گول روٹی نہ پکانے والی انیقہ خالد کا جنت سے اپنے والد کے نام خط


میرے پیارے بابا

یہاں وقت کا پتہ نہیں لگتا پر سنا ہے ایک سال گذر گیا ہے۔ پر میں ایک پل کو بھی اس دن کو بھولی نہیں ہوں۔ پتہ ہے اس دن میں بہت خوش تھی کہ آج میں اپنے بابا کو اپنے ہاتھ سے روٹی بنا کر کھلاؤں گی اور مجھے اس بات کا یقین بھی تھا کہ آپ میری اس کوشش کی بہت تعریف کریں گے، میرے ماتھے کو بوسہ دیں گے، میرے ہاتھوں کو پکڑ کر کبھی اپنے رخسار سے لگائیں گے اور کبھی اپنے آنکھوں پر رکھ کر میرے اس کارنامے کی تعریف کریں گے، میری ہتیھلی پر دس بیس کا نوٹ رکھ کر کہیں گے کہ جا اپنی من پسند چیز کھا لے اور میں آپ کی اس شاباش سے خوشی سے پھولے نہ سماؤں گی۔

ابھی یہ سپنا دیکھا ہی تھا کہ آپ نے دروازے پر زور زور سے دستک دی، اس دستک کے سنتے ہی کچھ دل دہل سا گیا، ایک انجانا خوف سا دل میں ہوا، دروازہ کھولتے ہی آپ کو سلام کیا مگر بابا آپ نے مجھے سلامتی کی دعا نہ دی اور میں اپنی موت کا سبب بنے والی روٹی پکانے کو بھاگی، میرے ہاتھوں سے پکی روٹی آپا آپ کو دے کر ہی آئی تھی کہ آپ کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ یہ وہ آواز تھی جس کا مجھے انتظار تھا مگر اس آواز میں شہد کی شیرینی نہ تھی بلکہ اس میں غصے کی شدید کڑواہٹ تھی۔

میں بھاگی بھاگی سہمے دل کے ساتھ آپ کے پاس آئی تو آپ غصے سے بے قابو ہو رہے تھے، آپ کا چہرہ شعلے برسا رہا تھا، جس کی تپش مجھے دور تک محسوس ہو رہی تھی، آپ مجھ سے نالاں تھے کہ میں نے آپ کو گول روٹی پکا کر نہیں دی، مگر بابا میری عمر تو صرف بارہ سال تھی، جس وقت میں نے آپ کے لئے روٹی پکائی اس وقت میری کچھ ہم جولیاں درختوں پر جھولا ڈالے جھولا جھول رہی تھیں اور کچھ گلی محلے میں اپنے بہن بھائی اور دوستوں کے ساتھ کھیل میں مصروف تھیں اور میں اپنے بابا کو خوش کرنے کے لئے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے روٹی توے پر ڈال رہی تھی۔

مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ خوش ہونے کی بجائے اتنے خفا ہو جائیں گے کہ آپ میرے اوپر ڈنڈوں کی برسات ہی کر دیں گے، اس وقت میں نے سوچا کاش بابا میں نے آپ کو خوش کرنے کے لئے یہ روٹی نہ پکائی ہوتی، لیکن اس سوچ کے آتے ہی میں نے یہ شکر کیا کہ یہ روٹی میں نے ہی پکائی تھی، ورنہ آج میری جگہ آپا یہ ڈنڈے کھا رہی ہوتیں اور ہر ایک ڈنڈے پر آپ سے معافی کی طلبگار ہوتیں، شکر ہے آپا تم اس کرب اور تکلیف سے بچ گئیں۔

بابا میں موت کو گلے لگاتے یہ سوچ رہی تھی کہ آپ تو میرے پیارے بابا ہو، آپ مجھے اس دنیا میں لانے کا سبب بنے ہو، آپ میری موت کی وجہ کیسے بن سکتے ہو، بابا میں نے کوئی ایسی خطا تو نہ کی تھی کہ جس کی سزا مجھے اتنی بھیانک دی گئی۔ ایک روٹی ہی تو تھی جس کے گول ہونے یا نہ ہونے سے پیٹ کے ایندھن کو کیا فرق پڑتا، کاش بابا میں اماں کی طرح آپ سے روٹھ کر اماں کے ساتھ چلی جاتی تو میں اس اذیت ناک موت سے بچ جاتی۔

ڈنڈے کی ہر ضرب پر یہ خیال آیا کہ شاید اس بار آپ کا دل لرزے گا، آپ کا ہاتھ کانپے گا مگر ہر بار ضرب کاری سے کاری ہوتی چلی گی، سر پر ڈنڈے برسانے کی وجہ سے مجھے ایسا لگا کہ میرا دماغ مفلوج ہوتا جا رہا ہے مگر اس مفلوج دماغ کے ساتھ بھی مجھے یہ اُمید تھی کہ آپ مجھ پر رحم کرو گے کیوں کہ آپ میرے بابا جان تھے، میرے اچھے بابا تھے، مگر میرے یقین کو آپ نے بے یقینی میں بدل ڈالا۔

میں نے تو یہ سن رکھا تھا کہ ماں باپ بچوں کو تکلیف میں دیکھ کر بوکھلا جاتے ہیں، ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں، ان میں سوچنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، ان کے دماغ کام کرنا بند کر دیتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ آپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا، ڈنڈے برسانے کی وجہ سے میرے سر سے جو خون بہنے لگا تھا تو آپ میرے خون کو دیکھ کر گھبرا گئے ہوں گے اور جس وقت آپ نے اپنی لاڈلی کے سر سے خون بہتے دیکھا تو آپ کا دماغ بھی مفلوج ہوگیا ہوگا، آپ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہوں گے، ہے نا بابا؟، کہو نا بابا، ایسا ہی ہوا تھا۔ بابا اگر آپ نے یہ نہ کہا تو میں ایک بار پھر سے مرجاؤں گی۔ ایک بار صرف ایک بار کہہ دیں بابا، اگر یہ جھوٹ بھی ہے تو آپ کو میری قسم آپ سچ مت بولنا۔

مجھے آپ سے صرف ایک گلہ ہے، مجھے بتائیں کیا میں آپ سے بہت فرمائشیں کرتی تھیں، چند کپڑے اور دو وقت کی روٹی ہی تو مانگتی تھی، اس کے علاوہ تو کسی چیز کی فرمائش کبھی نہ کی تھی، باپ تو اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت دنیا جہان کی دولت اس پر نچھاور کرتے ہیں، ان کے بن مانگے، بن کہے ان کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں اور آپ نے، آپ نے بابا میری لاش کو بے کفن بے یارو مددگار مردہ خانے کے باہر چھوڑ دیا۔ میں لاوارث نہیں تھی میں آپ کی سگی بیٹی تھی، میں تو آپ کا اپنا خون تھی، کیوں بابا آپ نے ایسا کیوں کیا؟

اس کے باوجود بابا آپ اب بھی مجھے بہت پیارے ہو، جان سے پیارا کہہ نہیں سکتی کیونکہ اب میرے جسم سے جان نکل چکی ہے، لیکن میرا آپ سے وعدہ ہے جب آپ اس دنیا میں آؤ گے تو میں آپ کے لئے ڈھیر ساری گول روٹیاں پکاؤں گی۔ عدالت نے ایک سال کے بعد آپ کو سزائے موت سنا دی ہے۔ مجھے اب آپ کا انتظار ہے مگر بابا، یہاں سارے کہتے ہیں آپ جنت کے دروازے کو پار نہیں کر سکو گے۔ میں کیا کروں بابا، یہ وعدہ پورا نہیں ہو پائے گا۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا

تمہاری لاڈلی
انیقہ خالد
(انیقہ کے باپ کو چند روز قبل عدالت نے سزائے موت سنائی ہے)
Nov 5, 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments