفتاری دے دی کہ ’مائی لارڈ میں گرفتاری کے لیے حاضر ہوں۔‘

تاہم وقار ان چند ملزمان میں سے ہی ایک ہیں جنھیں اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے ادارے دوبارہ گرفتار کر پائے ہیں۔

اعلیٰ حکام نے پولیس کو تمام رہا کیے گیے ملزمان کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم تو دیا ہے اور ضمن میں ملزمان کے گھروں پر چھاپے بھی مارے گئے ہیں لیکن اس معاملے میں کامیابی نہیں مل رہی۔

اسلام آباد

اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’پولیس نے اب تک 270 میں سے صرف آٹھ ملزمان کو گرفتار کیا ہے جبکہ آٹھ ہی ملزمان کی ضمانتیں ہو چکی ہیں۔‘

اہلکار کے مطابق رہا کیے گئے ملزمان میں سے اکثریت کے خلاف مقدمات اسلام آباد کے 15 تھانوں میں درج ہیں۔ اسلام آباد پولیس کے حکام اور ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ رہا کیے جانے والے افراد میں اکثریت معمولی جرائم میں ملوث تھی جن میں خدشہ نقص امن کے مقدمات بھی شامل تھے اور چونکہ ایسے مقدمات میں ریاست مدعی ہوتی ہے اس لیے اُنھیں عدالت عالیہ کے حکم پر رہا کیا گیا۔

پولیس اہلکار کے مطابق رہا کیے جانے والوں میں ایسے ملزمان کی بھی ایک قابل ذکر تعداد ہے جنھیں انسداد گداگری ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا اور جرم ثابت ہونے پر اس قانون کے تحت مجرم کو تین سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

پولیس اہلکار کے مطابق متعلقہ تھانوں کے پاس ایسے ملزمان کا ریکارڈ نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ان ملزمان کی دوبارہ گرفتاری سب سے مشکل مرحلہ ہو گا کیونکہ اس میں قانونی پچیدگیاں بہت زیادہ ہیں۔

اہلکار کے مطابق گداگری کے ملزمان کہاں ہوں گے یہ کسی کو معلوم نہیں ہے کیونکہ گداگروں کے گینگ ہر ہفتے اپنا ٹھکانہ بدلتے رہتے ہیں۔

یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد اور پنجاب کے شہر راولپنڈی کے درمیان محض ایک سڑک حد کا کام کرتی ہے اور اگر ملزم فرار ہو کر راولپنڈی چلا جائے یا راولپنڈی کا کوئی ملزم اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو جائے تو اس کی گرفتاری کے سلسلے میں قانونی تقاضے پورے کرنے کا معاملہ صوبائی ہوم سیکرٹری سے چیف کمشنر تک جاتا ہے۔

اسلام آباد پولیس کے افسران کا کہنا ہے کہ ریزرو پولیس اور تھانوں میں تعینات پولیس اہلکاروں کی کورونا کی وجہ سے اضافی ڈیوٹیوں کے باعث بھی ان ملزمان کی دوبارہ گرفتاری ایک مشکل مرحلہ ہے۔

پاکستان

اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ ملزمان کی ضمانت کے معاملے میں سپریم کورٹ کے حکم نامے کو بھی دیکھا جا رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 55 سال کے ملزمان ضمانت کے حقدار ہیں تاہم اس سلسلے میں بھی پہلے ملزمان کی گرفتاری ضروری ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ان انڈر ٹرائل ملزمان کی گرفتاری سے متعلق رپورٹ 20 اپریل کو سپریم کورٹ میں جمع کروائی جائے گی۔

اسلام آباد کے علاوہ صوبہ سندھ میں ابھی ایسے ملزمان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جنھیں سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے دوبارہ گرفتار کیا گیا ہو۔

واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر 500 سے زیادہ ملزمان کو رہا کیا گیا ہے اور سندھ پولیس کے ذرائع کے مطابق رہا کیے گئے زیادہ تر افراد کا تعلق اندرون سندھ سے ہے۔

جب سندھ پولیس کے ڈائریکٹر پریس سہیل جوکھیو سے رہا کیے گئے ملزمان کی دوبارہ گرفتاری کے اعدادوشمار معلوم کیے گئے تو اُن کا کہنا تھا کہ ابھی تک اس کی مکمل تفصیلات دستیاب نہیں۔

تاہم سندھ پولیس کے سربراہ کے دفتر میں کام کرنے والے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اب تک رہا کیے جانے والے ملزمان میں سے صرف 27 افراد کو ہی دوبارہ گرفتار کیا جا سکا ہے۔

اہلکار کے مطابق صوبے کی مختلف جیلوں سے جن ملزمان کو رہا کیا گیا ان میں سے زیادہ تر مقدمات میں مدعی ریاست نہیں تھی بلکہ عام لوگ تھے اور ان ملزمان کی رہائی کے لیے مدعیان سے نہ کوئی رائے لی گئی اور نہ ہی انھیں کسی بھی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کوئی نوٹس جاری کیا گیا۔

اسلام آباد کے سابق ایڈووکیٹ جنرل طارق محمود جہانگیری کا کہنا تھا کہ ریاست کوئی بھی ایسا مقدمہ واپس لے سکتی ہے جس میں مدعی ریاست خود ہو لیکن جہاں پر معاملہ نجی ہو تو قانون کے مطابق اس میں ریاست مدعی مقدمہ کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کر سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp