انڈیا: کورونا وائرس کا شکار مریضوں کو بچانے کے لیے کم لاگت والے وینٹیلیٹر بنانے کی کوششیں


India hospital

انڈیا کے شہر پونے میں آٹھ ہزار مربع فٹ پر محیط ایک لیبارٹری میں نوجوان انجینیئرز کی ایک ٹیم جلد از جلد کم قیمت والے وینٹیلیٹرز تیار کرنے کی جستجو میں سرگرداں ہے۔

ملک میں کورونا وائرس کی وبا شدت اختیار کرنے سے پہلے وہ وینٹیلیٹر تیار کرنے کا کام مکمل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہزاروں قیمتی زندگیوں کو بچایا جا سکے۔

انڈیا کے مشہور تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے ان انجینیئرز کا تعلق بمشکل دو سال قبل بننے والی ایک سٹارٹ اپ کمپنی سے ہے جو شمسی توانائی کے پلانٹس کی صفائی کے لیے خود کار روبوٹس بناتی ہے۔

گذشتہ سال ’نوکو روبٹکس‘ نامی اس کمپنی کی سالانہ آمدن 27 لاکھ انڈین روپے تھی۔ اس میں کام کرنے والے مکینیکل، الیکٹرانک اور ایرو سپیس انجینیئرز کی اوسطً عمر 26 برس ہے۔

ایک اندازے کے مطابق انڈیا کے پاس صرف 48 ہزار وینٹیلیٹر ہیں۔

بی بی سی بینر

کورونا کے بارے میں آپ کے سوال اور ان کے جواب

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟

کورونا وائرس: انڈیا میں لاک ڈاؤن ایک انسانی بحران بن گیا

کورونا وائرس: بھوپال کے ڈاکٹر کی تصویر کیوں وائرل ہو گئی


مصنوعی ذریعے سے مریضوں کی سانسیں بحال رکھنے والی ان 48 ہزار مشینوں میں کتنی قابل استعمال اور کتنی ناکارہ ہیں، اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔ لیکن یہ فرض کرنا غلط نہیں ہو گا کہ یہ مشینیں انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں مختلف بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے علاج میں کام میں لائی جا رہی ہوں گی۔

کووِڈ 19 کی لپیٹ میں آنے والے چھ مریضوں میں سے ایک مریض کا مرض شدید نوعیت کا ہوتا ہے۔ شدید مرض میں مبتلا مریضوں کو سانس لینے میں بہت دشواری پیش آتی ہے۔ دنیا بھر کی طرح انڈیا کے ہسپتال بھی مشکل صورت حال سے نمٹنے کی کوشش میں ہیں اور ڈاکٹر یہ تلخ فیصلے کرنے پر مجبور ہیں کہ کس مریض کو بچایا جا سکتا ہے اور کس کو نہیں۔

انڈیا میں اس وقت صرف دو کمپنیاں وینٹیلیٹرز تیار کرتی ہیں اور وہ بھی درآمد شدہ پرزوں اور آلات سے۔ ایک وینٹیلیٹر ڈیڑھ لاکھ روپے میں پڑتا ہے۔

انڈیا

ان میں سے ایک کمپنی ’اگوا ہیلتھ‘ 20 ہزار وینٹیلیٹر ایک ماہ میں تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انڈیا نے 10 ہزار وینٹیلیٹرز چین سے خریدنے کا آرڈر دے رکھا ہے لیکن جتنی تعداد میں ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے اس کو پورا کرنے کے لیے یہ سب انتہائی ناکافی ہوں گے۔

نوکو روبوٹکس میں تیار کیے جانے والے وینٹیلیٹر پر 50 ہزار روپے کی لاگت آئے گی۔ پانچ دن کے اندر ہی سات انجینیئرز پر مشتمل ایک ٹیم نے تین تجرباتی مشینیں بنا لی ہیں جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ باآسانی لے جایا جا سکتا ہے۔

تجرباتی طور پر تیار کی گئی ان مشینوں کو مصنوعی پھیپھڑوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مصنوعی پھیپھڑے بھی اصلی پھیپھڑوں کی طرح خون میں آکسیجن شامل کرنے اور کاربن ڈائی آکسائڈ صاف کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں سات اپریل تک یہ مشینیں انسان پر استعمال کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گی۔

انڈیا کے شہر بنگلور میں دل کے امراض کے ایک مرکز سے وابستہ ڈاکٹر دیپک پدمانبھن کا کہنا ہے کہ یہ یقینی طور پر قابل عمل ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کا تجربہ مصنوعی پھیپھڑوں پر کر لیا گیا ہے اور یہ ٹھیک ٹھاک کام کر رہے ہیں۔

متاثر کر دینے والی کہانی

انڈیا

ملک کے اندر کم لاگت سے ان مشینیوں کو تیار کرنے کی یہ کہانی بلاشبہ بہت حوصلہ افزا ہے اور سرکاری اور غیر سرکاری شعبے میں تعاون اور سرعت سے کام کرنے کی ایک عمدہ مثال، جو انڈیا میں کم ہی دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے۔

انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) میں بائیولوجیکل سائنسز اور بائیوانجینیئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے پروفیسر امتابھ بنڈو پانڈیا کا کہنا ہے کہ یہ عالمی وبا لوگوں کو اتنے قریب لے آئے گی اس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

نوجوان انجینیئرز نے انٹرنیٹ سے وینٹیلیٹر بنانے کی تمام معلومات حاصل کیں۔ اجازت ملنے کے صرف آٹھ گھنٹوں بعد انھوں نے ایک تجرباتی مشین تیار کر لی تھی۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کا ڈیزائن ایم آئی ٹی کے انجینیئرز نے خود تیار کیے ہیں۔ درآمدات میں مشکلات کی وجہ سے انجینیئروں نے پریشر سینسر، جو ان مشینوں کا اہم ترین جزو ہوتا ہے اور پھیپھڑوں کو ایک مخصوص پریشر پر آکسیجین فراہم کرتا تاکہ یہ زخمی نہ ہو جائیں، مقامی طور پر حاصل کیے ہیں۔

مقامی مارکیٹ میں ڈرونز میں استعمال ہونے والے پریشر سنسرز دستیاب تھے۔

مقامی حکام نے ان کمپنیوں جن کے پاس یہ آلات موجود تھے ان کو کھلوانے میں مدد کی۔ ہر ایک مشین میں ڈیڑھ سو سے دو سو آلات لگتے ہیں۔ حکام نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ جو انجینیئر لاک ڈاؤن کے بعد اپنے گھروں کو چلے گئے تھے وہ اس مشین کو تیار کرنے کے لیے پونے واپس لوٹ سکیں۔

انڈیا کی چند بڑے بڑے صنعتی اداروں نے جن میں طبی آلات تیار کرنے والی کمپنیاں بھی شامل ہیں انھوں نے ان مشینیوں کو وسیع پیمانے پر تیار کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ارادہ یہ ہے کہ ہر روز ڈیڑھ سے دو سو وینٹیلیٹر بنائے جائیں اور اس حساب سے مئی کے وسط تک 30 ہزار ویٹیلیٹرز دستیاب ہو جائیں گے۔

سوشل میڈیا کی بااثر شخصیات بھی اس کاوش میں شریک ہو گئی ہیں۔ آئی آئی ٹی کے سابق طالب علم اور لیتھیم بیٹریاں بنانے والی کمپنی کے مالک راہول راج نے ’کیئرنگ انڈیا‘ کے نام سے سوشل میڈیا پر ایک گروپ بنایا ہے تاکہ لوگ اجتماعی طور وسائل مہیا کر سکیں اور وبا سے نمٹنے کے لیے وسائل اور تجربے کو اکھٹا کیا جا سکے۔

صرف 24 گھنٹوں میں ایک ہزار لوگ اس گروپ میں شامل ہوئے ہیں۔ راہول راج نے بتایا کہ انھوں نے مقامی منتخب نمائندوں اور پولیس حکام کو ٹوئٹر پیغامات بھیجے جن میں ان سے وینٹیلیٹرز بنانے والوں کی بھرپور مدد کرنے اور ان لوگوں سے رابطہ کرانے کا کہا گیا جو اس منصوبے میں مدد کرنا چاہتے ہیں۔

’بنیادی مشین‘

انڈیا

بیرونی ممالک میں مقیم ڈاکٹروں اور انجینیئروں، جنھوں نے آئی آئی ٹی سے ہی تعلیم حاصل کی تھی اور جن میں گوگل کمپنی کے سربراہ سندر پچائی شامل ہیں، نے وینٹیلیٹرز تیار کرنے والے نوجوان انجینیئروں سے ’زوم‘ کے ذریعے کانفرنس کالز کر کے اس مشین کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور مشورے بھی دیے ہیں۔

گوگل کمپنی کے چیف نے ان انجینیئروں کو 90 منٹ تک لیکچر دیا کہ کس طرح مشینوں کی پیداوار کو منظم کیا جا سکتا ہے۔

آخر میں ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے ان مشینیوں کی تیاری کا جائزہ لیا اور سخت سوالات پوچھے۔

اس کے علاوہ ایک درجن سے زائد ماہرین، جن میں کارڈیالوجسٹ، پلمونولوجسٹ، سائنسدان، تخلیق کار اور سرمایہ کار شامل تھے، نے اس ٹیم کو رہنمائی فراہم کی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد ایسی مشین تیار کرنا ہے جو انڈیا کے حالات کے لیے موزوں ہو۔

وینٹیلیٹرز کا انحصار پریشرائزڈ آکسیجن کی فراہمی پر ہوتا ہے جو ہسپتالوں میں لگے پلانٹس سے آتی ہے۔

لیکن اس ملک میں جہاں بہت سے شہروں اور دیہاتوں میں پائپوں کے ذریعے آکسیجن فراہم کرنے کا نظام موجود نہیں ہے وہاں انجینیئرز کے سامنے یہ سوال بھی ہے کہ کیا ایسی مشین بنائی جا سکتی ہے جو آکسیجن کے سلینڈروں پر چل سکے۔

ڈاکٹر پدمانبھن نے کہا کہ ایک طرح سے وہ جدید مشینیوں کو دوبارہ اس سطح پر لے جا رہے ہی جہاں وہ 20 سال قبل تھیں۔

نوکا روبوٹکس کے بانی اور سربراہ 26 سالہ نکہل کیرلے کا کہنا ہے کہ ’ہم تجربہ کار نہیں ہیں۔ لیکن ہم مصنوعات بنا سکتے ہیں۔ جو روبوٹ ہم بناتے ہیں وہ کافی پیچیدہ ہیں۔ یہ انسانی جان بچانے کی مشین ہے اور یہ ایک حساس کام ہے لہذا ہم بہت احتیاط سے کام کر رہے تاکہ ایک بہترین مشین بنائی جا سکے جو سب کے معیار پر پوری اترے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp