ایک غیر معروف بندے کی آپ بیتی۔ حصہ دوئم


ہمارے پچھلے بلاگ کو احباب نے بہت پسند کیا اور تعریفوں کے اتنے ڈونگرے برسائے کہ ہم نے پھیل کر کُپا ہوتے ہوئے دوسرے حصے کا اعلان کر دیا۔ ہمارے اعلان کرنے کی دیر تھی کہ دوستوں کے ہاں صفِ ماتم بِچھ گئی۔ انہوں نے کہا کہ تو نے غیرضروری طور پر راز کھولنے کا ٹھیکہ اٹھایا ہے، ہمیں کیوں بدنام کرتا ہے۔ ہم بس اتنا ہی بولے کہ فرینڈز تو کمینے ہوتے ہیں۔

ابا جان ہمارے پولیس میں تھے اور سوائے پولیس کے کام کے ان کو اور کچھ کام نہ آتا تھا۔ گھر میں بھی کبھی ڈانٹ پڑتی تو بعض اوقات ایسے لگتا کہ جیل میں جیلر سے عزت کروا رہے ہیں۔ ان کی ڈانٹ کے دوران جب ہماری ماں بہن کا تذکرہ ہوتا تو ہماری غیرت پھر بھی سوئی رہتی تھی۔ اس کی دو وجوہات تھیں، پہلی تو یہ کہ غیرت جگا کر ابا جان سے تشریف سجوانے کا ہمیں کوئی شوق نہیں تھا، اور دوسری وجہ یہ تھی کہ بہن ہماری کوئی تھی نہیں اور اماں ہماری اُن ہی کی زوجہ محترمہ تھیں، تو غیرت نے کیا خاک جاگنا تھا۔

گھر میں ایک دفعہ بیل بجی۔ ابا جان خود ہی دیکھنے گئے۔ واپس آئے اور آ کر کہتے باہر جو بندے کھڑے ہیں انہیں اکبر کے گھر چھوڑآؤ۔ میں میٹرک میں تھا۔ چھوٹے بھائی کو ساتھ لیا اور ہم گلیوں کی بھول بھلیوں میں ان کو اکبر کے گھر چھوڑ آئے۔ واپس آئے توایک طوفان ہماری راہ تک رہا تھا۔ ابا کا خیال تھا کہ ہم بس گلی کے نکر تک چھوڑ کر آگے پتا سمجھا دیں گے، مگر ہمارے نزدی کرستہ اتنا مشکل تھا کہ خود چھوڑ کر آنے کے سوا چارہ نہیں تھا۔ خیر، خوب عزت افزائی ہوئی، ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تیری عمر دا تیرا دادا سی اِک پتر دا پیو سی (تیری عمر کا تیرا دادا تھا تو ایک بیٹے کا باپ تھا) ۔ ہمارے ذہن میں پتا نہیں کیا سمائی ہم آگے سے بولے میرا وی ویاہ کردو میں وی پیو بن جاں گا (میری بھی شادی کر دیں میں بھی باپ بن جاؤں گا) ۔ آگے مؤرخ کا صفحہ بھی خالی ہی ہے۔

ہماری تربیت ایک سخت گھرانے میں ہوئی، والدہ محترمہ والد صاحب سے ڈرتیں تھیں اور ہم والدہ محترمہ سے۔ مجال کوئی اوٹ پٹانگ کی حرکت سوچ بھی لیں، کرنا تو دور کی بات۔ مگر سکول کے لڑکوں سے اور محلے میں کھیل کے دوران کچھ باتیں ذہن میں بیٹھ جاتیں تھیں۔ ایک دفعہ والدہ محترمہ کے سامنے کہیں ’کپڑے آنے‘ کا محاورہ کیا بول دیا، ہماری والدہ محترمہ تو پریشان ہی ہو گئیں کہتمہیں ان الفاظ کا کیسے پتا ہے۔ ہم نے سادگی سے کہہ دیا کہ باہر لڑکوں سے سنا تھا، پھر کئی دن ہمارے دوستوں کی تحقیق و تفتیشمیں گزرے۔

میٹرک کا رزلٹ آیا تو اماں ہمارے ساتھ سکول گئیں۔ ہمارا ایک کلاس فیلو ساتھ کھڑا تھا، اماں نے اس سے پوچھا کہ بیٹا آپ کے کتنے نمبر آئے، اس نے بڑے فخر سے بولا کہ آنٹی سات سو اکیس نمبر آئے ہیں۔ اماں نے شرمندگی سے کہا ماشاءاللہ، میرے بیٹے کے تو آپ سے دو سو نمبر کم ہیں۔ ہم ساتھ ہی بے شرمی کا کوہِ وقار بنے ڈٹے کھڑے رہے۔

ہماری شرافت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ دوستوں کے ساتھ سیروز سینما میں گیارہ بجے والا سپیشل شو دیکھنا تھا جس کے لئے پنجاب کالج کی آخری کلاس ’پُھٹنی‘ پڑنی تھی۔ ایک دوست کو اپنی جگہ حاضری لگانے کا کام سونپا اور خود اپنے دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے چلے گئے۔ فلم توقع سے زیادہ لمبی نکلی، پھر انڈے کے بغیر والا انٹرنیشنل برگر بھی کھانا تھا۔ لیٹ ہو رہے تھے اور سب دوستوں کے چہروں پر بارہ بج رہے تھے۔ ہم تسلی میں بیٹھے تھے کہ ایک دوست سے رہا نہیں گیا اور پوچھا، تجھے جلدی گھر جانے کی فکر نہیں؟ ہم بے فکری سے بولے کہ ہم اماں کو بتا کر آئے تھے کہ آج ہم کلاس سے ’پُھٹ‘ کر فلم دیکھنے جائیں گے۔

ہم دونوں بھائی ”کے پی ایم جی“ سے آرٹیکلز کر رہے تھے، موٹرسائیکل پر جاتے تھے۔ صبح آفس جاتے چھوٹا بھائی بائیک چلاتا تھا اور واپسی پر ہم چلاتے تھے کیونکہ ہمارا چھوٹا بھائی کہتا تھا کہ اس سے رات کو بائیک نہیں چلتی۔ ایک دن دونوں تیار ہوئے، ناشتہ کیا اورگیٹ کھول کر ہم نے بائیک باہر نکالا۔ اماں بھی گیٹ بند کرنے ساتھ ہی آئی تھیں۔ چھوٹے بھائی نے ہمیں کہا کہ آپ چلاؤ، ہم نے کہا رات کو بھی ہم نے چلانا ہے اس لئے ابھی آپ چلاؤ۔ اس نے کہا میں نہیں چلاؤں گا۔ ہم نے کہا ہم بھی نہیں چلائیں گے۔ اماں چپ کر کے یہ تماشا دیکھتی رہیں۔ ہم نے جب دیکھا کہ یہ ہل نہیں رہا تو ہم نے بائیک کو اندر کھڑا کیا اور پیدل سڑک کی طرف چل پڑے۔ وہ بھی ڈھیٹ ہڈی تھا، ساتھ پیدل چل پڑا۔ پھر اس دن ہم دونوں پبلک ٹرانسپورٹ میں باجماعت ذلیل ہوئے۔

کہاوت مشہور ہے کہ ’سوچی پیا تے بندہ گیا‘ ، اس لئے ہم نے سوچنے کو او ایس ڈی بنا کر ہمیشہ جو منہ میں آیا اور جس کے سامنے بھی منہ میں آیا بک دیا۔ ایک دو دفعہ کے سوا ہماری بچت ہی رہی۔ مگر جو ایک دو دفعہ پھنسے تو ہمارے استادوں نے بھی کہا کہ الفاظ کو تھپڑ بنا کر منہ پر نہیں دے مارتے (جب ہم بکتے ہیں اور جیسا ہم بکتے ہیں، آپ ’تھپڑ‘ کو پنجابی والی ’چپیڑ‘ ہی پڑھیں اورسمجھیں ) ، دھیرے سے، پیار کے ساتھ، عزت سے اختلاف کیا کرو کہ دوسرے کو محسوس نہ ہو۔ مگر ہم نہیں مانتے، جب تکہمارے لفظوں کی کاٹ دوسرے کے جگر کو پاش پاش نہ کرے، اس کے دل کی دھڑکن کو تیز گام نہ بنائے، آنکھوں میں ذلت کی نمینہ پڑے، چہرے میں حیرانگی اور پریشانی کی تہ نہ جمائے اور جوابی الفاظ کی گھگی نہ بندھوائے، تو کیا فائدہ اختلاف کرنے کا۔ لیکناب عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ یہ مومنانہ منافقت سیکھ رہے ہیں۔ ابھی سیکھ نہیں پائے کیونکہ پچھلے کچھ عرصے میں کوئی سات آٹھ لوگوں کی چولوں پر جب وجد طاری ہوا تو زباں کی قینچی نے وہ وہ مغلظات کی تراکیب ایجاد کر کر کے تجربہ کے طور پر بکیں کہ پنجابی گالیوں کے موجدِاعلیٰ خواب میں آ کر ہماری بیعت ہو گئے۔

جب ہمارا سی اے (گلے میں ) پھنسا ہوا تھا تب اماں جان کے پُر زور اصرار پر سی ایس ایس کے فارم جمع کرا دیے۔ دسمبر میں پیپرتھے اور اگست چل رہا تھا۔ ہسٹری کا سبجیکٹ بھی اٹھا لیا تھا جس کا سلیبس پندرہویں صدی عیسوی سے اُس سال تک کا تھا۔ موٹی موٹی دو کتابیں تھیں جن کو دیکھ کر جان حلق میں آتی تھی۔ پتا تھا کہ اب فلائینگ کلرز میں فیل ہو جانا اور پورے خاندان میں خوب ذلالت ہونی۔ لیکن اب امتحان سے جان چھڑائیں بھی تو کیسے۔ انہی دونوں اخبار میں فوج کے کمیشنڈ افسر کا اشتہار آیا۔ ہم نے بھی اپلائی کر دیا اور اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ ابتدائی ٹسٹ پاس ہوگیا۔ ہم نے گھر آ کر اعلان کیا کہ فوج کا ابتدائی ٹسٹ پاس ہوگیا ہے، اب آئی ایس ایس بی کی کال آنی ہے، بتائیں کہ سی ایس ایس کی تیاری کروں یا آئی ایس ایس بی کی۔ متوقع طور پر اماں ابانے فوج کے حق میں فیصلہ کیا، ہماری سی ایس ایس سے جان چھوٹی اور بعد میں ہم الحمدللہ آئی ایس ایس بی میں بھی رہ گئے۔

فی الحال اسی پر اکتفا کریں، اب یہ قارئین پر منحصر ہے کہ یہ خاکسار غیر معروف بندہ ناچیز حقیر پُر تقصیر حصہ سوئم لکھتا ہے یا اپنی سوانح نوعمری کے سوئم پر قُل پڑھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments