مدبر لیڈر انتقام پر مبنی فیصلے نہیں کرتے


مدبر لیڈر منتقم مزاج نہیں ہوتے وہ آتش انتقام میں جھلس کر فیصلے صادر نہیں کرتے بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ مخالفین پر فتح حاصل کرتے ہیں جو تاریخ میں انھیں امر کر دیتے ہیں۔

ظہیرالدین بابر بارہ ہزار سپاہ کے ساتھ اپنے سے کئی گنا بڑی سپاہ رکھنے والے ابراہیم لودھی کو پانی پت کے میدان میں شکست دیتا ہے۔ ابراہیم لودھی کی ماں قیدی کی حیثیت سے بابر کے سامنے آتی ہے بابر اُسے منہ بولی ماں کا درجہ دے کر محل میں لے آتا ہے۔

پریمقفل قادروف اپنی کتاب ”ظہیرالدین بابر“ میں لکھتا ہے کہ ابراہیم لودھی کی ماں بیٹے کی شکست کا غم بُھلا نہیں پاتی وہ انتقام کی آگ میں جھلس رہی ہوتی ہے اُس نے بابر سے انتقام لینے کے لیے شاہی ”چاشنی گیروں“ (خانساماں ) کو ساتھ ملا کر بابر کو کھانے میں زہر ملا کر کھلایا۔ زہر ملا کھانا کھانے کے بعد بابر سات دن موت و زیست کی کشمکش میں رہا بالاآخر مضبوط اعصاب کا مالک بابر موت کو شکست دے کر صحت یاب ہوا۔

صحت یاب ہونے کے بعد بابر دربار لگاتا ہے مقدمہ کی سماعت شروع ہوتی ہے ابراہیم لودھی کی ماں اعتراف جرم کرتی ہے اور کہتی ہے یہ سازش نہیں میرا انتقام تھا یہ انتقام اُس خون کا تھا جو آپ نے بہایا۔ ابراہیم لودھی کی ماں دلائل دے رہی تھی تو بابر کا مشیر خاص ملک داد کرانی بول اُٹھا آپ نے تو ماں کے مقدس نام کو بھی داغ دار کر دیا۔ مشیر خاص چیخ چیخ کر مطالبہ کر رہے تھے کہ ابراہیم لودھی کی ماں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔

اُس زمانے کے دستور کے مطابق بادشاہ کے خلاف سازش کی سزا عبرت ناک موت ہوا کرتی تھی۔ کوئی اُسے گھوڑوں کی سُموں تلے اور کوئی ہاتھیوں کے پاؤں تلے روند دینے کی تجاویز دے رہا تھا۔ بابر خاموشی سے مشیروں کی باتیں سنتا رہا۔ بابر کے لبوں نے جنبش کی اور وہ بولا کہ میں نہ صرف انھیں معاف کرتا ہوں بلکہ سن رسیدہ خاتون کی زندگی کی آخری ایام تک حفاظت کرنے کا حکم دیتا ہوں۔

27 برس پابند سلاسل رہنے کے بعد نیلسن منڈیلا جب رہا ہوکر آزاد دنیا میں واپس آئے تو ہر چیز بدلنے کے ساتھ نیلسن منڈیلا خود بھی بدل چکے تھے اور طویل عرصے قید و بند کی صعوبتوں نے ایک نوجوان کو سن رسیدہ شخص میں تبدیل کردیا تھا۔ سفید فام اقلیت کے ظلم کا سورج ڈوب چکا تھا اور سب کو یہ ادراک ہو گیا تھا کہ نیلسن منڈیلا ہی ملک کے آئندہ صدر ہوں گے۔ سفید فام اقلیت کو یہ خوف تھا کہ سیاہ فام نیلسن منڈیلا کے صدر بننے کے بعد اُن کے ساتھ نہ جانے کیا سلوک کیا جائے گا۔

اسی طرح وہ جیلر جس نے جیل میں کئی عرصے تک نیلسن منڈیلا کے ساتھ ذلت آمیز رویہ روا رکھا اُنہیں اذیتیں دیں اور ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا، وہ بھی اِس خوف میں تھا کہ نیلسن منڈیلا اپنی رہائی کے بعد اُس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے لیکن جیلر اُس وقت انگشت بدنداں رہ گیا جب نیلسن منڈیلا جیل سے نکلتے ہی واپس پلٹے جیلر سے بغل گیر ہونے کے بعد اُس کے اہل خانہ کی خیریت دریافت کی اور پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا۔

نیلسن منڈیلا رہائی کے کچھ سال بعد عام انتخابات میں جنوبی افریقہ کے صدر منتخب ہوئے۔ اُن کے برسراقتدار آنے کے بعد اُمید کی جارہی تھی کہ وہ عدلیہ کے سفید فام ججز اور وہ وکلا جنہوں نے اُنہیں بغیر کسی جرم کے عمر قید کی سزا دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا انتقام لیں گے مگر عظیم نیلسن منڈیلا نے قید تنہائی کے دوران ہر ایک کو دل سے معاف کرنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا سبق سیکھ لیا تھا۔

نیلسن منڈیلا کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جنوبی افریقہ کا سفید فام وکیل پرسی یوتر جو سیاہ فاموں سے سخت نفرت کرتا تھا اور اُنہیں غلام سمجھتا تھا، نے نیلسن منڈیلا پر بغاوت کے مقدمے میں حکومت کی وکالت کرتے ہوئے عدلیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اُنہیں عمر قید کی سزا دلوائی اور زنجیروں میں جکڑ کر جنوبی افریقہ کی بدنام زمانہ جیل میں منتقل کروایا جہاں نیلسن منڈیلا نے عہد شباب کے قیمتی سال گزارے حتیٰ کہ اُنہیں والدہ اور بیٹے کی آخری رسومات میں شرکت کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ جب نیلسن منڈیلا پس زنداں سے رہا ہونے کے بعد ملک کے صدر منتخب ہوئے تو متعصب سفید فام وکیل پرسی یوتر ملک سے فرار ہونے کا منصوبہ بنانے لگا۔

اسی دوران نیلسن منڈیلا نے اُسے صدارتی محل میں کھانے پر مدعو کیا پرسی اس سوچ میں پڑگیا کہ اگر وہ صدارتی محل گیا تو وہاں سے اُسے جیل بھیج دیا جائے گا یا پھر قتل کردیا جائے گا مگر جب وہ صدارتی محل پہنچا تو یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ نیلسن منڈیلا نے خود دروازے پر کھڑے ہوکر اُسے خوش آمدید کہا اور خاطر تواضع کے بعد اس کا شکریہ ادا کیا۔ نیلسن منڈیلا کا حسن سلوک دیکھ کر پرسی نے اُن سے کہا کہ میں نے تو آپ کے ساتھ بڑی زیادتیاں کی ہیں اور میں اس احسان کا مستحق بھی نہیں تھا جس پر نیلسن منڈیلا نے کہا کہ ”میں نے تمہیں دل سے معاف کردیا ہے۔ “ یہ سن کر سفید فام متعصب وکیل دھاڑے مار مار کر رونے لگا اور اُسے یہ اعتراف کرنا پڑا کہ نیلسن منڈیلا ایک عظیم لیڈر ہیں۔

نیلسن منڈیلا چاہتے تو اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ساتھ کی گئی زیادتیوں اور نا انصافیوں کا بدلہ مخالفین سے لے سکتے تھے جس کے نتیجے میں ملک خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا تھا مگر انہوں نے ہر کسی کو دل سے معاف کرکے عظیم لیڈر ہونے کا ثبوت دیا جس پر اُنہیں نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا۔ ان کی یہ کہاوت مشہور ہے کہ ”ہر چیز اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک ممکن نہ ہوجائے۔

دوسری طرف ہمارے وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ کی بات شدومد سے کرتے ہیں انھیں پتہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے آخری نبی صلعم نے جب مکہ فتح کیا تو انھوں نے نہ صرف عام معافی کا اعلان کیا بلکہ اپنے جانی دشمن ابو سفیان کے گھر میں پناہ لینے والوں کو بھی معاف کر دیا۔ ریاست مدینہ کی بنیاد ہی صلح جوئی پر رکھی گئی تھی انتقام نام کی کوئی چیز ریاست مدینہ میں نہ تھی۔

مدبر لیڈر انتقام پر مبنی فیصلے نہیں کرتے انتقامی کارروائیوں سے ملک انارکی کی طرف جاتے ہیں ترقی کا پہیہ اُلٹا چلنا شروع ہو جاتا ہے لوگوں کا اعتماد لیڈر سے اُٹھ جاتا ہے دانشور لیڈر پچاس سال کی منصوبہ بندی کر کے فیصلے کرتے ہیں جس سے آنے والی نسلوں کو فوائد ہوں۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments